ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ حیات وتعلیمات

امام اہلسنت کے 99عرس مبارک کے موقع پر خصوصی تحریر



اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی۔
ولادت مبارکہ:

آپ کی ولادت مبارکہ 10 شوال المکرم 1272ھ م12 جون1856 ء،بروز اتوار ، ہندوستان کےمشہور شہر بریلی کے محلہ”جسولی“میں ہوئی۔

اسم گرامی ولقب مبارک:

آپ کے جدا مجد حضرت مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نام”احمد رضا“رکھاجبکہ آپ کا پیدائشی نام "محمد"تھا،اور تاریخی نام " المختار "ہے-

آپ کا لقب مبارک "اعلی حضرت"زبان زد خاص وعام ہے-

آپ "رضا"بطور تخلص استعمال فرماتے تھے،آپ نے اپنےاسم گرامی کے ساتھ"عبد المصطفی "کا اضافہ بھی فرمایا،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو 'تو ہے عبد مصطفی

تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جد امجد کا نام مبارک حضرت مولانارضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھا-

یہ دونوں حضرات اپنے وقت کے جلیل القدر علماءِ کرام میں شمار کئے جاتے تھے۔

آپ کی تربیت ایک علمی گھرانہ میں ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے صرف چار ، پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا تھا اور اپنی بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوت حافظہ کی بناء پر صرف تیرہ سال اور دس ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ علم کلام اور مروجہ علوم دینیہ کی تکمیل کرلی۔

آپ علم وفضل کے اتنے بلندترین مقام پر فائز تھے کہ عرب و عجم کے علماء کرام نے شاندارالفاظ میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا اورعظیم الشان القاب سےنوازا۔

1295ھ/1878ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اپنے والد کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کیلئے حاضر ہوئے،مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مشہور شافعی عالم دین حضرت" شیخ حسین بن صالح" آپ سے بے حد متاثر ہوئے اور آپ کی بڑی تحسین و تکریم فرمائی،انہوں نے آپ کا یہ حیرت انگیز کارنامہ دیکھا کہ آپ نے صرف ایک دن میں ان کی کتاب ”الجوھرۃالمضیۃ“کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ”النیرۃالوضیۃ فی شرح الجوھرۃ المضیۃ“کے نام سےتصنیف فرمائی۔

اس کے بعد آپ نے اس کتاب میں کچھ تعلیقات اور حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کتاب کا تاریخی نام”الطرۃ الرضیۃ فی النیرۃ الوضیۃ “ تجویز فرمایا۔

اسی طرح1322 ھ/1905ء میں آپ دوبارہ زیارت حرمین شریفین کے لیے گئے تو اس بار وہاں کے علماء کبار کیلئے نوٹ (کرنسی) کے ایک مسئلے کا حل ”کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم“کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الدولۃ المکیّہ“بھی تحریر فرمائی، جس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کے اثبات پرعالمانہ اور محققانہ بحث فرمائی اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کوقرآن کریم واحادیث شریفہ کی روشنی میں ثابت فرمایاہے۔

آپ کی تصانیف،مؤلفات ،رسائل اور کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگارنگ جلوے نظر آتے ہیں،آپ کے نظم ونثر میں محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عنصر غالب رہا-جس کی چند مثالیں یہ ہیں:



اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ

ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

دربار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح معروضہ کرتے ہیں

اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا

تم نے چلے پھرتے مردے جلادئے ہیں

آنے دو یا ڈوبودو اب تو تمہاری جانب

کشتی تم ہی پہ چھوڑی لنگر اٹھادئے ہیں

ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود وعطا سے متعلق فرماتے ہیں:

واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحاتیرا

"نہيں"سنتا ہی نہیں مانگنے والاتیرا

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا



دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا

فیض ہے یا شہِ تسنیم نِرالا تیرا

آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا



اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا

اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا



تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

رفعت شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق فرماتے ہیں:

فرش والے تری شوکت کا عُلو کیا جانیں

خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیر 



حضرات اہل بیت کرام کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں

تیری نسل پاک میں ہےبچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

آپ کو بارگاہ غوثیت سے اٹوٹ وابستگی تھی،بارگاہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ میں آپ نے اس طرح نذرانۂ عقیدت پیش کیا

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سَروں سے قدم اعلیٰ تیرا



سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا

اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا



تجھ سے در، در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کونسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا



اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے

حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا


میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد

ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا





حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حضرت غوث اعظم کا اس طرح وسیلہ پیش کیا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

