دنیا کا کوی انسان ہو, کسی مزھب سے تعلق رکھتا ہو, کیسی ہی فکر رکھتا ہو, مگر خدا کی تلاش کی جستجو ضرور اس کے دل میں ہوتی ہے, کیون کہ خدا کو ماننے کی, خدا کو تلاش کرنے کی جستجو انسان کی فطرت میں شامل ہے, اس مقصد کے حصول کے لیے وہ در در پھرتا ہے, اور کبھی کبھی اس مقصد میں کامیابی نصیب ہوجاتی ہے, اور کبھی انسان خود کو دونوں جہانوں میں برباد کر بیٹھتا ہے, اس لیے کہ اس نے خدا تک تو پہنچنا چاہا, مگر درست راستے کا انتخاب نہ کیا, خدا تک رسائ کے راستے کے تعین کا دارومدار انسانی فکر پر نہیں ہے, اسے خود انتخاب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود خدا تک پہنچنے کا معیار مقرر کرے, بلکہ خدا تک وہی راستہ جاے گا جو اس نے خود بتایا ہو,
اور وہ صرف وحی کی صورت میں مدلل طریقے سے ظاہر ہوا, اور اپنے چنے ہوے انبیاء کو بھیج کر اور انھیں معجزات دے کر دنیا کو عاجز کردیا کہ انکار کا راستہ ہی نہ رہا, ساتھ ہی قرآن کی حفاظت,اور حقانیت کا چیلج دے کر قیامت تک قرآن کی حجیت کو بھی قائم کردیا,
مگر وہ لوگ جنھوں نے خدا تک پہنچنے کے لیے اپنے من سے قاعدے گھڑ لیے, وہ کافر ہی رہے مگر خدا تک نہ پہنچ سکے کیوں ?
اس لیے کہ انھوں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ نہ بنایا, بلکہ مطلقا انسانی ہمدردی, سچائ, انصاف پسندی, وغیرہ نیک اعمال کو ہی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ لیا, جیسے ہم سکھ مت کی مثال لے سکتے ہیں, سکھ مت کے بانی گرو نانک تقریبا ساڑے چار سو سال پہلے ہندو گھرانے میں پیدا ہوے, ہوش سنبھالتے ہی بت پرستی سے طبیعت بیزار ہوگئ, اور خدا کی تلاش میں نکل پڑے, دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی, اور اپنے چاہنے والوں کو ایک رب کو ماننے اور نیک اعمال کی ترغیب دیتے رہے, آج بھی سکھ خدا کے وجود کے قائل ہیں مگر ہھر بھی اس کی معرفت حاصل نہ کر سکے اس لیے کہ جو فکر انھیں دی گئ تھی وہ خود ساختہ تھی, انسان کا اپنا بنایا ہوا ایک راستہ تھا, لھزہ یہ فکر ساڑے چار سو سال پرانی ہے, اور کسی بھی گروہ کے حق پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس کی فکری تاریخ کے مطابق کیا جانا چاہیے, اسلام اگر چہ چودہ سو سال پہلے دنیا میں آیا مگر ان ہی نظریات کے ساتھ کے جو حضرت آدم علیہ السلام کے تھے یعنی اللہ پر ایمان اور اس تک پہنچنے کا جو وسیلہ ہیں یعنی اللہ کے نبی پر, تو اپنے افکار,عقائد و نظریات کے اعتبار سے اسلام دنیا کا پہلا مزھب ہے.
نیک اعمال کا تصور اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے کہ جب اس کے ساتھ عقیدہ آخرت پر بھی ایمان لایا جاے, جو کہ سکھ مت میں مفقود ہے.
اور عقیدہ آخرت قرآن سے ثابت ہے, قرآن کلام الہی ہے جو ہمارے نبی کریم علیہ الصلاة و السلام پر نازل ہوا تو ان تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوے ہیں. یقینا کوی عمل اسی وقت نیکی بن سکتا ہے جب یہ بات کنفرم ہوجاے کہ یہ کام اللہ کو پسند ہے, اور یہ وحی الہی سے ہی ممکن ہے,جس کے کیے نبی پہ ایمان لانا ضروری ہے.
اسی طرح بدھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے نظریات ہیں, یہ لوگ گوتم بدھ کو اپنا خدا مانتے ہیں, اور اسکا بت بنا کر اسکی پوجا کرتے ہیں, گوتم بدھ بھی ہندو گھرانے میں پیدا ہوا, اس کا اصلی نام ساکھیا منی تھا, لقب گوتم بدھ اور بدھا تھا, یہ قبل مسیح کا دور تھا, گوتم بدھ بھی سیدھے راستے کی تلاش میں نکلا, جنگل جنگل دریا دریا گھوما, بلآخر کہا کہ بس سب سے محبت کر اور کسی کو نہ ستا, گوتم بدھ نے بھی محبت ہمدردی, انصاف, معافی جیسے نیک اعمال کو اپنایا اور اسی کا درس اپنے تمام ماننے والوں کو دیا, آج برما میں ان کے ماننے والوں کا حال دیکھ کر یہی بات دل سے نکلتی ہے کہ اگر آج گوتم بدھ زندہ ہوتے تو یقینا اپنے ماننےوالوں سے برأت کا اظہار کرتے.
گوتم بدھ کے نظریات مطلقا اعمال تک محدود رہے.یہی وجہ ہے کہ آج کے بدھسٹ نیک اعمال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے, بلکہ خدا کے ہی منکر ہوگے, تو اس تمام معلومات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیک اعمال مطلقا نفع بخش نہیں ہوتے, اور نہ ہی ان کے زریعے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے, خدا تک رسائ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے اس کے محبوب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہر ایمان لانا...
پھر جب ان کو مان لیا, اور ان کی پیروی کر لی تو تم اس کو ڈھونڈنے نکلے تھے, اسے اپنانے نکلے تھے, وہ تمہیں مل بھی جاے گا تمہیں اپنا محبوب بھی بنا لیگا..
بزبان اعلیحضرت :
با خدا خدا کا یہی ہے در, نہیں اور کوی مفر مقر.
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو, جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں...
ازقلم: نادر رضا حسنی نوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں