ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے | از: نادر رضا حسنی نوری

اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے 
دیسی لبرل ملحدین کے زاتِ باری پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر مبنی ایک بہترین تحریر


(تحریر "اللہ خالق کل شئ"  کے موضوعات)

1. خلائی مخلوق کی شرعی اور سائنسی حیثیت.
2. کائنات کی وسعت اور حقائق.
3. زمین کی خصوصیت.
4. سیارہ مریخ پر نماز روزے کی ادائگی.
5 پانی پینے کے اداب اور سائنس.
6. بارش اور سائنسی.
7. سیاروں کی حرکت.
8. پوری کائنات اور علم مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.

دنیا میں سب سے زیادہ جس مزھب کے خلاف سازشوں کے جال بچھاے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف مزھب اسلام ہے, کہ اگر اس قدر اندرونی اور بیرونی سازشیں کسی اور مزھب کے خلافت کی جاتیں تو یقینا وہ مزھب دنیا سے مٹ جاتا, مگر اسلام چونکہ اسے اللہ نے قیامت تک باقی رکھنا ہے, ان تمام تر فتنوں کے باوجود آج تک اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا, جس طرح اسلام کو اندرونی فتنے, اور سازشیں لاحق ہیں,جیسے باطل فرقے, اسی طرح بیرونی خطرات بھی ہیں, جیسے باطل مزاھب, ان میں سب سے عروج پر جو فتنہ ہے وہ الحاد کا ہے,الحاد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں, عام طور پر یہ لوگ اللہ تعالی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے, اور جب انسان خدا کا ہی منکر ہوجاے تو پھر نبی, مزھب, اور آسمانی کتابوں کو محض انسانی خیالات شمار کرتا ہے, کیونکہ عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کا رد کیا جاے, چونکہ ملحدین کتاب و سنت کو نہیں مانتے اس لیے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انکا رد کریں, اس لیے فقیر کی یہ خواہش ہے کہ اہل علم حضرات کی توجہ اس طرف مبزول کرائ جاۓ, ان شاء اللہ ہماری یہ تحریر بچوں کے لیے کہانی ہے طلباء کے لیے معلومات ہے, اور اہل علم حضرات کے لیے دعوت فکر ہے...
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن  و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے,  جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)

اب سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں کوئ بھی چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ؟ یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟ 
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئی؟
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟ 
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا؟ 
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ
 اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود  وجود میں نہیں آسکتا؟ 

ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو  انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کیں, جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ,پھر زمین پر مناسب کشش ثقل رکھی,اگر کشش ثقل بڑھ جاے تو انسان قدم بھی نہ اٹھا سکے گا,جیسے کہ سورج کی کشش ثقک زیادہ ہے,زمین پر اگر کسی کا وزن ایک کلو ہے تو سورج پر اس کا وزن 28 کلو ہوگا,  اور اگر کشش ثقل کم ہوجاے تو انسان کا چلنا پھرنا مشکل ہوجاے,اور وہ اڑتا رہے جیسے چاند پر,مختصر یہ کہ زمین پر انسانی زندگی کے واسطے ہر ضرورت مہا کی اور اسے اعتدال میں رکھا,جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے؟ 
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائی مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ﴿۱﴾
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائی مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے؟ تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائی مخلوق اگر جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں,اور جانوروں جیسی کوی مخلوق ہوی تو مکلف نہیں, اس سے آگے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:

يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ 
(النور,45)

اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے  ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائی ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائی مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ 
"اللہ ہر چیز کا خالق ہے"

چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ  یہ دھماکے کا نتیجہ ہے, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, یہاں ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجائےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جائے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے؟ 
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیچرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,دور حاضر میں اس سیارے کو نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا.
یہ نو سیارے سورج کہ گرد گردش کررہے ہیں, زمین سورج کے گرد تیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتی ہے,اور ایک چکر 365 دن میں مکمل کرتی ہے,  ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف  آٹھ منٹس انیس سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے؟ کیا یہ خود چلتی ہے؟ جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی...
یہ ہمارا شمس نظام کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy)  بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے (سورج) ہیں, یہ اللہ تعالی کی کامل قدرت ہے کہ یہ تمام سیارے اور ستارے آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں, ادھر سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینکڑوں سالوں تک سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے, کیا یہ محض اتفاق ہے؟ 
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,اور ملکی وے سے پچیس لاکھ (25,00,000) نوری سال کے فاصلے ہر ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"

" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".

خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...

دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا سے مٹ جاۓ, اس مقصد کے لیے انھوں نے مخصوص افراد کو خرید کر اسلام میں اندرونی اور بیرونی سازشوں, اور فتنوں کا جال بچھایا ہوا ہے, روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں, دوسری طرف عوام ہے جو دنیاوی فکروں میں گم ہے, ایسے وقت میں اہل علم حضرات پر تمام زمہ داریاں آجاتی ہیں, اور وہ انھیں پورا بھی کررہے ہیں, مگر ہم نے اندازہ لگایا کہ بہت سے طلبہ اور کافی اہل علم حضرات رفع الیدین جیسے مسئلوں میں الجھے ہوے ہیں, یقینا اس قسم کے لوگوں کی تعداد کافی پھیلتی جارہی ہے, اور یہ ایک بڑا فتنہ بھی ہے, لیکن ہمیں یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیۓ, ہمارے نزدیک اہل بدعت کے بعد سب سے بڑا فتنہ لبرل ازم ہے, کہ جس نے بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے, ہم اصاغر اور اماثل اہل علم حضرات کو یہ فکر دینا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام میں نئے عقیدے اور نئے مسئلے وضح کیۓ آپ ضرور ان کا رد کریں مگر اس پچھلے راستے سے بے خبر نہ رہیں, یہ راستہ الحاد کا راستہ ہے, اور الحاد کو شکست دینے کے لیۓ آپ کو کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ سائنس کی دنیا میں بھی قدم رکھنا ہوگا.
کیوں؟ 
 اس لیے کہ الحاد کے رد کے لیۓ آپ کے پاس کتاب و سنت کے ساتھ عقلی دلائل اور سائنسی نولج ہونا بھی ضروری ہے, پچھلے حصوں میں ہم نے کائنات کی وسعتیں بیان کی تھیں, اور یہ بیان کیا تھا کہ صرف زمین پر ہی مکمل طور پر زندگی ممکن ہے, کیونکہ زمین ان اربوں کھربوں سیاروں میں وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں زندگی کی تمام ضروریات اور ایک مناسب ماحول موجود ہے, جو کہ دوسرے معلوم سیاروں پر اب تک نہیں پایا گیا, یقینا یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے, اور زمین میں موجود تمام اشیاء میں جو ربط ہے وہ یقینا اپنے خالق کی طرف اشارہ کرتا ہے, ہم یہاں پانی اور بارش سے متعلق چند حقائق بیان کرینگے, اور یہ ثات کرینگے کہ بارش وجود الہی کی قرآنی اور عقلی دلیل ہے، پہلے ہم پانی کو لے لیتے ہیں, کسی بھی سیارے کی تحقیق میں سب سے پہلے اس سیارے پر ہوا اور پانی تلاش کیا جاتا ہے, چاند کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہاں ہوا اور پانی موجود نہیں, سیاروں کے اپنے چاند ہوتے ہیں,انھیں سیارچہ بھی کہا جاتا ہے, ہماری زمین کا ایک چاند ہے جو عام طور پر آسمان میں نظر آتا ہے, جب کہ مرکری اور وینس کے کوی چاند نہیں.مارس کے دو چاند ہیں, کہا گیا ہے کہ زمین کا دوسرا چاند دریافت ہوا ہے جو 300 فٹ چوڑا ہے, واللہ اعلم, جوپیٹر کے 63 چاند ہیں, سیچرن کے 62 چاند ہیں, یورینس کے 27 چاند ہیں, نیپچون کے 13 چاند ہیں اور پلوٹو کے 2 چاند ہیں, یہ فقط نظام شمسی میں موجود 9 سیاروں کے چاند ہیں, جبکہ صرف ملکی وے میں  سترا ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں, ان کے چاندوں کی تعداد وہی جانے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے, زمین کے چاند میں دن میں سخت گرمی اور رات میں سخت سردی ہوتی ہے,چنانچہ دن میں چاند کی سطح کا درجہ حرارت 104 سینٹی گریڈ ہوتا ہے, اور رات میں منفی 121, لھزہ وہاں زندگی ممکن نہیں, تحقیق کے مطابق چاند کی روشنی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین پر آتی ہے,جو کہ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ 1:15 میں زمین تک پہنچ جاتی ہے,  حیرت ہے آسمان پر چمکتے چاند اور سورج کو دیکھ کر ملحدین کو خدا یاد نہیں آتا, جب کہ 100 volts کے بلب کے بارے میں کہتے ہیں اس کا موجد ایڈیسن تھا...  زمین میں کثرت سے پانی پایا جاتا ہے, اور ہوا بھی, پانی دو حصے ہائٹروجن اور ایک حصہ آکسجن سے مل کر بنتا ہے, اور زندگی کی بنیادی ضرورت ہے, نا صرف انسان بلکہ جانوروں اور پودوں کی بھی ضرورت ہے, اسلام وہ واحد مزھب ہے جس نے پانی پینے تک کہ آداب بیان فرماۓ ہیں, جسے نبی کریم علیہ السلام کی سنت کہا جاتا ہے, اور یوں ہی نہیں بلکہ آج سائنس نے تسلیم کیا کہ پانی پینے کے وہ آداب عبث نہیں بلکہ حکمت سے بھرے ہیں, چنانچہ بیٹھ کر  تین سانسوں میں پانی پینا سنت ہے, اور آج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے گردے خراب ہونے کا اندیشہ ہے,اور ایک ہی سانس میں پینے سے معدہ اور آنتیں کمزور ہوجاتی ہیں,  جب ہم پانی پیتے ہیں تو ہماری سانس کی نالی خود بخود بند ہوجاتی ہے, جس سے خون تک آکسیجن پہنچنا بند ہوجاتی ہے, اگر ایک ہی سانس میں پانی پیا جاۓ تو خون میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں, اور جب ہم سنت کے مطابق تین سانسوں میں پانی پیئنگے تو آکسیجن میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی, یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یہ تمام تحقیقات موجود نہیں تھیں, مگر کتاب و سنت نے وہ حقائق بیان فرما دیے تھے جسے آج سائنس تحقیق کے بعد تسلیم کررہی ہے, تو ثابت ہوا کہ حق وہی ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے.
فلسفہ کائنات کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں ہم نے کائنات کے چند حقائق بیان کر کے اللہ تعالی کے خالق ہونے کو ثابت کیا تھا, اور زمین کی ایک مخصوص شے پانی کے حوالے سے اسلام کے مقرر کردہ اصول بیان کر کے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا تھا, اب ہم بارش سے متعلق وہ حقائق بیان کرینگے کہ ملحدین کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہے گی, یہ بارش اللہ تعالی کے وجود, قدرت اور خالق ہونے کی ایک دلیل ہے, آج جب بارش ہوتی ہے, تو دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھر جاتی ہیں, بچے بڑے تقریبا سب ہی بارش میں نہانے کا شوق رکھتے ہیں, اور انسانوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی سر سبز و شاداب ہوکر لہلہارہے ہوتے ہیں, اور مومن و کافر, موحد و ملحد سب خوش نظر آتے ہیں, مگر منکر غور نہیں کرتے کہ یہ ان کے رب کی ایک نشانی ہے, فرماتا ہے :

پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ''.
(الروم ، 30:48)

گویا کہ ملحد کا بارش میں دلی خوشی محسوس کرنا خود اس پر ہی حجت ہے....

