ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے

•┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈•-
آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے
•┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈•-

سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔

(ترمذی، کتاب الزھد، باب۴۵،۴/۱۶۷حدیث:۲۳۸۵)

مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں :دین سے مراد یا تو ملت و مذہب ہے یا سیرت و اخلاق،دوسرے معنی زیادہ ظاہر ہیں یعنی عمومًا انسان اپنے دوست کی سیرت و اخلاق اختیار کرلیتا ہے کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کرلیتا ہے لہٰذا اچھوں سے دوستی رکھو تاکہ تم بھی اچھے بن جاؤ۔صوفیاء فرماتے ہیں لَاتُصَاحِبْ اِلَّامُطِیْعاً وَلَا تُخَالِلْ اِلَّا تَقِیّاً یعنی نہ ساتھ رہو مگر اللّٰہ(و) رسول کی فرمانبرداری کرنے والے کے نہ دوستی کرو مگر متقی سے۔
مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ  تعالٰی  علیہ مزید فرماتے ہیں : کسی سے دوستانہ کرنے سے پہلے اسے جانچ لو کہ اللّٰہ ورسول(عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا مطیع ہے یا نہیں !رب تعالیٰ فرماتاہے: وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ (پ۱۱،التوبہ:۱۱۹)

 (ترجمہ کنزالایمان:اور سچوں کے ساتھ ہو)
صوفیاء فرماتے ہیں کہ انسانی طبیعت میں اَخذ یعنی لے لینے کی خاصیت ہے،حریص کی صحبت سے حرص،زاہد کی صحبت سے زُہد و تقویٰ ملے گا۔خیال رہے کہ خُلَّت دلی دوستی کو کہتے ہیں جس سے محبت دل میں داخل ہوجائے۔یہ ذکر دوستی و محبت کا ہے کسی فاسِق و فاجِر کو اپنے پاس بٹھا کر متقی بنا دینا تبلیغ ہے،حضورِ اَنور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم ) نے گنہگاروں کو اپنے پاس بلاکر متقیوں کا سردار بنادیا
(مراٰ ۃ المناجیح،۶/۵۹۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
ہ•┈┈┈• ❁ •┈┈┈•ہ
شئیر کرنا نہ بھولیں تحریر پڑھنے کا شکریہ

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ...Free Download This Book In PDF

Book Tital: Syedna Siddiq e Akbar رضی اللہ تعالی عنہ
Presented by: TAHAFFUZ RESEARCH CENTER
FREE DOWNLOAD ✔

Click Here For Free Download This Book 

نوٹ:اس کتاب کو پڑھنے کے لیے آپکی ڈیواس میں پی ڈی ایف ریڈر  ہونا ضروری ہے ورنہ بک ڈائون لوڈ ہونے کے باوجود بھی نہیں کھلے گی


: استاد جی! یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!
یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے
اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔

لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا، اسے  اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟

استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا: سب لڑکوں کو چھٹی، تم سب لوگ جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو، اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے تندور پر ہوگی۔

ہفتے والے دن سارے طالبعلم تنور پر پہنچ گئے، جہاں استادجی پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہے تھے۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استادجی نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تندورکےمنڈھیر پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کو کہاں خرچ کیا ہےاس کا حساب دے گا۔

پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد جی نے  پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو دہم کیسے خرچ کیئے تھے۔

جلتے تندور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی شدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیئے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پاچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں شدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔

اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے،
حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔

استادجی نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تندور پر چھڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔ لڑکا جلدی سے تندور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ میں نے ایک درہم کا گھر کیلئے دھنیا خریدا تھی، اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔

 استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو: یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔

لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلٰی و ارفع ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ ۔۔۔آمین

"علم دین "


انسان کے وجود پر اگر غور کیا جاے تو ہم کہتے ھین کے انسان گوشت ھڈی خون وغیرہ کا مجموعہ ہے, اور یہ کھاتا پیتا ہے چلتا پھرتا ہے جیتا ہے اور مرجاتا ہے
لیکن ان تمام باتوں میں انسان کی کوئ خصوصیت نہیں کہ یہ تمام کام تو جانور بھی کرتے ہیں انسان ہی کیوں اشرف المخلوقات ٹھرا

کیا انسان زیادہ کھاتا ہے اس لیے افضل ہے؟
.اگر یہ وجہ ہوتی تو بیل افضل ہوتا کہ اس کا پیٹ بڑا ہوتا ہیے

کیا انسان زیادہ بہادر ہوتا ہیے اس لیے افضل ہے؟
نھیں! اگر یہ وجہ ہوتی تو شیر افضل ہوتا کہ وہ زیادہ بہادر ہوتا ہے


کیا انسان بہت اونچے قد کی وجہ سے افضل ہے؟ 
ایسا بھی نہیں ہیے کہ اونٹ کا قد انسان سے اونچا ہوتا ہے
آخر کیا وجہ ہیے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا؟
علم ہی وہ صفت کہ جسکی وجہ سے انسان کو عام مخلوقات پر افضلیت حاصل ہوئی
اس بات کو ابن مبارک نے بیان کیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انسان کون ہیں
فرمایا علماء
امام ابن مبارک نے جاہل کو انسان ہی نہ شمار کیا کہ وہ انسان کی طرح ہیے, گویا انسان کی تصویر ہیں
درحقیقت انسان وہ ہیں جسے اللہ تعالی نے  علم جیسی عظیم صفت سے مالا مال کیا ہیے, علم ہی وہ صفت ہیے کہ ایمان کے بعد جس پہ افضل و مفضول ہونے کا دارومدار ہیں 
علم کا مقام بہت اعلی ہے
دیکھو قرآن میں جب فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں پھر تو کیوں بناتا ہیے ایسے کو جو زمین میں فساد پھیلاے گا کیو نکہ فرشتے دیکھ چکے تھے کہ جنات نے زمین میں خون ریزی فتنہ و فساد پھیلایا تھا مگر اللہ نے   فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے. اللہ نے حضرت آدم علیہ سلام  کے سینے کو علم سے بھر دیا پھر فرمایا کہ انہیں سب چیزوں کے نام بتا دو پھر جب حضرت آدم علیہ سلام نے تمام چیزوں کے نام بتا دیے تو فرشتوں نے کہا کہ الہی تو ہی پاک ہیے.
یہاں ایک بات ضمنا اور کہونگا کہ علم و عمل کے ساتھ ساتھ ادب بھی بہت ضروری ہیے دیکھو شیطان کو کہ علم اتنا رکھتا تھا کہ فرشتوں کو پرھاتا تھا اور عمل یہ تھا کہ زمین کے چپے چپے پر عبادت کر چکا تھا لیکن ادب سے خالی
حضرت آدم علیہ سلام  کے مقابلے میں اس نے غرور کیا نتیجہ کیا ہوا؟ 
قیامت تک کے لیے مردود ہوگیا کچھ کام نہیں آیا سچ ہیے کہ ادب پہلا قرینہ ہیے محبت کے قرینوں میں
ہر انسان ذندگی میں کچھ لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہیے اور کہتا ہیے کہ فلاں شخص میرا پکا دوست ہیے حالنکہ دوست تو وہ ہوتا ہیے کہ جب انسان پر سب بے مشکل وقت پڑے تو وہ ساتھ نہ چھوڑے اور انسان پے سب سے مشکل وقت قبر میں آتا ہے وہاں تو کوئ بھی ساتھ نھیں جاتا
تو کیوں نہ اس سے دوستی کی جاے جو قبر میں بھی ساتھ نہ چھوڑے علامہ جلال الدین سیوطی شرح صدور میں روایت لاتے ہیں کہ وہ شخص جسنے ساری ذندگی علم حاصل کرنے میں لگادی جب مرتا ہیے تو یہ علم اس کی قبر میں آجاتا ہیے اور قیامت تک اس کا دل بہلاتا ہیے انس دیتا ہیے
تو کیوں نہ علم سے دوستی کرلی جاے کہ جو دنیا اور آخرت میں ہمارا ساتھ دے
لوگ عمل کی بات کرتے ہیں لیکن اتنی بات نہیں سمجھتے کہ جو شخص ڈراےونگ نہ جانتا ہو وہ گاڑی کیسے چلا سکتا ہیے
جاہل جتنا کام کو سنوارنا چاہے گا اتنا ہی اور بگاڑے گا
یہاں حالت یہ ہیے کہ عمر گزر گی عبادت کرتے کرتے مگر آج تک نماز کے فرائض بھی نہ سیکھے
دسری طرف کچھ لوگ ولایت کا لبادہ اڑھے لوگوں کو علم سے دور کر رہے ہیں اور لوگوں کو سنے سناے سچے جھوٹے قصے سنا سنا کر  اپنی دکان چمکارہے ہیں, ان لوگوں کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو علماء سے دور کیا جاے 
اور درحقیقت علماء کی یہی شان ہیے کہ جس دور میں فتنہ اٹھا علماء نے حق کو بیان فرمایا ورنہ عوام مثل مردہ کے ہیے 
اور حال یہ ہیے کے کوئ نبوت کا دعوہ کردے تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں کوئ خود کو امام اعظم ابو حنیفہ بتاے تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں 
یہاں ایک زمے داری والدین کی بھی ہیے کہ اولاد کو بچپن سے ہی دین سکھاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی, کیوں کہ ہمارا معاشرہ کوئی گلستان نہیں ہیے کہ جہاں ہمارے بچے کھیل کود کر شام کو سہی سلامت گھر واپس آجاینگے بلکہ یہ ایک کانٹے دار جنگل ہیے یہاں اگر بچوں کو چھوڑ دیا تو ان کے پاوں زخمی ہوجاینگے
اور وہ غلط رستوں پر چل نکلینگے
میری ایک قادیانی سے بات ہوئ تو اس نے بتایا کے تمہارا ایک مسلمان پروفیسر قادیانیت کی تحقیق کرنے آیا تھا اور تحقیق کے بعد اب وہ قادیانی ہوگیا ہیے دیکھو ہمارا مذھب سچا ہیے جبھی لوگ قادیانی ہورہے ہیں
میں نے اس کو تو جواب دے دیا تھا مگر افسوس یہ ہوا کہ ہمارا مسلمان آج دین سے کتنا دور ہو چکا ہیں