مذہب و مشرب
اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نسبت کے لحاظ سے" پٹھان" تھے،مسلک کے اعتبار سے "حنفی"اور مشرب کے لحاظ سے قادری تھے
شرفِ بیعت وخلافت
1295ھ/1877ء میں حضرت شاہ آل رسول مار ہروی رحمہ اللہ سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے اور دیگر سلاسل مثلاً سلسلۂ چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ وغیرہ میں دوسرے مشائخ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔

تصانیف
آپ نے شان رسالت ،فضائل ومناقب اور عقائد پر (62)کتا بیں تحریر فرمائیں،حدیث اور اصول حدیث پرتیرہ(13)کتابیں،علم کلام اور مناظرہ پر(35)فقہ اور اصول فقہ پر 159 کتابیں اور متفرق باطل فرقوں کے رد میں (400)سے زائد کتابیں لکھی-
آپ کی تصانیف میں ایک شہرۂ آفاق کتاب"العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ "جو "فتاوی رضویہ"کے نام سے جانی جاتی ہے-
آپ نے اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی فرمایا،جس کا نام "کنز الایمان"ہے-
وصال مبارک
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک 25،صفر المظفر1340ھ م 28 اکٹوبر 1921،بروز جمعہ ادھر مؤذن صاحب اذان جمعہ میں "حی علی الفلاح"کہا اور ادھر آپ نےکلمۂ طیبہ پڑھا،اور مولانا مصطفی رضا خان صاحب سے فرمایا :سورۂ یسین شریف اور سورۂ رعد شریف تلاوت کرو!اس کے بعد آپ کے چہرۂ مبارک پر ایک نور ظاہر ہوااورآپ اس دنیا ئے فانی سے کوچ فرماگئے-

شرک کی اقسام

شرک کی تین اقسام ہیں:
(1)
شرک فی العبادۃ 
(2)
شرک فی الذات 
(3)
شرک فی الصفّات

-=====•••=====-

(1)
 شرک فی العبادۃ سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔
(2)
 شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے۔
(3)
 شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتاہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ...یا ...کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ...یا... فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ...یا... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گاجو ناقابلِ معافی جرم اورظلمِ عظیم ہے ۔
شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتاہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتاہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔
1)
۔۔۔اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے :
القرآن: اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤ ف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ ،آیت143پارہ 2 )
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے،کہ ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ o
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں۔(سورۂ توبہ، آیت128پارہ 11)
پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟.....
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اوررحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اوررحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا

" خدا کی تلاش "



دنیا کا کوی انسان ہو, کسی مزھب سے تعلق رکھتا ہو, کیسی ہی فکر رکھتا ہو, مگر خدا کی تلاش کی جستجو ضرور اس کے دل میں ہوتی ہے, کیون کہ خدا کو ماننے کی, خدا کو تلاش کرنے کی جستجو انسان کی فطرت میں شامل ہے, اس مقصد کے حصول کے لیے وہ در در پھرتا ہے, اور کبھی کبھی اس مقصد میں کامیابی نصیب ہوجاتی ہے, اور کبھی انسان خود کو دونوں جہانوں میں برباد کر بیٹھتا ہے, اس لیے کہ اس نے خدا تک تو پہنچنا  چاہا, مگر درست راستے کا انتخاب نہ کیا, خدا تک رسائ کے راستے کے تعین کا دارومدار انسانی فکر پر نہیں ہے, اسے خود انتخاب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود خدا تک پہنچنے کا معیار مقرر کرے, بلکہ خدا تک وہی راستہ جاے گا جو اس نے خود بتایا ہو, 
اور وہ صرف وحی کی صورت میں مدلل طریقے سے ظاہر ہوا, اور اپنے چنے ہوے انبیاء کو بھیج کر اور انھیں معجزات دے کر دنیا کو عاجز کردیا کہ انکار کا راستہ ہی نہ رہا, ساتھ ہی قرآن کی حفاظت,اور حقانیت کا چیلج دے کر قیامت تک قرآن کی حجیت کو بھی قائم کردیا,
مگر وہ لوگ جنھوں نے خدا تک پہنچنے کے لیے اپنے من سے قاعدے گھڑ لیے, وہ کافر ہی رہے مگر خدا تک نہ پہنچ سکے کیوں ?
اس لیے کہ انھوں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ نہ بنایا, بلکہ مطلقا انسانی ہمدردی, سچائ, انصاف پسندی, وغیرہ نیک اعمال کو ہی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ لیا, جیسے ہم سکھ مت کی مثال لے سکتے ہیں, سکھ مت کے بانی گرو نانک تقریبا ساڑے چار سو سال پہلے ہندو گھرانے میں پیدا ہوے, ہوش سنبھالتے ہی بت پرستی سے طبیعت بیزار ہوگئ, اور خدا کی تلاش میں نکل پڑے,  دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی, اور اپنے چاہنے والوں کو ایک رب کو ماننے اور نیک اعمال کی ترغیب دیتے رہے, آج بھی سکھ خدا کے وجود کے قائل ہیں مگر ہھر بھی اس کی معرفت حاصل نہ کر سکے اس لیے کہ جو فکر انھیں دی گئ تھی وہ خود ساختہ تھی, انسان کا اپنا بنایا ہوا ایک راستہ تھا, لھزہ یہ فکر ساڑے چار سو سال پرانی ہے, اور کسی بھی گروہ کے حق پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس کی فکری تاریخ کے مطابق کیا جانا چاہیے, اسلام اگر چہ چودہ سو سال پہلے دنیا میں آیا مگر ان ہی نظریات کے ساتھ کے جو حضرت آدم علیہ السلام کے تھے یعنی اللہ پر ایمان اور اس تک پہنچنے کا جو وسیلہ ہیں یعنی اللہ کے نبی پر, تو اپنے افکار,عقائد و نظریات کے اعتبار سے اسلام دنیا کا پہلا مزھب ہے.
نیک اعمال کا تصور اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے کہ جب اس کے ساتھ عقیدہ آخرت پر بھی ایمان لایا جاے, جو کہ سکھ مت میں مفقود ہے.
اور عقیدہ آخرت قرآن سے ثابت ہے, قرآن کلام الہی ہے جو ہمارے نبی کریم علیہ الصلاة و السلام پر نازل ہوا تو ان تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوے ہیں. یقینا کوی عمل اسی وقت نیکی بن سکتا ہے جب یہ بات کنفرم ہوجاے کہ یہ کام اللہ کو پسند ہے, اور یہ وحی الہی سے ہی ممکن ہے,جس کے کیے نبی پہ ایمان لانا ضروری ہے.
اسی طرح بدھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے نظریات ہیں, یہ لوگ گوتم بدھ کو اپنا خدا مانتے ہیں, اور اسکا بت بنا کر اسکی پوجا کرتے ہیں, گوتم بدھ بھی ہندو گھرانے میں پیدا ہوا, اس کا اصلی نام ساکھیا منی تھا, لقب گوتم بدھ اور بدھا تھا, یہ قبل مسیح کا دور تھا, گوتم بدھ بھی سیدھے راستے کی تلاش میں نکلا, جنگل جنگل دریا دریا گھوما, بلآخر کہا کہ بس سب سے محبت کر اور کسی کو نہ ستا, گوتم بدھ نے بھی محبت ہمدردی, انصاف, معافی جیسے نیک اعمال کو اپنایا اور اسی کا درس اپنے تمام ماننے والوں کو دیا, آج برما میں ان کے ماننے والوں کا حال دیکھ کر یہی بات دل سے نکلتی ہے کہ اگر آج گوتم بدھ زندہ ہوتے تو یقینا اپنے ماننےوالوں سے برأت کا اظہار کرتے.

گوتم بدھ کے نظریات مطلقا اعمال تک محدود رہے.یہی وجہ ہے کہ آج کے بدھسٹ نیک اعمال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے, بلکہ خدا کے ہی منکر ہوگے, تو اس تمام معلومات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیک اعمال مطلقا نفع بخش نہیں ہوتے, اور نہ ہی ان کے زریعے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے, خدا تک رسائ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے اس کے محبوب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہر ایمان لانا...
پھر جب ان کو مان لیا, اور ان کی پیروی کر لی تو تم اس کو ڈھونڈنے نکلے تھے, اسے اپنانے نکلے تھے, وہ تمہیں مل بھی جاے گا تمہیں اپنا محبوب بھی بنا لیگا.. 

بزبان اعلیحضرت :

با خدا خدا کا یہی ہے در, نہیں اور کوی مفر مقر.

جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو, جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں...