اب یہ دیکھتے ہیں کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟ 
تو جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق سمندر سے کروڑوں ٹن پانی بخارات کی صورت میں جمع ہوجاتا ہے, ہوا ان بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے,  یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں, انہی بدلوں کی رگڑ سے بجلی پیدا ہوتی ہے, جو ہمیں آسمان کی طرف فورا دیکھای دیتی ہے لیکن اس کی آواز کچھ دیر سے سنای دیتی ہے,اس کی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے, چنانچہ روشنی کی رفتار 300,000 کلو میٹر, یا 1,86000 میل فی سیکنڈ ہے, جبکہ آواز کی رفتار 343 میل فی سیکنڈ ہے. پھر ایک اور ہوا ان بادلوں کو ہر طرف پھیلا دیتی ہے, اسے مونسون کہا جاتا ہے, سائنس نے آج بعد از تحقیق بتایا کہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات کو ہوا اوپر لے کر جاتی ہے, اور اللہ تعالی نے اس مرحلے کو قرآن میں اس وقت بیان فرمایا کہ جب سائنس غلبا ماں کے پیٹ میں تھی, اللہ تعالی نے فرمایا:

وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (1فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (2فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (3فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (4)
" قسم انکی جو بکھیر کر اڑانے والیاں, پھر بوجھ اٹھانے والیاں, پھر نرم چلنے والیاں, پھر حکم سے بانٹنے والیاں.
(سورة الذریت, پارہ 26) 

 یہاں حملت وقرا سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں, یہی بادل اگر زیادہ بلندی پر چلے جائیں تو ٹھنڈ سے جم جاتے ہیں اور زمین پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں گرنے لگتے ہیں جسے ہم برف باری کہتے ہیں, اور یہی بادل اگر بلندی کے بجاے زمین پر آجائیں تو اسے دھند کہا جاتا ہے, آگے فرمایا کہ نرمی سے چلنے والیاں یعنی وہ ہوائیں جو بادلوں کو لیے پھرتی ہیں, یا وہ کشتیاں کہ جسے تم صرف اور صرف اپنے رب کے سہارے سمندر میں چھوڑتے ہو فرمایا نرمی سے چلتی ہیں,
آگے فرمایا حکم سے باٹنے والیاں.

سائنس نے بارش پر تحقیقات کر کے بارش کے مختلف مراحل کو معلوم کیا, لیکن ایک مرحلے میں اب تک سائنس بے بس ہے کہ بادل تو ہر جگہ آتے ہیں مگر بارش کہیں ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی, قادر مطلق اللہ رب العلمین نے فرمایا فالمقسمت امر کہ یہ تو تمہارے رب کا حکم ہے جہاں چاہتا ہے برساتا ہے.
اور یہ اللہ تعالی کی کمال قدرت ہے کہ سمندر سے بھاپ بن کر اٹھنے والا کھاری پانی جب برستا ہے تو میٹھا ہوتا ہے, برسنے والے بادل زمین سے تقریبا  بارہ سو 1200 میٹر بلندی پر ہوتے ہیں, اور زمین کی طرف آتے ہوے بارش کے قطروں کی رفتار پانچ سو اٹھاون (558) کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے, اگر برش اسی رفتار سے برسے تو بستیاں, کھیتیاں سب برباد ہوجاے لیکن قادر مطلق کی قدرت دیکھیۓ اس نے ایسا نظام بنایا کہ بارش کے قطروں کی مخصوص بناوٹ اور ہوا سے لگنے والی رگڑ کے سبب ان کی رفتار انتہای کم اور مناسب ہو جاتی ہے, تو جب برستی ہے تو نرم اور خوش گوار محسوس ہوتی ہے.

 رب عالمین خالق کائنات فرماتا ہے :

"کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس  کے برسانے والے ہم ہیں ؟
(واقعہ,68-70)

حاصل کلام یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت قبول کر لینی چاییے, اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بندہ ہے...
ملحدین دنیا کے تمام باطل مزاھب کو چھوڑ کر آج فقط اسلام پر سوالات کی برسات کررہے ہیں, اب ان کے سوالات جیسے بھی ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات دینا اہل علم کی زمہ داری ہے, اور ان اعتراضات اور سوالات کو صرف گستاخی کہہ کر چھوڑ دینا آنے والی نسلوں کے ایمان خطرے میں ڈالنا ہے,اور یقین رکھو کہ اسلام پر اٹھنے والے جس اعتراض اور سوال کا جواب آج تم نہیں دوگے کل وہی سوال تمہاری آنے والی اولاد سے کیا جاے گا, تو اہل علم حضرات کی اس طرف توجہ دلانے کے واسطے فقیر نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے, گزشتہ دنوں ملحدین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ 2024 میں 100 افراد کا ایک گروپ سیارہ مریخ (Mars) پر جاے گا, جس کی واپسی کا امکان نہیں ہے, ان سو افراد میں ایک مسلمان بھی ہے تو بتاو وہ مسلمان سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کیسے کرے گا کیا اسلام میں اسکا کوی حل موجود ہے؟ 

تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں اسلام میں اسکا حل موجود ہے, لیکن اس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیارہ مریخ ( Mars) کیسا ہے اور کہاں ہے؟ 
ہمارا سورج جو آسمان پر دکھائی دیتا ہے اس کے نو سیارے ہیں, جو مختلف رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں, اسے نظام شمسی کہا جاتا ہے,تاہم نویں سیارے کو اب نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا. سورج سے سب سے قریب جو سیارہ ہے وہ عطارد (Mercury) ہے, جو کہ سورج سے پانچ کروڑ اناسی لاکھ (5,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور اڑتالیس (48) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہا ہے, اس کے بعد سیارہ زہرہ (Venus) ہے جو سورج سے دس کروڑ بیاسی لاکھ (10,82,00,000) کلو میٹر دور ہے, اور پینتیس (35) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے,اس کے بعد نیلا سیارہ ہے جیسے زمین کہا جاتا ہے, یہ سورج سے پندرہ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھانوے ہزار (15,95,98,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور تیس (30) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے,قرآن میں ہے:

 إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ
ترجمہ: " بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے"
(الفاطر41)

اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ زمین ساکن ہے, بلکہ مطلب یہ ہے زمین اپنے محور سے باہر نہیں جاسکتی...
 زمین کا ایک دن عام طور پر بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (365) دنوں کا, اس کے بعد سیارہ مریخ (Mars) ہے, جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے, یہ سورج سے بائیس کروڑ اناسی لاکھ (22,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور چوبیس (24) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے, اور سورج اہنے نو سیاروں کو لے کر ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے, جس کا ایک چکر پچیس لاکھ 
(25000,000) سال میں پورا ہوتا ہے, قرآن میں ہے:

وَهُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِىْ فَلَكٍ يَسْبَحُوْنَ
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے بناے رات اور دن اور سورج اور چاند, ہر ایک ایک گھیرے میں تیر رہا ہے".

(الانبیاء,33)

ان مزکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کے یہ چاند سورج وغیرہ ایک دائرے میں گردش کررہے ہیں, اور اس سے باہر نہیں نکل سکتے...
 سیارہ مارس کا ایک دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (687) دنوں کا ہوتا ہے, عام طور پر اس کی سطح کا درجہ حرارت منفی 55 c ہوتا ہے, اور دوپہر میں 20 c تک ہوسکتا ہے,مارس زمین سے تقریبا سات کروڑ اٹھتر (7,78,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اب تک کی تحقیق کے مطابق مارس پر پانی کے امکانات موجود ہیں, اللہ تعالی نے فقط زمین کو انسانی زندگی کے لیے بنایا, اور زندگی کے تمام لوازمات یہاں پیدا کیے, ہماری کائنات میں زمین جیسے اربوں کھربوں سیارے ہیں مگر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد ہوا :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ 
" اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں".
(سورہ بقرہ)

