ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

اشتہارات کے بغیر انٹرنیٹ استعمال کریں

اس آرٹیکل کے لکھنے کا مقصد مسلمانوں کو گناہ سے بچانا ہے۔

1.     اپنے انٹر نیٹ Browser پر Ad Block Plus کی پلگ ان ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کریں جس کے بعد یہ پلگ ان اپنی معیاری سیٹنگ کے مطابق تمام اشتہارات بلاک کر دے گی۔
2.     یہ پلگ ان Firefox, Chrome, Opera, Android کےBrowsers کو سپورٹ کرتی ہے۔
3.     اگر آپ کسی خاص اشتہار یا ویڈیو کو کسی بھی ویب سائٹ سے بلاک کرنا چاہیں تو اس اشتہار پر اپنے ماؤس سے رائٹ کلک کریں اور نئے کھلنے والے مینؤ(Menu) میں Ad Block یا Block Element کے لنک پر کلک کر دیں۔
4.     یہ پلگ ان ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں اور اپنے Browser کے لحاظ سے یہ پلگ ان ڈاؤن لوڈ کر لیں۔
*نوٹ : اس آرٹیکل کے لکھنے کا مقصد مسلمانوں کو گناہ سے بچانا ہے۔
آپ کو یہ آرٹیکل کیسا لگا ؟ نیچے دیے گئے کمنٹ باکس میں اپنے تاثرات ضرور دیجئے۔

احکامِ تراویح •شئیر کریں


             🌹  احکامِ تراویح 🌹
🌹 تروایح ھر عاقل و بالغ مرد اور عورت کیلئے سنتِ مؤکدہ ھے ۔اسکا ترک جائز نہیں ،
۔ درمختار ج 2 ص 493 ۔
🌹 تراویح کی بیس رکعت ہیں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں ،
۔السنن الکبرٰی للبیہقی ج2ص 299 رقم 4617 ۔
🌹 تراویح کی جماعت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ھے ،
۔ ھدایہ ج 1 ص70۔
🌹 تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادق تک ھے ، عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے ادا کر لی تو نہ ھوگی ،
۔عالمگیری ج 1 ص 115۔
🌹 عشاء کے فرض و وتر کے بعد بھی تراویح ادا کی جا سکتی ھے ، در مختار ج2ص 494۔
🌻 جیسا کہ بعض اوقات 29 کو رویتِ ھلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ھے ،
🌹 مُستحبّ یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کی جائے اگر آدھی رات کے بعد بھی پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ،
درمختار ،ج 2 ص 495
🌹 تراویح اگر فوت ہوئی تو اسکی قضا نہیں ،
درمختار ،ج2 ص 494
🌹 بہتر یہ ہے کی تراویح کی بیس رکعتیں دو دو کرکے دس سلام کے ساتھ ادا کرے ،
درمختار،ج2 ص 495
🌹 تراویح کی ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرے ، درمختار ج 2 ص 494 ،
🌹 بِلاعذر بیٹھ کر تراویح ادا کرنا مکروہ ھے،بلکہ بعض فقہاء کرام کے نزدیک ہوتی ہی نہیں، درمختارج2ص499
🌹 تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ھے ،اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو ہو جائیگی ،مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں ادا کرنے کا تھا،
عالمگیری ج1ص 116
🌹 تراویح میں پورا کلام اللہ پڑھنا اور سننا سنتِ مؤکدہ ھے،
فتاوی رضویہ ج7ص458،
🌹 اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ھو جائے تو جتنا قرآن پاک اُن رکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اعادہ کیا جائے ،تاکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ رھے ،
عالمگیری ج1 ص 118
🌹 امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُستحب یہ ھے کہ اُسے پڑھ کر آگے بڑھے ، عالمگیری ج 1 ص 118
🌹 الگ الگ مسجد میں تراویح ادا کر سکتا ھے جبکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ ہو،
🌹 تراویح کی دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسر ی کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے آخر میں سجدۂ سہو کرلے اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کرلےمگر یہ دو شمار ہونگی،ہاں اگر دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ھوئیں ، عالمگیری،ج۔1 ص 118
🌹 تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ، ان کے بدلے کی دو رکعتیں دوبارہ ادا کرے،عالمگیری،ج۔1 ص118

🌹سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ھے دو ھوئیں کوئی کہتا ھے تین ، تو امام کو جو یاد ہے  اسکا اعتبار ھے،اگر امام خود بھی تذبذب کا شکار ہے تو جس پر اعتماد ہو اسکی بات مان لے، عالمگیری ج1 ص 117
🌹 اگر لوگوں کو شک ھو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ ؟ تو دو رکعت ہر بندہ تنہا تنہا ادا کرے ، عالمگیری ج2 ص 117
🌹 افضل یہ ھے کہ ہر دو رکعت میں قِراءت برابر ہو ،اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں، ج 1 ص 117
🌹 امام و مقتدی ہر دو رکعت کی ابتداء میں ثناء پڑھیں امام تعوذ و تسمیہ بھی پڑھے،اور التحیات کے بعد درودِ ابراھیم اور دعا بھی،
در مختار ج2 ص 498
🌹 اگر 27 ویں کو یا اس سے قبل قرآن پاک ختم ھو گیا تب بھی آخر رمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنت مؤکدہ ھے ، عالمگیری ج 1 ص 118
🌹 بعض مقتدی بیٹھے رہتے ہیں جب امام رکوع کرنے والا ہوتا ھے تب کھڑے ہوتے ہیں یہ مُنافقین کی علامت ھے ،
بہارِ شریعت ،حصہ 4 ص 36
🌹 رمضان المبارک میں وتر جماعت سے ادا کرنا افضل ہے،مگر جس نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے ادا کیےوہ وتر بھی تنہا ادا کرے، بہارِشریعت ،حصہ 4 ص36
🌹 ایک امام کے پیچھے عشاء کے فرض دوسرے کے پیچھے تراویح اور تیسرے کے پیچھے وتر پڑھے اِس میں حرج نہیں ،
🌹 حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرض و وتر کی جماعت خود کرواتے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے ،
عالمگیری ج1 ص 116


روزے کا فدیہ ادا کرنے کی اجازت کس شخص کو ہے؟



امام اہل سنت مجدد دین وملت مولانا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:
٭طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں، اکثر اوقات شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہرگز نہ ہوسکے اور کریں گے تو مرجائیں گے، بیمار پڑ جائیں گے، پھر جب خداپر بھروسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اﷲتعالیٰ ادا کرادیتا ہے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا، معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا دھوکا تھا 75برس عمر میں بہت لوگ روزے رکھتے ہیں۔
٭ ہاں ایسے کمزور بھی ہوسکتے ہیں کہ ستّر ہی برس کی عمر میں نہ رکھ سکیں تو شیطان کے وسوسوں سے بچ کر خوب صحیح طور پر جانچ چاہئے، ایک بات تو یہ ہُوئی۔
٭دوسری یہ کہ ان میں بعض کو گرمیوں میں روزہ کی طاقت واقعی نہیں ہوتی مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں یہ بھی کفارہ(فدیہ) نہیں دے سکتے بلکہ گرمیوں میں قضا کرکے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔
٭تیسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض لگاتار مہینہ بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے مگر ایک دودن بیچ کرکے رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکیں اُتنے رکھنا فرض ہے جتنے قضا ہوجائیں جاڑوں میں رکھ لیں۔
٭چوتھی بات یہ ہے کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفار ہ(فدیہ) دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبل شفاموت آجائے تواس وقت کفارہ (فدیہ)کی وصیت کردیں۔
٭غرض یہ ہے کہ کفارہ (فدیہ)اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق، اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کر دیا کہ روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھا پا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ (فدیہ)کاحکم ہے۔
٭ہر روزے کے بدلے ایک فدیہ دے،فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے اور ایک صدقہ فطر کی مقدار تقریباً 1920 گرام (یعنی دو کلو میں اَسّی گرام کم)گندم، آٹا یااس کی رقم ہے ۔
 )ملخص از فتاوی رضویہ جلد 10صفحہ547(
٭اسے کفارہ کا اختیار ہے کہ روز کا روز دے دے یا مہینہ بھر کا پہلے ہی ادا کردے یا ختمِ ماہ کے بعد کئی فقیر وں کو دے یا سب ایک ہی فقیر کو دے سب جائز ہے۔

مزید شرعی مسائل اور علمی و تحقیقی پوسٹ پڑھنے بہترین ویڈیوز دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں