انسان کے وجود پر اگر غور کیا جاے تو ہم کہتے ھین کے انسان گوشت ھڈی خون وغیرہ کا مجموعہ ہے, اور یہ کھاتا پیتا ہے چلتا پھرتا ہے جیتا ہے اور مرجاتا ہے
لیکن ان تمام باتوں میں انسان کی کوئ خصوصیت نہیں کہ یہ تمام کام تو جانور بھی کرتے ہیں انسان ہی کیوں اشرف المخلوقات ٹھرا
کیا انسان زیادہ کھاتا ہے اس لیے افضل ہے؟
.اگر یہ وجہ ہوتی تو بیل افضل ہوتا کہ اس کا پیٹ بڑا ہوتا ہیے
کیا انسان زیادہ بہادر ہوتا ہیے اس لیے افضل ہے؟
نھیں! اگر یہ وجہ ہوتی تو شیر افضل ہوتا کہ وہ زیادہ بہادر ہوتا ہے
کیا انسان بہت اونچے قد کی وجہ سے افضل ہے؟
ایسا بھی نہیں ہیے کہ اونٹ کا قد انسان سے اونچا ہوتا ہے
آخر کیا وجہ ہیے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا؟
علم ہی وہ صفت کہ جسکی وجہ سے انسان کو عام مخلوقات پر افضلیت حاصل ہوئی
اس بات کو ابن مبارک نے بیان کیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انسان کون ہیں
فرمایا علماء
امام ابن مبارک نے جاہل کو انسان ہی نہ شمار کیا کہ وہ انسان کی طرح ہیے, گویا انسان کی تصویر ہیں
درحقیقت انسان وہ ہیں جسے اللہ تعالی نے علم جیسی عظیم صفت سے مالا مال کیا ہیے, علم ہی وہ صفت ہیے کہ ایمان کے بعد جس پہ افضل و مفضول ہونے کا دارومدار ہیں
علم کا مقام بہت اعلی ہے
دیکھو قرآن میں جب فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں پھر تو کیوں بناتا ہیے ایسے کو جو زمین میں فساد پھیلاے گا کیو نکہ فرشتے دیکھ چکے تھے کہ جنات نے زمین میں خون ریزی فتنہ و فساد پھیلایا تھا مگر اللہ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے. اللہ نے حضرت آدم علیہ سلام کے سینے کو علم سے بھر دیا پھر فرمایا کہ انہیں سب چیزوں کے نام بتا دو پھر جب حضرت آدم علیہ سلام نے تمام چیزوں کے نام بتا دیے تو فرشتوں نے کہا کہ الہی تو ہی پاک ہیے.
یہاں ایک بات ضمنا اور کہونگا کہ علم و عمل کے ساتھ ساتھ ادب بھی بہت ضروری ہیے دیکھو شیطان کو کہ علم اتنا رکھتا تھا کہ فرشتوں کو پرھاتا تھا اور عمل یہ تھا کہ زمین کے چپے چپے پر عبادت کر چکا تھا لیکن ادب سے خالی
حضرت آدم علیہ سلام کے مقابلے میں اس نے غرور کیا نتیجہ کیا ہوا؟
قیامت تک کے لیے مردود ہوگیا کچھ کام نہیں آیا سچ ہیے کہ ادب پہلا قرینہ ہیے محبت کے قرینوں میں
ہر انسان ذندگی میں کچھ لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہیے اور کہتا ہیے کہ فلاں شخص میرا پکا دوست ہیے حالنکہ دوست تو وہ ہوتا ہیے کہ جب انسان پر سب بے مشکل وقت پڑے تو وہ ساتھ نہ چھوڑے اور انسان پے سب سے مشکل وقت قبر میں آتا ہے وہاں تو کوئ بھی ساتھ نھیں جاتا
تو کیوں نہ اس سے دوستی کی جاے جو قبر میں بھی ساتھ نہ چھوڑے علامہ جلال الدین سیوطی شرح صدور میں روایت لاتے ہیں کہ وہ شخص جسنے ساری ذندگی علم حاصل کرنے میں لگادی جب مرتا ہیے تو یہ علم اس کی قبر میں آجاتا ہیے اور قیامت تک اس کا دل بہلاتا ہیے انس دیتا ہیے
تو کیوں نہ علم سے دوستی کرلی جاے کہ جو دنیا اور آخرت میں ہمارا ساتھ دے
لوگ عمل کی بات کرتے ہیں لیکن اتنی بات نہیں سمجھتے کہ جو شخص ڈراےونگ نہ جانتا ہو وہ گاڑی کیسے چلا سکتا ہیے
جاہل جتنا کام کو سنوارنا چاہے گا اتنا ہی اور بگاڑے گا
یہاں حالت یہ ہیے کہ عمر گزر گی عبادت کرتے کرتے مگر آج تک نماز کے فرائض بھی نہ سیکھے
دسری طرف کچھ لوگ ولایت کا لبادہ اڑھے لوگوں کو علم سے دور کر رہے ہیں اور لوگوں کو سنے سناے سچے جھوٹے قصے سنا سنا کر اپنی دکان چمکارہے ہیں, ان لوگوں کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو علماء سے دور کیا جاے
اور درحقیقت علماء کی یہی شان ہیے کہ جس دور میں فتنہ اٹھا علماء نے حق کو بیان فرمایا ورنہ عوام مثل مردہ کے ہیے
اور حال یہ ہیے کے کوئ نبوت کا دعوہ کردے تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں کوئ خود کو امام اعظم ابو حنیفہ بتاے تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں
یہاں ایک زمے داری والدین کی بھی ہیے کہ اولاد کو بچپن سے ہی دین سکھاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی, کیوں کہ ہمارا معاشرہ کوئی گلستان نہیں ہیے کہ جہاں ہمارے بچے کھیل کود کر شام کو سہی سلامت گھر واپس آجاینگے بلکہ یہ ایک کانٹے دار جنگل ہیے یہاں اگر بچوں کو چھوڑ دیا تو ان کے پاوں زخمی ہوجاینگے
اور وہ غلط رستوں پر چل نکلینگے
میری ایک قادیانی سے بات ہوئ تو اس نے بتایا کے تمہارا ایک مسلمان پروفیسر قادیانیت کی تحقیق کرنے آیا تھا اور تحقیق کے بعد اب وہ قادیانی ہوگیا ہیے دیکھو ہمارا مذھب سچا ہیے جبھی لوگ قادیانی ہورہے ہیں
میں نے اس کو تو جواب دے دیا تھا مگر افسوس یہ ہوا کہ ہمارا مسلمان آج دین سے کتنا دور ہو چکا ہیں