تو تمام سیاروں کو چھوڑ کر فرمایا فی الارض,معلوم ہوا زمین کو زندگی کے واسطے بنایا گیا ہے,اور انسان صرف زمین پر موجود ہے, اب کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کرنا اور وہاں دنیا آباد کرنے کی سوچنا محض ایک سائنسی خواہش ہے...
 آج سائنس عروج پر جارہی ہے, اور سائنس دانوں کے مارس پر جانے کے ارادے ہیں,  وہاں جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے, بہر حال ہم اپنے جواب کی طرف پلٹتے ہیں, مارس پر اگر بلفرض انسان پہنچ جاتا ہے, اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو وہیں نماز ادا کرنی ہوگی,  پس اگر زمین نظر آجاتی ہے تو نماز پڑتے وقت زمین کی طرف منہ کیا جاے گا کہ خانہ کعبہ زمین پر ہے,بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان اگر ملکی وے سے باہر کسی کہکشاں کے کسی سیارے پر چلاجاے تو اس وقت بھی نماز پڑھتے وقت ملکی وے کہکشاں کی طرف منہ کرےگا کہ زمین اسی میں ہے, اور اصل قبلہ کہ جو فضا ہے اسکا تعین وہاں مشکل ہے, پھر اگر زمین نظر نہ آے تو اس کا حکم زمین پر اس جگہ کی مثل ہے کہ جہاں قبلے کا تعین نہ ہوسکے اور کوی بتانے والا نہ ہو, اسی طرح جب مارس پر زمین نظر نہ آے اور کوی ایسا آلہ بھی نہ ہو جو کعبہ کی سمت بتا سکے تو چاہیے کہ تحری کرے, یعنی غور و فکر کرے اور جس طرف غالب گمان ہو کہ زمین اس طرف ہے تو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھے, پھر اگر زمین کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوی سوار ہو اور قبلہ رخ نہ ہوسکے تو اسکا حکم یہ ہے کہ جہاں ہوسکے منہ کر کے نماز پڑھ لے کہ مشرق و مغرب سب اسی کے ہیں...
مارس کا ایک دن 24 گھنٹے 37 منٹس کا ہوتا ہے, تو وہاں روزہ رکھا جا سکتا ہے..
ملحدین نے کہا مارس سے واپس آنا ناممکن ہے تو حج کیسے ہوگا,ہم کہتے ہیں کہ حج صاحب نصاب پر دیگر تمام شرائط کی موجودگی میں زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے,جو پہلے ہی زمین پر ادا کیا جاسکتا ہے, رہی زکوة تو مارس پر تمام افراد ضرورت کی اشیاء ہی لے کر جائیں گے,لھزہ زکوة فرض نہ ہوی.اس کے علاوہ اس میں مزید تفصیل بھی ہے جو ہم وقت پڑنے پر بیان کرینگے..
یہ تمام وضاحت ہم نے صرف اس لیے بیان کی تاکہ ملحدین پر واضح ہوجاے کہ تنگی ان کی فکر میں ہے اسلام میں بڑی وسعت ہے..

پچھلے صفحات میں ہم نے سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کے بارے میں بتایا تھا, جو کہ فقط ملحدین کے اعتراض کا جواب تھا ورنہ ہماری تحقیق کے مطابق سائنس دان ابھی تک چاند پر بھی نہ جاسکے ہیں, جو کہ زمین سے (3,84,400) کلو میٹر دور ہے, جبکہ سیارہ مارس (7,78,00,000) کلو میٹر دور ہے, تو وہاں کیوں کر جاسکتے ہیں؟ 
اب ہم اپنے اس موضوع کو سمیٹے ہیں, اور اپنی دیگر تحقیقاتی تحاریر کو مختلف عنوان اور مختلف نام کے ساتھ منظر عام پر لائنگے...آخر میں ہم اپنی تحریر اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ یہ کائنات بہت وسیع ہے اس میں اربوں کھروں سیارے اور ستارے ہیں, جیسا کہ پہلے گزرا کہ ملکی وے کہکشاں میں سترا ارب سیارے اور ایک کھرب ستارے (سورج) ہیں, اور پھر کہکشائیں لاکھوں کروڑوں ہیں, اس مقام پر مجھے مشکاة کی وہ حدیث یاد آتی ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ کیا آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمر کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں, سوچنے کی بات ہے آج 2017 کے جدید دور میں بھی سائنس مکمل ستاروں کی تعداد معلوم نہ کرسکی, تو جس عمر کی نیکیوں تک ہماری رسای نہیں اس کے مقام تک کون پہنچ سکتا ہے؟ 
عرض کی کہ پھر ابو بکر؟ 
فرمایاعمرکی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابرہے,معلوم ہوا  پوری کائنات بھی ابو بکرکی نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتی,اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک جتنے لوگ آے اور آئنگے حضور سب کے اعمال سے واقف ہیں,اور کائنات میں کتنے ستارےہیں حضور جانتے ہیں,  اور منکرین نے کہا نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں, بخاری نے کہا نبی نظر اٹھاے تو اپنے حوض کوثر کو دیکھ لیتے ہیں, اب حوض تو ساتوں آسمان سے اوپر ہے, معلوم ہوا اللہ کے نبی اگر توجہ فرمائیں تو کائنات تو رہی محدود آسمانوں سے اوپر بھی دیکھ لیتے ہیں یہی حاضر ناظر کا معنی ہے.....

ازقلم : نادر رضا حسنی نوری

عید میلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت

جیسے ہی ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتا ہے، مسلمانان عالم کے قلوب خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ ہر جگہ درود وسلام کی صدائیں، جھنڈوں کی بہاریں او رچراغاں ہی چراغاں ہوتا ہے۔ ایسے پربہار موسم میں کچھ لوگ اعتراضات سے بھرپور پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر سادہ لوح مسلمان پریشان ہوجاتے ہیں لہذا آپ کی خدمت میں میلاد پاک پر کئے جانے والے اعتراضات کے قرآن، حدیث اور علمائے اسلام کے فرامین کی روشنی میں جوابات پیش کئے جارہے ہیں۔

تاریخ ولادت 12 ربیع الاول ہے

حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ (متوفی 235ھ) سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ عفان سے روایت ہے کہ وہ سعید بن مینا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ حضور اکرمﷺ کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو ہوئی
(البدایہ والنہایہ ہ جلد دوم، صفحہ نمبر 302، بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی، جلد دوم، صفحہ نمبر189)
امام ابن جریر طبری اپنی کتاب تاریخ طبری جلد دوم صفحہ نمبر 125 پر فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کی ولادت پیر کے دن ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔
علامہ ابن ہشام (متوفی 213ھ) عالم اسلام کے سب سے پہلے سیرت نگار امام محمد بن اسحق اپنی السیرۃ النبوۃ میں رقم طراز ہیں کہ حضورﷺ سوموار بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے
( السیرۃ النبوۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ نمبر 171)
غیر مقلدین (اہلحدیث) کے پیشوا علامہ سید صدیق حسن خان اپنی کتاب الشمامۃ العنبریہ کے صفحہ نمبر 6 پر رقم طراز ہیں کہ اہل مکہ کا اس پر عمل ہے۔ طیبی نے کہا کہ آپﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی اپنی کتاب سیرت خاتم الانبیاء مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی کے صفحہ نمبر 23 پر رقم طراز ہیں کہ جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دوشنبہ آقائے نامدارﷺ رونق افروز عالم ہوئے۔

لغت کی کتاب میں میلاد کے معنی

نور اللغات میں لفظ میلاد مولود مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں۔
  1. میلاد… پیدا ہونے کا زمانۂ پیدائش کا وقت
  2. وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبرﷺ کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔

قرآن مجید سے میلادِ مصطفیﷺ منانے کے دلائل

القرآن (ترجمہ) اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو
(سورۂ والضحیٰ، آخری آیت، پارہ 30)
معلوم ہوا کہ اپنے رب تعالیٰ کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو، کائنات کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت حضورﷺ ہیں لہذا ہمیں نعمت عظمیٰ سرور کائناتﷺ کا خوب چرچا کرتے ہوئے ان کی آمد کی خوب خوشیاں منانی چاہئے۔
قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے
(سورۂ یونس آیت 58)
اس آیت میں رب کریم کا واضح ارشاد ہے کہ میرے فضل و رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ جب رحمت پر خوشی منانے کا حکم ہے تو رحمتہ للعالمینﷺ کی آمد پر کس قدر خوشی منانی چاہئے۔
احادیث مبارکہ سے میلاد مصطفیﷺ منانے کے دلائل:
اپنی ولادت کی خوشی تو خود آقا کریمﷺ نے منائی تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں۔

حدیث شریف

حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالتﷺ میں عرض کی گئی یارسول اﷲﷺ! آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ آپﷺ نے جواب دیا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی
(صحیح مسلم شریف، جلد اول، صفحہ نمبر7)

حدیث شریف

ابولہب کو جب اپنے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا گیا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا
’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی، ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے (اپنے بھتیجے محمد(ﷺ) کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘
(بخاری شریف، کتاب النکاح، حدیث5101، ص 912، مطبوعہ دارالسلام ریاض سعودی عرب)
شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جو شب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں، یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرتﷺ کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت و خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے
(مدارج النبوت جلد دوم، صفحہ نمبر 26)

جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ

امام ابو القاسم راغب اصفہانی علیہ الرحمہ (متوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کرآئے، شریعت میں لفظ ’’عید‘‘ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا
عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں، اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیاہے۔
امام قسطلانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب مواہب الدنیہ کے صفحہ نمبر 75 پر فرماتے ہیں
اﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرتﷺ کی ولادت کے مبارک مہینہ (ربیع الاول) کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کایہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لاعلاج بیماری، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔ بعض نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’عید‘‘ اس دن کو کہتے ہیں جس دن عید کی نماز پڑھی جائے، یہ نادانی ہے حالانکہ عید میلاد النبی بمعنی حضورﷺ کی ولادت کی خوشی ہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کا میلاد منانا

میلاد کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے، چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس طرح میلاد منایا۔

حدیث شریف

حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ، سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ (نعتیہ) اشعار پڑھتے، سرکار کریمﷺ، حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے فرماتے۔ اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے۔
(بخاری شریف، جلد اول، صفحہ نمبر 65)

حدیث شریف

حضرت درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکارﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کو حضورﷺ کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سید عالمﷺ نے اس وقت فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں۔ جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے، اس کو نجات ملے گی
(بحوالہ: رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)
یہ کہنا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مروجہ میلاد منانا ثابت نہیں ہے، ایسا کہنے والوں سے ہمارا سوال ہے کہ کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے سالانہ اجتماعات حج کے علاوہ کئے، کبھی ختم بخاری کے اجتماعات کئے، کبھی قرآن و حدیث کانفرنس کا انعقاد کیا، کبھی بڑے بڑے میناروں والی مسجدیں بنوائیں، کبھی شاندار قرآن مجید شائع کئے، قرآن مجید کا دوسری زبان میں ترجمہ و تفسیر لکھی، کبھی آزادی کے جلوس نکالے، کبھی مخصوص فرقے دیوبندی اور اہلحدیث فرقے کے نام سے تبلیغ کی، کبھی تھانوی، میرٹھی، محمدی اور سلفی اپنے نام کے ساتھ لکھا۔ ان تمام کاموں کو انجام دیتے وقت یہ خیال نہیں آتا کہ یہ تمام کام صحابہ کرام رضون اﷲ علیہم اجمعین نے نہیں کئے؟ صرف اور
صرف میلاد النبیﷺ منانے کے متعلق یہ سوال اٹھاتے ہو، کیا یہ میلاد سے عداوت کی دلیل نہیں؟

شب ولادت، شب قدر سے افضل ہے

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
سرور کونینﷺ کی ولادت کی شب یقینا شب قدر سے زیادہ افضل ہے کیونکہ شب ولادت آپﷺ کی ولادت کی شب ہے اور شب قدر آپﷺ کو عطا کی ہوئی شب ہے
(ماثبت من السنہ صفحہ نمبر 84)

جھنڈے و پرچم لگانے کا ثبوت

شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ماثبت من السنہ میں رقم طراز ہیں کہ
حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ (شب ولادت) میں نے تین پرچم اس طرح دیکھے کہ ان میں سے ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا
(ماثبت من السنہ صفحہ نمبر 75) (سیرت حلبیہ جلد اول، صفحہ نمبر 100)

شب ولادت کھڑے ہوکر سلام پڑھنا

حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ کی محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا
’’بے شک عزت و شرف والے لوگ سرکاراعظمﷺ کا ذکر سن کر کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘
یہ سن کر امام سبکی علیہ الرحمہ اور تمام علماء و مشائخ کھڑے ہوگئے۔ اس وقت بہت سرور اور سکون حاصل ہوا
(سیرت حلبیہ جلد اول، صفحہ نمبر 80)
٭ برصغیر کے معروف محدث اور گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں محفل میلاد میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں۔ میرا یہ عمل شاندار ہے
(بحوالہ: اخبار الاخیار، صفحہ نمبر 624)

کرسمس اور عید میلاد النبیﷺ میں فرق

کرسمس اور عید میلاد النبیﷺ میں بڑا فرق ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم (معاذ اﷲ) ان کو خدا ہونے یا خدا کا بیٹا ہونے یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں۔
لیکن مسلمان اپنے آقا و مولیٰﷺ کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں۔ آقا کریمﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور معزز رسول مانتے ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کتنا بڑا فرق ہے کرسمس اور عید میلاد النبیﷺ منانے میں۔

میلاد النبیﷺ یا وفات النبیﷺ

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علمائے اسلام کا حضورﷺ کی تاریخ وصال میں اختلاف ہے۔ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ بارہ ربیع الاول آپﷺ کی وصال کی تاریخ ہے پھر بھی اسلام میں وفات کا سوگ صرف تین دن ہے، چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف

ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پر چار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی
(بحوالہ: بخاری شریف، جلد اول، صفحہ نمبر 804، مسلم شریف، جلد اول، صفحہ نمبر 486)

فائدہ

ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے۔ نبی کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو سرور کونینﷺ ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) عید منانے کے بجائے سوگ منانے کا حکم دیتے۔

حدیث شریف

حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا
(بحوالہ: ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، حدیث 1047، ص 159، مطبوعہ دارالسلام ریاض ،سعودی عرب)
الحمدﷲ!
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام، شہداء اور صالحین اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں۔ جب حضورﷺ حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا؟
اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے۔ ہم اہلسنت یوم وفات نہیں بلکہ یوم ولادت کی خوشی مناتے ہیں۔

لفظ ’’میلاد النبیﷺ‘‘ محدثین کا عطا کردہ ہے

نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے۔ جامع ترمذی صحاح ستہ میں سے ہے۔ اس میں ایک باب بعنوان ’’ماجاء فی میلاد النبیﷺ‘‘ ہے۔
صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ شریف میں باب باندھا اور اس باب کا نام ’’میلاد النبیﷺ‘‘ رکھا۔
سعودی عرب کا موجودہ اسلامی کلینڈر آپ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کلینڈر میں ربیع الاول کے مہینے کی جگہ ’’میلادی‘‘ لکھا ہوا ہے، یعنی یہ میلاد کامہینہ ہے۔
پوری دنیا کے تعلیمی نصاب کو دیکھ لیں۔ تمام نصاب میں اسلامیات کے باب میں ’’عید میلاد النبیﷺ‘‘ کے نام سے باب ملے گا۔ بارہ وفات کے نام سے نہیں ملے گا۔
کیا مروجہ میلاد النبیﷺ ایک ظالم اور عیاش بادشاہ کی ایجاد ہے؟

عید میلاد النبیﷺ سے عداوت رکھنے والے ایک من گھڑت بات یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ میلاد کی ابتداء عیاش اور ظالم بادشاہ مظفر الدین نے کی۔ حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مظفر الدین شاہ اربل عیاش نہ تھا بلکہ عادل تھا۔ دیوبندیوں اور غیر مقلدین اہلحدیث کے معتبر مورخ ابن کثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین ربیع الاول میں میلاد شریف مناتا، اور عظیم الشان جشن برپا کرتا تھا۔ وہ ایک نڈر، جانباز، عاقل، عالم اور عادل بادشاہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور انہیں بلند درجہ عطا فرمائے۔
شیخ ابو الخطاب بن دحیہ نے ان کے لئے میلاد شریف کی ایک کتاب تصنیف کی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا تو انہوں نے شیخ کو ایک ہزار دینار پیش کیا۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی اور سات سو تیس ہجری میں جب وہ عکا شہر میں فرنگیوں کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے، ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ اچھی سیرت و خصلت کے حامل تھے
(البدایہ والنہایہ، جلد سوم، صفحہ نمبر 136)
سبط ابن جوزی نے مرأۃ الزمان میں ذکر کیا ہے کہ شاہ اربل کے یہاں میلاد شریف میں بڑے بڑے علماء صوفیاء شرکت کرتے تھے
(بحوالہ: الحاوی للفتاویٰ جلد اول، صفحہ نمبر 190)
میلاد کا انکار کرنے والے اپنے علم کو ذرا وسیع کریں تاکہ انہیں ذلیل نہ ہونا پڑے۔

میلاد النبیﷺ کے متعلق علمائے اسلام کے اقوال و افعال

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں۔
(مواہب اللدنیہ جلد اول، صفحہ نمبر 27)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید میلاد النبیﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگ دست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو سرکار دوعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں
(بحوالہ: درثمین صفحہ نمبر 8)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ بارہ ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپﷺ کا ذکر ولادت فرماتے، پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے
(الدر المنظم صفحہ نمبر 89)

مجلس میلاد میں ناجائز کاموں سے بچیں

میلاد کی محافلوں میں ہر اس چیز کو منع کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محافل میلاد کو ختم کردیا جائے بلکہ صحیح طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ ناجائز اور خلاف شرع کاموں کو ختم کیا جائے۔
 نعت شریف میں میوزک کا استعمال نہ کیا جائے۔ ادب و احترام کے ساتھ محفل کا انعقاد کیا جائے۔ محفل نعت میں نوٹوں کا اڑانا اور ناچنا ناجائز ہے۔

 عورتوں کی اتنی آواز سے مجلس یا نعت پڑھنا کہ اجنبی مردوں تک آواز پہنچے، ناجائز ہے۔
 محفل میلاد میں داڑھی منڈھے، غیر عالم اور نام نہاد اسکالر کو ہرگز نہ بلوائیں، بلکہ مستند عالم دین مستند واقعات میلاد بیان کرے۔
محفل میلاد میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز کا وقت ہی جاتا رہے، ناجائز و حرام ہے، ہاں اگر نماز باجماعت کا اہتمام ہوتو حرج نہیں ہے۔
 محافل میلاد، چراغاں اور نیاز کے لئے جبراً چندہ اور بھتہ لینا ناجائز و حرام ہے۔
 میلاد کے جلوسوں میں نیاز اور دیگر اشیاء کا پھینکنا سخت گناہ و ناجائز ہے۔
 میلاد کے جلوسوں میں بے پردہ عورتوں کا جم غفیر اور گھومنا پھرنا بھی ناجائز ہے۔
 اتنی بلند آواز سے مجلس میلاد منعقد کرنا کہ ضرورت سے زائد ہو، مناسب نہیں ہے کہ اس کی تیز آواز کی وجہ سے گھروں میں بیمار لوگ، بچے، بوڑھے اور وہ لوگ جنیں صبح دفتر جانا ہوتا ہے، ان کے آرام میں خلل واقع ہوتا ہے، یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔

اہلسنت کی پہچان، الصلوٰۃ قبل الاذان والسلام بعد الاذان

اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا مستحب ہے اور پڑھنے والے کو اس کا ثواب بھی ملے گا۔ اگر کوئی اذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ یہ فرض واجب نہیں  مستحب ہے لیکن جو خوش نصیب عاشقان رسولﷺ اذان سے پہلے یا بعد میں پڑھتے ہیں۔ ان کو بدعتی نہیں کہنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔
یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما
اے ایمان والو تم اپنے نبیﷺ پر خوب صلوٰۃ و سلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں درود و سلام حکم علی الاطلاق وارد ہوا اور اسے مطلق حکم پر رکھنا چاہئے۔ ہمارے دور کے ایک دیوبندی عالم نے ہم سے مباحثہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ صلوٰۃ و سلام کو اذان سے پہلے مسلسل پڑھ کر مقید کرتے ہو حالانکہ مطلق پر جب عمل کرنا ممکن ہو تو اسے خبر واحد یا قیاس کے ذریعے بھی مقید نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے کہا اگر ایک شخص ہر جمعہ کے روز تسلسل سے صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ تم جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ یہ ایسا مبارک دن ہے کہ فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اس کے فارغ ہوتے ہی مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کی یارسول اﷲﷺ آپ کے وصال کے بعد بھی۔ فرمایا ہاں۔ بے شک اﷲ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔ جبکہ صاحبِ مشکوٰۃ کی روایت میں یہ بھی ہے۔ پس اﷲ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے ۔
(سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 76 قدیمی کتب خانہ کراچی)

اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بہت سے اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ شب و روز صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا ثبوت بھی موجود ہے اور امام سخاوی علیہ الرحمہ نے القول البدیع میں 75 مقامات شمار کئے ہیں جن میںصلوٰۃ و سلام پڑھنا چاہئے تو کیا امام سخاوی نے ایک مطلق حکم کو 75 قیود کے ساتھ مقید کردیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں اور نہ ہی احادیث میں مقید کیا ہے بلکہ یہاں پر خاص اوقات میں فضیلت کا بیان کیا گیا لہذا اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ و سلام کو پڑھنے کے احکام کو فضیلت کی طرف منسوب کریں گے نہ کہ مطلق پر مقید کا الزام لگائیں گے اور یاد رہے کہ کسی بھی مباح کام کے بار بار کرنے سے اس کے مقید ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا تو پھر اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام پر مقید ہونے کا حکم لگانا بھی جائز ہے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد نفلی نماز پڑھنا مباح ہے اگر کوئی شخص اس وقت میں ہمیشگی کے ساتھ نفل پڑھے تو کیا اس پر مقید کا الزام لگاتے ہوئے اسے نماز سے منع کرو گے۔ ماشاء اﷲ
 اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام کا ثبوت
صلوٰۃ و سلام کا مطلب: یاد رہے یہاں پر ہم تفصیل میں جائے بغیر یہ بیان کررہے ہیں کہ یہ بات تمام فقہائے اسلام اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک متفق ہے کہ سید عالمﷺ کے لئے صلوٰۃ و سلام کا مطلب دعا ہے۔
ابن قیم لکھتے ہیں کہ جب ہم صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ عزوجل جانِ عالمﷺ پر نزول رحمت فرمائے (جلاء الافہام ص 87، دارالکتب العربی)
تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کیا سید عالمﷺ کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں تو اس کا ثبوت ہم فراہم کررہے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر حکم نص سے ثابت ہے تاہم تسلی کے لئے ہم اس کا جزیہ بھی بیان ہیں۔
حضرت: حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرا گھر اونچے گھروں میں سے تھا اور مسجد کے گردونواح میں سے تھا۔ پس حضرت بلال رضی اﷲ عنہ فجر کی اذان کے لئے سحری کے وقت آتے اور میرے مکان پر بیٹھ جاتے اور فجر کا انتظار کرتے تھے اور جب وہ دیکھ لیتے تو یہ کہتے اے اﷲ عزوجل میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں اس بات کی کہ قریش سرور دوعالمﷺ کے دین پر قائم رہیں۔ انہوں نے کہا پھر وہ اذان دیتے (بنی نجار کی اس عورت نے کہا) خدا کی قسم میں نہیں جانتی کہ کسی بھی رات میں آپ نے یہ کلمات پڑھنے ترک کئے ہوں (ہر رات اذان سے پہلے پڑھتے تھے)
(سنن ابو دائود، جلد 1، ص 77، مطبوعہ دارالحدیث، ملتان)
انتباہ اذان سے پہلے دعا بروایت ثابت ہے اور صلوٰۃ و سلام دعا ہے لہذا اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام ثابت ہوا کیونکہ وہ دعا ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی جائز ہے۔
نوٹ: جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی نہ صرف قبول بلکہ قابل عمل ہوتی ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے جب اور عموم کی تصریح کے ساتھ ہو تو تمام از مسند تحت امر داخل ہوتے ہیں (فتاویٰ رضویہ جلد 9، ص 243، رضا فائونڈیشن)
اس قاعدے کے مطابق کہ جب امر کا صیغہ عموم کی تصریح کے ساتھ ہو اور یہاں صلوٰۃ و سلام میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا عموم کسی سے مخفی نہیں اور جب عموم ہے تو اس میں تمام اوقات داخل ہیں لہذا نماز واذان سے قبل و بعد کا وقت لامحالہ (ضروری طور پر) داخل حکم امر ہوگا یعنی جو شخص ان اوقات میں صلوٰۃ و سلام پڑھے گا تو یہ قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا۔ (قواعد فقیہ معہ فوائد رضویہ ص 298 تا 301، مطبوعہ شبیر برادرز)
یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما
اے ایمان والو تم بھی اس غیب بتانے والے نبیﷺ پر خوب درود و سلام بھیجو۔ مفتی احمد یار خان علیہ رحمتہ اﷲ الحنان جاء الحق میں ارقام کرتے ہیں۔
یہ آیت کریمہ مطلق وعام ہے۔ اس میں کسی قسم کی قید و تخصیص نہیں ہے یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس فلاں وقت میں ہی پڑھا کرو یا فلاں وقت میں درود و سلام نہ پڑھا کرو بلکہ مطلق رکھا تاکہ تمام ممکن اوقات کو شامل رہے (جاء الحق: ص 781، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ)
اسی لئے حضرت علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اﷲ الباری فرماتے ہیں:
انہ تعالیٰ لم یوقت ذلک یشمل سائر الاوقات
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے اس امر صلوٰۃ (درود و سلام کا حکم) کا وقت معین نہیں کیا تاکہ تمام اوقات شامل رہیں (شرح الشفاء للقاری، جلد 3، ص 447)
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے۔ فی صلوتکم ومساجد کم و فی کل موطن
یعنی اپنی نمازوں اور مساجد اور ہر مقام میں نبی کریمﷺ پر درود شریف پڑھو (جلاء الافہام، ص 252)
زکریا کاندھلوی دیوبندی نے لکھا ہے جن اوقات میں بھی (درود شریف) پڑھ سکتا ہو، پڑھنا مستحب ہے (تبلیغی نصاب فضائل، درود شریف ص 67)
لہذا مطلقا ہر جگہ اور ہر وقت نبی کریمﷺ پر درود وسلام پڑھنا جس میں اذان کا مقام بھی داخل ہے کلام الٰہی عزوجل سے مامور و ثابت ہے۔ لہذا روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔
غیر مقلدوں کے امام ابن قیم لکھتے ہیں۔ المواطن السادس من مواطن الصلوٰۃ علی النبیﷺ بعد اجابتہ الموذن وعنہ الاقامۃ
ترجمہ: یعنی حضور سید عالمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مواقع میں چھٹا موقع ہے موذن کی اذان سننے کے بعد اور اقامت سے پہلے (جلاء الافہام، ص 308)
امام قاضی عیاض مالکی رحمتہ اﷲ علیہ رقم طراز ہیں۔ ومن مواطن الصلوٰۃ علیہ عند ذکر و سماع اسمہ و کتابہ او عند الاذان
ترجم: نبی کریمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مقامات میں سے یہ ہے کہ آپﷺ کے ذکر کے وقت آپﷺ کا نام مبارک سننے کے وقت یا آپﷺ کے نام مبارک لکھنے کے وقت یا اذان کے وقت۔ (شفاء شریف فصل فی المواطن الخ جلد 2، ص 43، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ علی قاری فرماتے ہیں:
عند الاذان ای الاعلام الشامل للاقامۃ
ترجمہ: اذان سے مراد اعلام ہے جو اذان شرعی و اقامت دونوں کو شامل ہے (شرح الشفائ، جلد 2، ص 114)
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں: یستفاد منہ بظاہرہ استحبابہ عند شروع الاقامۃ کما ہو معارف فی بعض البلاد
(الاسعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ باب الاذان ج 2، ص 41، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) امام سید ابی بکر المشہور باسید البکری رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں:
ای الصلوٰۃ والسلام علی النبیﷺ قبل الاذان والاقامۃ
ترجمہ: اذان و اقامت سے پہلے رسول اﷲﷺ پر درود و سلام بھیجنا مسنون و مستحب ہے (امانۃ الطالبین علی فتح المعین جلد 1، ص 232، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح میں علامہ شیخ احمد طحطاوی فرماتے ہیں: وفی الدرۃ المنیقۃ: اول من احدث اذان اثنین معابنو امیۃ واول لازیدت الصلوٰۃ علی النبی ﷺ بعد الاذان علی المنارۃ فی زمن حاجی بن الاشراف شعبان بن حسین بن محمد بن قلاون، باامر المستحب نجم الدین الطنبدی وذلک فی شعبان سنۃ احدی وتسعین وکذا فی الاوئل للسیوطی
(حاشیۃ الطحطاوی جلد 1، ص 271، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز کراچی)
مومن وہ ہے جو ان کی عزت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے
(حدائق بخشش)
اب ہم فتاویٰ امجدیہ سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جس سے اظہر من الشمس وابین من الامس، روز روشن سے زیادہ ظاہر گزشتہ کل سے زیادہ واضح ہوجائے گا۔
اذان و اقامت سے پہلے اور بعد میں درود و دعا و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔ صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ اﷲ القوی لکھتے ہیں: اذان کے بعد جو دعا احادیث میں وارد ہے۔ اس کا پڑھنا اتباع سنت و موجب برکات ہے۔ اس کے پڑھنے کے لئے احادیث میں شفاعت کا وعدہ فرمایا گیا۔ انبیاء علیہم السلام پر درود و سلام پڑھنا موجب ثواب و برکات اور درود کے ثواب جو احادیث میں وارد ہیں، اس کا مستحق ہے۔ احادیث میں درود پڑھنے کی فضیلت موجود ہے اور اذان کے بعد درود کی ممانعت نہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ اس کو (درود و سلام اذان و اقامت سے پہلے یا بعد میں پڑھنے کو) ناجائز و بدعت قبیحہ کہنے والے ایمان و انصاف سے بولیں کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنا کس حدیث میں منع کیا۔ کس صحابی نے منع کیا یا تابعین و تبع تابعین یا ائمہ مجتہدین میں سے کس نے ناجائز کہا۔ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو یہ حکم احداث فی الدین و بدعت قبیحہ ہے یا نہیں ضرور ہے اور وہ تمام احادیث جو مجوزین کے حق میں ذکر کی گئیں۔ سب مانعین کے حق میں ہیں۔ بالجملہ صلوٰۃ وسلام (اذان واقامت سے پہلے ہو یا بعد میں) پڑھنا جائز ہے کسی دلیل شرعی سے اس کی ممانعت نہیں۔
اب نجدیوں نے موقوف کردیا ہے ورنہ صدیوں سے حرمین طیبین مکہ و مدینہ دیگر بلاد اسلامیہ میں رائج و معمول بنارہا اور علماء و مشائخ بنظر استحسان دیکھتے رہے اور عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ماراہ المسلمون حسنا فہو عنہ اﷲ حسن لہذا یہ جائز و مستحسن ہے۔