ستاروں کی کیاحقیقت ہے؟؟

موضوع: ستاروں کی کیاحقیقت ہے؟؟


حضرت ابوہریرہ بیان کرتےہیں
رسول الله صلى الله عليه وسلم
نےفرمایا;
کیاتمھیں نہیں معلوم کہ تمھارے
رب نےکیافرمایا؟
اس نےفرمایامیں اپنےبندوں کو
جب کوئی نعمت دیتاہوں توان
میں سےایک گروہ ناشکری کرتا
ہےاورکہتاہےکہ یہ نعمت مجھ کو
فلاں ستارےیاستاروں سےملی
ہے.(صحیح مسلم)

اہل نجوم یعنی ستارہ پرست جو
ستاروں کی تاثیر کےقائل ہیں
کہتےہیں کہ فلاں ستارہ جب
فلاں برج پرپہنچ جاۓ تومثلا
بارش ہوگی یا قحط پڑتاہےیا
دریاؤں اورسمندروں میں
طوفان آتےہیں یافصل پیداہوتی
ہےوغیرہ وغیرہ.
اسی طرح یہ لوگ انسان کےنام
اوراس کی تاریخ پیدائش سے
اس کاستارہ نکالتےہیں اور بتاتے
ہیں کہ اس کی پیدائش کےوقت
اس کاستارہ فلاں برج میں تھا
اوریہ ستارہ سعدہےیانحس ہے
اورپھراس کی زندگی میں رونما
ہونےوالےتمام واقعات کارشتہ
اس ستارےکےسفرسےجوڑتےہیں
کہ جب یہ ستارہ فلاں برج میں
پہنچےگاتومثلا اس کوسفرمیں
کامیابی ہوگی یانوکری ملےگی
وغیرہ وغیرہ.
یہ تمام اٹکل پچو اور ﮈھکوسلے
ہیں اب بھی اخبارات میں اس
قسم کےکالم شائع ہوتےہیں کہ
آپ کایہ ہفتہ کیسےگزرےگااور
اس ہفتہ میں ہونےوالےتمام
واقعات کی پیشگی خبریں دی
جاتی ہیں,
یہ تمام باتیں بےاصل ہیں اور
زمانہ جاہلیت کی یادگارہیں,
اسلام میں انکی کوئی اصل نہیں
ہے, الله تعالی اور اس کےرسول
نےان کاسخت رد کردیاہےاورجو
شخص ان باتوں کوسچ اور حق
باور کرےوہ شریعت محمدی کا
انکارکرتاہےاوراس کےکفرمیں
کوئی شک نہیں.
اسی طرح فٹ پاتھ پربیٹھ کرجو
لوگ طوطےکےﺫریعےقسمت کا
حال بتاتےہیں یاجوہاتھ کی
لکیریں دیکھ کرغیب پرمطلع
کرتےہیں, ان کی بتائی ہوئی
باتوں پریقین کرنابھی کفرہے.

(شرح صحیح مسلم,جلد ١،
علامہ غلام رسول سعیدی
رحمةالله عليه)

فضیلت اہلبیت

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاء و المرسلین۔

فضیلت اہلبیت

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل|موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی ﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب ﷲ (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘



أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم : 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.بشکریہ المنھاج السوی۔ 




نعت پاک ﷺ


سرتا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول




تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا
تمؐ چاہو ہو تو ہوجائے ابھی کوہ محن پھول




واللہ جو مل جائے مرے گلؐ کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول




دل بستہ وہ خوں گشتہ نہ خوشبو نہ لطافت
کیوں غنچہ کہوں ہے مرے آقاؐ کا دہن پھول




شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دم صبح
شوخان بہاری کے جڑاؤ ہیں کرن پھول




دندان و لب و زلف و رخ شہ کے فدائی
ہیں درعدن ‘ لعل یمن ‘ مشک ختن پھول




بوہو کے نہاں ہوگئے تاب رخ شہ میں
لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کے دہن پھول




ہوں بار گنہ سے نہ خجل دوش عزیزاں
للہ مری نعش کراے جان چمن پھول




دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا
اتنا بھی مہ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول




دل کھول کے خوں رولے غم عارض شہ میں
نکلے تو کہیں حسرت خوں نا بہ شدن پھول




کیا غازہ ملا گرد مدینہ کا جو ہے آج
نکھرے ہوئے جوبن میں قیامت کی پھبن پھول




گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر
بلبل کو بھی اے ساقی صہبا و لبن پھول




ہے کون کے گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے
بیکس کے اٹھائے تریؐ رحمت کے بھرن پھول




دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے
سورج ترے خرمن کو بنے تیری کرن پھول




کیا بات رضاؔ اس چمنستان کرم کی
زہراؓہے کلی جس میں حسینؓ اور حسن پھول


اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلویؒ


اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