در مختار و ہدایہ، فتاویٰ قاضی خان، عالمگیری و غیرہ کتب فقہ میں اس کے جواز بلکہ استحسان کی تصریح ہے۔ التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخر سنۃ سبع مانۃ واحدی وثمانین فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعد عشر سنین حدث فی الکل الا المغرب ثم فیہا مہ تین وہو بدعۃ حسنۃ
علماء جب اسے اس ہیئت خاصہ کے ساتھ بدعت حسنہ کہتے ہیں تو اسے بدعت سیئہ قرار دے کر منع کرنا سخت غلطی ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، ص 67, 66, 65 مطبوعہ مکتبہ رضویہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اذان کے بعد یا اذان سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجنا جائز و مستحب امر مستحسن ہے کما حردناہ فی اوائلہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
(حدائق بخشش)
امام ابن حجر متوفی 974ھ اپنی مایہ ناز تصنیف الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں ارقام کرتے ہیں کہ نماز جمعہ اور نماز فجر و مغرب کے سوا باقی سب نمازوں سے پہلے اور اذان کے بعد مساجد کی میناروں پر رسول اﷲﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی جو عادت اہل اسلام میں رائج ہے۔ ا سکو سلطان صلاح الدین بن ایوب رحمتہ اﷲ علیہ نے جاری کیا تھا۔ نماز جمعہ اور نماز فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا اور نماز مغرب کا وقت تنگ ہونے کی وجہ سے اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ اس عمل کی ابتداء مصر اور قاہرہ میں 791ھ سے ہوئی ہے کہ بعض معتقدین نے خواب میں اس کو دیکھا تھا۔ ان مورخین کا یہ بیان اس طریقہ کے اس سے قبل جاری ہونے کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین بن ایوب کی وفات کے بعد مذکورہ تاریخ تک اس کو ترک کردیا گیا ہو اور اس تاریخ کے بعد دوبارہ اس پر عمل کیا گیا ہو یا سلطان صلاح الدین نے صرف جمعتہ المبارک کی رات اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہو اور مذکورہ تاریخ کے بعد باقی ایام میں بھی اس کو معمول بنادیا گیا ہو۔ مزید لکھتے ہیں کہ بعض متاخرین نے اس عمل کو درست قرار دیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اس پر عمل کرنے والے کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔ حضرت امام احمد بن محمد بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ کے شیخ حضرت شیخ الاسلام ذکریا رحمتہ اﷲ علیہ کا قول اس کے قریب ہے۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا ہے کہ اس کی اصل مستحب ہے اور کیفیت بدعت (حسنہ) ہے (انظرنی الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود ص 325)
نیز اسی میں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا جس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔
اس حدیث کو المروزی نے تخریج کیا۔ اس کی سند میں ایک راوی کا نام ذکر نہیں (الدر السمنن ص 308)
انداز لگایئے کہ درود پاک نہ پڑھنے والے پر اس وعید شدید ارشاد فرمائی گئی۔ ان بدبختوں کا انجام کیا ہوگا جو اپنے دقیانوسی خیالات فاسدہ جاہلانہ اعتراضات کے تیر برسا کر اذان سے پہلے اور بعد میں درود سلام پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھنے اور حق توفیق عطا فرمائے۔
خدام الدین ستمبر 1963ء میں لکھا ہے کہ اس درود سے منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حاجی امداد اﷲ صاحب نے فرمایا ہے کہ اس کے جواز میں شک نہیں (مولانا محمد صدیق ملتانی) (تقاریری نکات ص 463 بتغیر مطبوعہ کرانوالہ بک شاپ لاہور)
حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رحمت کونین نانائے حسنینﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ایک طرف کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ جو درخت اور پہاڑ سامنے آتا ہے۔ اس سے السلام علیک یارسول اﷲ کی آواز آتی ہے اور میں خود اس آواز کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا (سنن الترمذی الحدیث 3464، ج 5ً ص 359)
اہلسنت کی پہچان سنیوں کے دلوں کی جان اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمتہ الرحمن اپنے نعتیہ کلام حدائق بخشش میں فرماتے ہیں۔
ذکر ان کا چھیڑیئے ہر بات میں
چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجئے
مثل فارس زلزلے ہوں نجد میں
ذکر آیات ولادت کیجئے
غیظ میں جل جائیں، بے دینوں کے دل
یارسول اﷲ کی کثرت کیجئے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے
(باقی آئندہ)
٭٭٭
 کہنا اللہم لک حمد و بک امنت وعلیک توکلت و علیٰ رزقک افطرت یہ دونوں بدعت ہیں۔
اور خطبہ کی اذان داخل مسجد کہنا یہ بھی بدعت ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب ابو دائود جلد اول ص 162 میں ہے عن السائب بن یزید قال کان یوذن بین یدی رسول اﷲﷺ اذا جلس علی الممبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر یعنی حضرت سائب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اﷲﷺ جمعہ کے روز منبر پر تشریف فرما ہوتے تو حضورﷺ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے زمانہ میں اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے کی مخالفت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ان بدعتوں کی بھی مخالفت کریں مگر وہ لوگ ان بدعتوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ جس سے انبیاء کرام و بزرگان دین کی عظمت ظاہر ہو، صرف اسی کی مخالفت کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کیباتیں نہ سنیں کہ عظمت نبی کا دشمن ابلیس جنت سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ عظمت نبی کی مخالفت کرکے جنگ میں جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 ص 181 بتغیر مطبوعہ شبیر برادراز)
شامی مصری جلد اول ص 381 تا 382 میں ہے۔
قولہ (مستحبۃ فی کلاوقات الامکان) ای حیث لا مانع و نص العلماء علی استحبابہا فیمواضع یوم الجمعۃ ولیلتھا وعند الاقامۃ واول الدعا واوسطہ و آخرہ وعند ذکر
ان کا کہنا (درود مستحب ہے ہر غیر مکروہ وقت مین) یعنی جہاں کو شرع مانع نہ ہو۔ علماء نے فرمایا ہے کئی مواقع پر درود شریف مستحب ہے۔ خطبہ کے وقت جمعہ کے دن میں اور رات میں اقامت کے وقت۔ دعا کے شروع میں اس کے درمیان میں اور اس کے اخیر میں بھی نیز اﷲ کے ذکر کے وقت۔
در مختار مصری ص 228 میں ہے۔
ومستحبۃ فی کل اوقات الامکان
ہر جائز اوقات میں درود شریف مستحب ہے۔
حنفیہ کا اصول فتاویٰ میں لکھا ہے۔ علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حمکفی متوفی 1088ھ نے الدر المختار میں لکھا
الاصل فی الاشیاء الابحۃ یعنی چیزوں میں اصل اباحت جائز ہونا ہے (حاشیہ شامی جلد 1، ص 77، مکتبۃ رشیدیہ کوئٹہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے قبل چاہئے یا درود شریف کی آواز آواز اقامت سے ایسی جدا ہوکر امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزء اقامت نہ معلوم ہو (فتاویٰ رضویہ جلد 5، ص 386، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
اسی فتاویٰ رضویہ میں الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول کے بارے میں دلائل ملاحطہ فرمائیں۔ امام اہلسنت فرماتے ہیں۔
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ کہنا باجماع مسلمین جائز و مستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر و باہر الستحیان میں السلام علیک ایہا النبی و رحمتہ اﷲ وبرکاتہ ہے اور اس کی سوا صحاح کی حدیث میں یامحمد انی اتوجہ بک ابی ربی فی حاجتی ہذہ
(جامع ترمذی میں اسی طرح ہے) اے محمدﷺ میں اپنی اصل حاجت میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کو وسیلہ بناتا ہوں۔ موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالمﷺ کے حضور پکارنا اور حضور سے مدد لینا ثابت ہے (فتاویٰ رضویہ جلد 23، ص 680، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ اذان سے قبل یا بعد میں درود شریف بالخصوص الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ کہنا بھی جائز ہے۔
فتاویٰ فیض رسول میں ہے۔ اگر مخالفین اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کے زمانہ مبارکہ میں اور صحابہ کرام کے عہد میں اذان و اقامت سے پہلے درود شریف نہیں پڑھا جاتا تھا تو مخالفین سے کئے کہ مسلمان بچوں کو جو ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرایا جاتا ہے، ایمان کی یہ دو قسمیں ہیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں۔ کلموں کی تعداد ان کی ترتیب اور ان کے سب نام بدعت ہیں۔ قرآن شریف کا تیس 30 پارے بنانا، ان میں رکوع قائم کرنا اس پر اعراب زبر زیر وغیرہ لگانا اور آیتوں کا نمبر وغیرہ لگانا سب بدعت ہے۔ حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا حدیث کی قسمیں بنانا پھر ان کے احکام مقرر کرنا سب بدعت ہیں۔ اصول حدیث، اول فقہ کے سارے قاعدے قانون سب بدعت ہیں۔ نماز کے لئے زبان سے نیت کرنا یہ بھی بدعت ہے، روزہ کی نیت اسی طرح زبان سے کہنا نویت ان اصوم غداۃً ﷲ تعالیٰ اور افطار کے وقت ان الفاظ کو زبان سے
جب اذان اتنا بابرکت کام ہے تو ہر بابرکت کام سے پہلے جس طرح بسم اﷲ شریف پڑھنی چاہئے (کل امر ذی بال لویبد بسم اﷲ فہو اقطع) اسی طرح ہربابرکت کام سے پہلے اپنے آقا و مولیٰﷺ پر درود و سلام پڑھنا چاہئے جن کے صدقے ہمیں یہ عظیم الشان نعمت ملی جیسا کہ جامع صغیر میں حدیث بھی ہے۔
القول البدیع فی الصلوٰۃعلی حبیب الشفیع میں علامہ سخاوی علیہ الرحمہ (جوکہ ابن کثیر کے وہ ابن قیم کے وہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور ابن تیمیہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہیں مخالفین کے) فرماتے ہیں۔ اذان سے پہلے سلام پڑھنا جائز ہے۔ ویوم بحسن نیتہ حسن نیت پر ثواب بھی ملے گا۔ یہی درود و سلام جو اذان سے پہلے صدیوں سے پڑھا جارہا ہے اور ادفتحیہ میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویرضی اﷲ عنہ نے اس کو چودہ سو اولیاء کا وظیفہء قرار دیا اور فرمایا جو اس کو پڑھے گا، چودہ سو اولیاء کا فیض پائے گا۔
شکر النعمہ میں سید السفہاء مولوی اشرفعلی تھانوی کا واقعہ ہے کہ کانپور میں وعظ کے دوران ایک شخص نے خواب میں حضورﷺ کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا۔ اشرف علی کو میرا سلام دینا، اس شخص نے بیدار ہونے کے بعد مجلس وعظ میں ہی سلام عرض کیا تو تھانوی صاحب کہنے لگے۔ آج تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ کثرت سے سلام عرض کرو۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲﷺ۔
ضیاء القلوب میں ہے حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ نے حضورﷺ کی زیارت کے لئے یہی درودشریف بتایا ہے۔
الشہاب الثاقب میں حسین احمد مدنی (ٹانڈوی) نے لکھا ہے کہ ہمارے علماء تو کثرت سے یہ درود شریف (الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ) پڑھتے ہیںجبکہ وہابڑے (یعنی وہانی کا معنی ہے نمک حرام) منع کرتے ہیں۔ تبلیغی نصاب میں لکھا ہے کہ میرے نزیک دور ہو یا قریب یہی درود شریف پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں صلوٰۃ بھی ہے اور سلام بھی (اور اﷲ تعالیٰ نے صلوا علیہ وسلموا تسلیما)میں صلوٰۃ و سلام دونوں پڑھنے کا حکم دیا ہے)
 اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے متعلق فقہاء احناف کی تصریحات
علامہ عمر بن ابراہیم ابن نجیم الحنفی المتوفی 1005ھ لکھتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی شافعی متوفی 911 نے حسن الصحاضرہ میں لکھا ہے کہ ربیع الاخر 781ھ پیر کے دن عشاء کی اذان کے بعد سید عالمﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا شروع ہوا پھر اس کے دس سال بعد مغرب کے سوا ہر اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنا شروع ہوا۔ پھر میں نے علامہ عبدالرحمن سخاوی متوفی 906ھ کے القوال البدیع میں یہ پڑھا کہ شعبان 791ھ میں قاہرہ اور مصر کے موذنوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر اذان سے فارغ ہونے کے بعد کئی مرتبہ یہ پڑھیں۔
الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ اور یہ معلوم ہے کہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا قرب کا ذریعہ ہے اور بہت احادیث میں اس کی ترغیب دی گئی۔ خصوصا اذان کے بعد کی دعا سے پہلے (کما فی ضحیح مسلم) اور صحیح یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے (للستفصیل بدعۃ الحسنۃ انظر فی اشعۃ اللمعات ج 1ص 25، مطبوعہ کوئٹہ)
اور اس کے فاعل کو اس کی حسن نیت کی وجہ سے اجر دیا جائے گا (القول البدیع ص 280، ملخصاً مکتبہ الموید الطائف)
اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں کئی اقوال ہیں اور صحیح قول یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے (الحنر الفائق ج 1، ص 172، قدیمی کتب خانہ کراچی)
علامہ شامی قدس سرہ السامی کی بھی یہی تحقیق ہے کہ اذان کے بعد سرکار مدینہﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑڑھنا بدعت حسنہ (اچھی بدعت ہے) (ردالمحتار جلد 2، ص 52، دارالحیاء التراث العربی بیروت 1419ھ)
ابریز میں ہے اذان کی فضیلت میں حدیث پاک میں آتا ہے کہ اذان کی آواز سن کر شیطان گوز مارتا ہوا چھتیس میل دور بھاگ جاتا ہے۔ اس کی وجہ علماء نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اذان ایک نور ہے اور نور میں ٹھنڈک ہے جبکہ شیطان نار سے ہے جس میں تپش ہے جوکہ ٹھنڈک سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے شیطان مقام اذان سے بھاگ جاتا ہے (الابریز شیخ عبدالعزیز دباغ)
نیز اذان کی یہ بھی فضیلت ہے کہ جہاں جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہے قیامت کے دن ہر شے موذن کی ایمان کی گواہی دے گی اور موذن کی گردن قیامت کے دن سب سے بلند ہوگی یعنی اس کی شان و عظمت بہت اونچی ہوگی۔
کتاب کنزالعباد وصلوٰۃ نخشی و کتاب السعادۃ و جامع الرموز شرح مختصر وقایہ و رد المحتار علی الدر المختار و فتاویٰ صوفیہ میں تصریح ہے کہ جب موذن پہلی مرتبہ اشہد ان محمدً رسول اﷲ کہے تو سننے والے کو صلی اﷲ علیک یا رسول اﷲ کہنا مستحب ہے اور جب دوسری مرتبہ کہے تو قرۃ عینی بک یا رسول اﷲﷺ کہنا مستحب ہے۔ اس عبارت پر حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر ہاشمی قصوری (متوفی 1315ھ) تبصرہ کرتے ہوئے ارقام کرتے ہیں۔
اب غٹور کرو کہ یہ حکم کتب معتبرہ فقہ درود کی ساتھ اور بغیر درود کے بھی اذان کے وقت یا رسول اﷲ کہنا مستحب (رسالہ الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ ص 27، مطبوعہ دارالاسلام لاہور)
شرح شفاء فی حقوق المصپطفی میںہے کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ کا پائوں سست اور بے حس ہوگیا تھا تو ان کو کسی نے کہا کہ محبوب (یعنی جس سی آپ کو سب سے زیادہ محبت ہو) کو یاد کر! تب آپ نے اونچی آواز سے پکارا۔ یا محمداہ
علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں گویا ابن عمنر رضی اﷲ عنہ نے فمن استعانت میں اپنی محبت کے اظہار کا قصد کیا۔ دیکھئے شرح الشفاء ملا علی قاری، اس سے وہ لوگ درس عبرت حاصل کریں جو اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام پڑھنا بدعت کہتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین کے دور میں نہ تھا۔ ابھی بھی ایسے بہت سے امور پائے جاتے ہیں جو قرون ثلثہ میں نہ تھے تو ان کا کیا کیا جائے جیسے کسی صحابی کے دور میں موٹر سائیکل، کار، بس، جہازوغیرہ ہ تھے تو مخالفین کو چاہئے کہ ان چیزوں کو ترک کرے۔ اس لئے کہ یہ قرون ثلثہ میں نہ تھی اور گھوڑوں اونٹوں پر سفر کیا جائے۔ لائوڈ اسپیکر پر اذان و نماز پڑھنا پڑھانا کانفرنس وغیرہ کرنا یہ سب معاملات ترک کردیئے جائیں کہ قرون ثلثہ میں نہ تھے، بریانی قورمے، کولڈرنگ بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی ترک کردی جائیں کہ قرون ثلثہ میں نہ تھی۔
اور قرون ثلثہ میں آپ جیسے ناواقف بھی نہ تھے تو آپ کا کیا کیا جائے اور قرون ثلثہ میں بجلی، گیس، موبائل، ٹیلی فون، بلند و بالا عمارتیں بھی نہ تھیں۔ان کو بھی ترک کردیا جائے اور اگر ان تمام تر اشیاء کا استعمال ترک نہیں کرسکتے تو پھر یہ پاگلوں جیسا اعتراض کیوں؟
قل ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین
حرمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جائز بتانے والے کو کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ خود حدیث پاک میں ہیں۔ یہ اصول مقرر فرمایا
مشکوٰۃ شریف ص 367 میں ابن ماجہ و ترمذی سے نقل کیا۔
الحلال ماحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرم اﷲ فی کتابہ و ما سکت عنہ فہو مما عفی عند
حلال وہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال بیان فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو اﷲ تعالی ٰنے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جن کاموں سے سکوت فرمایا۔یہ ان کاموں سے ہیں جن پر موخذہ نہیں ہے یعنی مباح ہیں۔ لہذا جو لوگ صلوٰۃ و سلام کو ناجائز کہتے ہیں انہیں قرآن و حدیث اور فقہ سے دلیل لانا چاہئے۔ ہم سے دلیل مطالبہ غلط ہے۔
قل ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین
در مختار میں موجود ہے۔ ویثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل
یعنی اذان و اقامت کے درمیان ہر نماز کے لئے تشویب ہے۔
(در مختار علی حاشیۃ الشامی جلد 1، ص 86، ومکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
بدرسیمائے عالم علامہ شہاب الدین احمد خفاجی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
المنقول افہم کانو یقولون فی تحیۃ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲﷺ
ترجمہ: منقول ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نبی پاکﷺ سے ملاقات کے وقت الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ کے الفاظ سے سلام و تحیت پیش کرتے تھے (نسیم الریاض جلد 3، ص 454، دارالفکر بیروت)
 یارسول اﷲکہنے کے بارے میں
دلائل و براہین
سنیت کی جان سنیوں کی پہچان امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا فتاویٰ رضویہ جلد 30 ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں امام اہلسنت نے یارسول اﷲ پکارنے کو جائز و مستحن قرار دیا۔ موتو ابغیظکم
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول اﷲ کی کثرت کیجئے
(امام اہلسنت)
اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام دعا (وہ دعا جو احادیث میں وارد ہوئیں) کے بیشمار فضائل و برکات ہیں۔ مخالفین یہ کہہ کر عوام اہلسنت پر افتراء باندھتے ہیں کہ تم اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام پڑھنے ہو۔ کیا حضورعلیہ الصلوٰۃ و سلام کے دور میں کسی صحابی نے پڑھا (وغیرہ وغیرہ) ان تمام بے بنیاد سوالات کے جوابات ہم دے چکے ہیں۔ یاد رکھئے کسی معاملے میں عدم جواز کی دلیل نہ ہوناخود دلیل جواز ہے۔ یقینا ہر وہ نئی چیز جس کو شریعت مطہرہ نے منع نہیں کیا، وہ بدعت حشنہ اور مباح یعنی اچھی بدعت اور جائز ہے اور یہ امر مسلم ہے کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں منع نہیں کیا گیا لہذا منع نہ ہونا خود بخود اجازت بن گیا۔ جیسا کہ اشباہ والنظائر میںمذکور ہے۔
الاصل فی الاشیاء الابحۃ
یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل میں امام شفاعی اور احناف میں حصرت امام کرخی کے نزدیک ہے (الاشباہ والنظائر الغن الاول، القواعد الکلیہ النسوع الاول القاعدۃ الثالثہ ص 51,56، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)
متاخرین احناف نے بھی اس کوتسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے بھی اس کو سند لائے ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اﷲ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
ہوالذی خلق لکم مافی الارض جمیعا (البقرہ 29)
اﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے، پیدا فرمایا۔
لہذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو۔ صاحب ہدایہ کا بھی یہی مسلک ہے (الہدایہ کتاب الطلاق باب العدۃ، ج 1،ص 278، مطبوعہ دارالحیاء التراث العربی بیروت)
حدیث شریف میں ہے۔ الحلال مااحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرم اﷲ فی کتابہ و ماسکت عنہ فہو مما عفا عنہ
حلال وہ ہے جو اﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جو اﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت فرمایا وہ معاف ہیں اور مباح ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باباکل المجین ولاحسن الحدیث 3367، ج 4، ص 56، مطبوعہ دارالعرفہ بیروت 1420ھ)
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضورﷺ کا قول و فعل اور صحابہ کرام کا قول و فعل توحجت شریعہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ بلکہامر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ الاعمال لابنیات حدیث صحیح ہے۔ بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات اسلام کی اشاعت اورشریعت کا تحفظ ہوتا ہے، سب مستحسن ہیں۔
(بہار شریعت، جلد 3، ص 1071، قاعدہ نمبر 10، القواعد الفقیہ مکتبۃ العربیہ)
اصول الشاش میں یہ قاعدہ مذکور ہے کہ المطلق یجری علی اطلقہ یعنی مطلق اپنے مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن عظیم میں مومنوں کو اپنے حبیبﷺ پر درود سلام پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اپنی رحمت واسع سے اس حکم کو مطلع رکھا یعنی اس زمان و مکانو صیغہ و ہیئت کی کوئیقید نہیں لگائی لہذا مومنین درود وسلام جب چاہیں، جس وقت چاہیں اور جس ہیئت و صیغہ کے ساتھ چاہیں پڑھ کرحکم خداوندی پر عمل کی سعادت پاسکتے ہیں (ہکذا فی الحسامی)
ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداﷲ حسن
(المسندء الامام بن حنبل، مسند عبداﷲ بن مسعود، الحدیث 3600، جلد 2، ص 16، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1414ھ)
یعنی وہ چیز جس کو مسلمان (اہل علم و اہل تقویٰ) اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
یہ حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے جس کو حضرت امام احمد رحمتہ اﷲ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے بعض محدثین اسے مرفوع کہتے ہیں اور بعض اس کو موقوف کہتے ہیں
(کشف الخفاء حرف الصحیح الحدیث 2212 ، جلد 2،ص 168، مطبوعہ دارلاکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)
یہ حدیث اس قدر عمدہ اور جامع ہے کہ اس کے تحت وہ تمام امور آجاتے ہیں جنہیںمسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور مبارک میں یا اس کے بعد اچھاسمجھ کر کرتے آئے ہیں جیسے اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃو سلام، میلاد و قیام، ایصال ثواب، اعراس بزرگان دین، وغیرہ کوان بدامور کو اہل ایمان فدایان خیرالانامﷺ اچھا سمجھ کر بجا لاتے اور ثواب پاتے ہیں (عامہ کتب اصول الفقہ) (تلخیص اصولی الثاثی ص 124، بتغیر مطبوعہ مکتبتہ المدینہ)
ان تمام تر اصول و قواعد سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اذان سے قبل اور اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام جائز وامر مستحسن ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ عقل سلیم عطا فرمائے اور حق سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ ویٰسین
اس سے وہ لوگ درس عبرت حاصل کریں جنہوں نے شرک و بدعت کو اپنا تکیہ کلام بنایا ہوا اور شرکو بدعت کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں حالانکہ ان بے وقوفوں،عقل کے اندھوں، دل کے گندھوں سر سے گنجوں کو صحیح طرح شرک و بدعت کی تعریف بھی معلوم نہیں ہوتی اور صحیح العقیدہ سنی اسلامی بھائیوں پر شرک و بدعت کے تیر برساتے ہیں اور اصول الاصول فخر الرسول بی بی آمنہ کے مہکتے پھولﷺ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے یا رسول پکارنے کو شرک کہتے ہیں۔
سلطان العارفین قدوۃ السالکین سیدنا سلطان باہو رحمتہ اﷲ فرماتے ہیں جو شخص حیات النبیﷺ کو نہیں مانتا بلکہ موت جانتا ہے، اس کے منہ میں خاک اور وہ دونوں جہاں میں سیاہ رو (یعنی سیاہ چہرے والا) ہے اور ضرور بالضرور شفاعت مصطفیﷺ سے محروم رہے گا۔ (عقل بیدار ص 289، ملتقطا مطبع پروگریسو بکس لاہور)
تو زندہ ہے واﷲ تو زندہ ہے واﷲ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
(حدائق بخشش)
لہذا ہر وہ چیز جس سے اﷲ عزوجل نے سکوت فرمایا، وہ جائز و مباح ہے۔ اگر کوئی شخص اسے ناجائز یا حرام یا گناہ کہے اس پر لازم ہے کہ وہ دلیل شرعی لائے۔ کیونکہ سکوت عنہا (جس سے سکوت کیا گیا) کو مباح و جائز کہنے کے لئے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت اس مفہوم کو ثابت کرنے والی اوپر بیان ہوچکی ہے۔ دوسری آیت جس میں یہ مفہوم اور زیادہ وضاحت سے ثابت ہونا ہے یہ ہے۔
یاایھا الذین امنوا لاتسئلوا اعن اشیاء ان تبدلکم تسؤ کم(المائدہ 101)
اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں کیا گیا کہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں تکلیف پہنچے۔
اسی لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام کے سخت ہونے کا اندیشہ ہے۔اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔ اگر ان کی ممانعت یا فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ لہذا جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ وہ آیت مذکورہ (ہوالذی خلق لکم مافی الارض جمیعا) کی رو سیجائز و مباح ہیں (تلک حدود اﷲ فلا تعتدوہا (البقرہ 29) اور یہ اﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو لہذا جو ان مسکوت عنہا کو ناجائز یا حرام یا بدعت سیئہ یا فرض یا واجب کہے وہ قرآن و حدیث یا قواعد فقیہ سے دلیل لائے ورنہ یہ اﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود سے آگے بڑھنا ہے اور اﷲ عزوجل اور رسول اﷲﷺ اور شریعت کاملہ پر افتراء ہوگا جس کی قرآن میں شدید مذمت آئی ہے اور سخت ممانعت و تہدید کی گئی ہے۔ لہذا میت کو ایصال ثواب کے لئے تعین وقت کے ساتھ قرآن خوانی یا سوا لاکھ بار کلمہ شریف پڑھنا یا پڑھوانا فاتحہ و درود انعقاد محافل میلاد شریف اور صلوٰۃ و سلام اور بیعت وارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کوقرآن یا احدیث یا اقوال صحابہ یا اقل درجہ میں قواعد فقیہہ سیان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہئے ۔ بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول اﷲ عزوجل اور رسول اﷲﷺ پر افتراء والعیاذ باﷲ وتعالیٰ
ان اﷲ وملائکۃ یصلون علی النبی یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلمہ تسلیما
صیغہ مضارع (یصلون کے راز)
حافظ سخاوی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ مضارع (یصلون) لایا گیا جو دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔
دیکھو القول البدیع
اس آیت بینہ میں درود و سلام کا مطلق حکم ہوا کسی وقت، کسی مقام کی کوئی قید نہیں۔
صلوا وسلموا … دو امر کے صیغے بیان فرمائے ہیں کہ جن میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنے محبوبﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود وسلام بھیجنے کا حکم فرمایا کہ اے ایمان والو میرے نبی پر درود وسلام بھیجو اور خوب بھیجو لیکن اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی شرط و قید لگائی کہ صرف فلاں درود پڑھو اور فلاں درود نہ پڑھو اور فلاں وقت میں پڑھو، فلاںجگہ پڑھو اور فلاں جگہ نہ پڑھو۔ صبح پڑھو اور شام نہ پڑھو، فلاں دن پڑھو اور فلاں دن نہ پڑھو۔ اذان سے پہلے اور بعد میں نہ پڑ؎و، ایسا کسی آیت میں ارشاد نہیں فرمایا تو پھر اذان سے پہلے یا اذان کے بعد الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ پڑھنے والوں پر اعتراض کیسا؟
اب ہم الصلوٰۃ والسلام یارسول پڑھنے کے مطلق چند اقوال ذکر کریں گے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
مفسرقرآن حضرت اسماعیل حقی بروسی نے اپنی تفسیر روح البیان میں 40 صیغوں کے ساتھ یہ درود لکھا۔
الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ
الصلوٰۃ والسلام علیک یاحبیب اﷲ
(تفسیر روح البیان، جلد7، ص 235)
نورالایضاح و مراتی الفلاح معہ طحطاوی
السلام علیک یاسیدی یا رسول اﷲ
السلام علیک یا نبی اﷲ
السلام علیک یا حبیب اﷲ
طحطاوی مع المراتی ص 430 جلد 2، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز
فتح القدیر میں ہے۔ السلام علیک یارسول اﷲ یاخیر خلق اﷲ فتح القدیر جلد 3 ص 95
امام اہلسنت قاطع نجدیت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا
سرسوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا
دل تھا ساجد نجد یا پھر تجھ کو کیا
بیٹھتے اٹھتے مدد کے واسطے
یارسول اﷲ کہا پھر تجھ کو کیا
یٰعبادی کہہ کے ہم کو شاہ نے
اپنا بندہ کرلیا پھر تجھ کو کیا
دیو کے بندوں سے کب ہے یہ خطاب
تو نہ ان کا ہے نہ تھا پھر تجھ کو کیا
نجدی مرتا ہے کہ کیوں تعظیم کی
یہ ہمارا دین تھا پھر تجھ کو کیا
دیو تجھ سے خوش ہے پھر ہم کیا کریں
ہم سے راضی ہے خدا پھر تجھ کو کیا
دیو کے بندوں سے ہم کو کیا غرض
ہم ہیں عبد مصطفی پھر تجھ کو کیا
(حدائق بخشش 312)
شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے
(حدائق بخشش 200)
میں وہ سنی ہوں جمیل قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوٰۃ والسلام