اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے
دیسی لبرل ملحدین کے زاتِ باری پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر مبنی ایک بہترین تحریر
دنیا میں سب سے زیادہ جس مزھب کے خلاف سازشوں کے جال بچھاے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف مزھب اسلام ہے, کہ اگر اس قدر اندرونی اور بیرونی سازشیں کسی اور مزھب کے خلافت کی جاتیں تو یقینا وہ مزھب دنیا سے مٹ جاتا, مگر اسلام چونکہ اسے اللہ نے قیامت تک باقی رکھنا ہے, ان تمام تر فتنوں کے باوجود آج تک اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا, جس طرح اسلام کو اندرونی فتنے, اور سازشیں لاحق ہیں,جیسے باطل فرقے, اسی طرح بیرونی خطرات بھی ہیں, جیسے باطل مزاھب, ان میں سب سے عروج پر جو فتنہ ہے وہ الحاد کا ہے,الحاد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں, عام طور پر یہ لوگ اللہ تعالی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے, اور جب انسان خدا کا ہی منکر ہوجاے تو پھر نبی, مزھب, اور آسمانی کتابوں کو محض انسانی خیالات شمار کرتا ہے, کیونکہ عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کا رد کیا جاے, چونکہ ملحدین کتاب و سنت کو نہیں مانتے اس لیے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انکا رد کریں, اس لیے فقیر کی یہ خواہش ہے کہ اہل علم حضرات کی توجہ اس طرف مبزول کرائ جاۓ, ان شاء اللہ ہماری یہ تحریر بچوں کے لیے کہانی ہے طلباء کے لیے معلومات ہے, اور اہل علم حضرات کے لیے دعوت فکر ہے...
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے, جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)
اب سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں کوئ بھی چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ؟ یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئی؟
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا؟
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ
اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود وجود میں نہیں آسکتا؟
ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کیں, جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ,پھر زمین پر مناسب کشش ثقل رکھی,اگر کشش ثقل بڑھ جاے تو انسان قدم بھی نہ اٹھا سکے گا,جیسے کہ سورج کی کشش ثقک زیادہ ہے,زمین پر اگر کسی کا وزن ایک کلو ہے تو سورج پر اس کا وزن 28 کلو ہوگا, اور اگر کشش ثقل کم ہوجاے تو انسان کا چلنا پھرنا مشکل ہوجاے,اور وہ اڑتا رہے جیسے چاند پر,مختصر یہ کہ زمین پر انسانی زندگی کے واسطے ہر ضرورت مہا کی اور اسے اعتدال میں رکھا,جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے؟
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائی مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ﴿۱﴾
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائی مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے؟ تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائی مخلوق اگر جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں,اور جانوروں جیسی کوی مخلوق ہوی تو مکلف نہیں, اس سے آگے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:
يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ
(النور,45)
اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائی ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائی مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.
ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ
"اللہ ہر چیز کا خالق ہے"
چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ دھماکے کا نتیجہ ہے, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, یہاں ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجائےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جائے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے؟
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیچرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,دور حاضر میں اس سیارے کو نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا.
یہ نو سیارے سورج کہ گرد گردش کررہے ہیں, زمین سورج کے گرد تیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتی ہے,اور ایک چکر 365 دن میں مکمل کرتی ہے, ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف آٹھ منٹس انیس سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے؟ کیا یہ خود چلتی ہے؟ جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی...
یہ ہمارا شمس نظام کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy) بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے (سورج) ہیں, یہ اللہ تعالی کی کامل قدرت ہے کہ یہ تمام سیارے اور ستارے آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں, ادھر سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینکڑوں سالوں تک سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے, کیا یہ محض اتفاق ہے؟
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,اور ملکی وے سے پچیس لاکھ (25,00,000) نوری سال کے فاصلے ہر ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"
" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".
خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...
دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا سے مٹ جاۓ, اس مقصد کے لیے انھوں نے مخصوص افراد کو خرید کر اسلام میں اندرونی اور بیرونی سازشوں, اور فتنوں کا جال بچھایا ہوا ہے, روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں, دوسری طرف عوام ہے جو دنیاوی فکروں میں گم ہے, ایسے وقت میں اہل علم حضرات پر تمام زمہ داریاں آجاتی ہیں, اور وہ انھیں پورا بھی کررہے ہیں, مگر ہم نے اندازہ لگایا کہ بہت سے طلبہ اور کافی اہل علم حضرات رفع الیدین جیسے مسئلوں میں الجھے ہوے ہیں, یقینا اس قسم کے لوگوں کی تعداد کافی پھیلتی جارہی ہے, اور یہ ایک بڑا فتنہ بھی ہے, لیکن ہمیں یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیۓ, ہمارے نزدیک اہل بدعت کے بعد سب سے بڑا فتنہ لبرل ازم ہے, کہ جس نے بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے, ہم اصاغر اور اماثل اہل علم حضرات کو یہ فکر دینا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام میں نئے عقیدے اور نئے مسئلے وضح کیۓ آپ ضرور ان کا رد کریں مگر اس پچھلے راستے سے بے خبر نہ رہیں, یہ راستہ الحاد کا راستہ ہے, اور الحاد کو شکست دینے کے لیۓ آپ کو کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ سائنس کی دنیا میں بھی قدم رکھنا ہوگا.
کیوں؟
اس لیے کہ الحاد کے رد کے لیۓ آپ کے پاس کتاب و سنت کے ساتھ عقلی دلائل اور سائنسی نولج ہونا بھی ضروری ہے, پچھلے حصوں میں ہم نے کائنات کی وسعتیں بیان کی تھیں, اور یہ بیان کیا تھا کہ صرف زمین پر ہی مکمل طور پر زندگی ممکن ہے, کیونکہ زمین ان اربوں کھربوں سیاروں میں وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں زندگی کی تمام ضروریات اور ایک مناسب ماحول موجود ہے, جو کہ دوسرے معلوم سیاروں پر اب تک نہیں پایا گیا, یقینا یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے, اور زمین میں موجود تمام اشیاء میں جو ربط ہے وہ یقینا اپنے خالق کی طرف اشارہ کرتا ہے, ہم یہاں پانی اور بارش سے متعلق چند حقائق بیان کرینگے, اور یہ ثات کرینگے کہ بارش وجود الہی کی قرآنی اور عقلی دلیل ہے، پہلے ہم پانی کو لے لیتے ہیں, کسی بھی سیارے کی تحقیق میں سب سے پہلے اس سیارے پر ہوا اور پانی تلاش کیا جاتا ہے, چاند کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہاں ہوا اور پانی موجود نہیں, سیاروں کے اپنے چاند ہوتے ہیں,انھیں سیارچہ بھی کہا جاتا ہے, ہماری زمین کا ایک چاند ہے جو عام طور پر آسمان میں نظر آتا ہے, جب کہ مرکری اور وینس کے کوی چاند نہیں.مارس کے دو چاند ہیں, کہا گیا ہے کہ زمین کا دوسرا چاند دریافت ہوا ہے جو 300 فٹ چوڑا ہے, واللہ اعلم, جوپیٹر کے 63 چاند ہیں, سیچرن کے 62 چاند ہیں, یورینس کے 27 چاند ہیں, نیپچون کے 13 چاند ہیں اور پلوٹو کے 2 چاند ہیں, یہ فقط نظام شمسی میں موجود 9 سیاروں کے چاند ہیں, جبکہ صرف ملکی وے میں سترا ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں, ان کے چاندوں کی تعداد وہی جانے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے, زمین کے چاند میں دن میں سخت گرمی اور رات میں سخت سردی ہوتی ہے,چنانچہ دن میں چاند کی سطح کا درجہ حرارت 104 سینٹی گریڈ ہوتا ہے, اور رات میں منفی 121, لھزہ وہاں زندگی ممکن نہیں, تحقیق کے مطابق چاند کی روشنی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین پر آتی ہے,جو کہ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ 1:15 میں زمین تک پہنچ جاتی ہے, حیرت ہے آسمان پر چمکتے چاند اور سورج کو دیکھ کر ملحدین کو خدا یاد نہیں آتا, جب کہ 100 volts کے بلب کے بارے میں کہتے ہیں اس کا موجد ایڈیسن تھا... زمین میں کثرت سے پانی پایا جاتا ہے, اور ہوا بھی, پانی دو حصے ہائٹروجن اور ایک حصہ آکسجن سے مل کر بنتا ہے, اور زندگی کی بنیادی ضرورت ہے, نا صرف انسان بلکہ جانوروں اور پودوں کی بھی ضرورت ہے, اسلام وہ واحد مزھب ہے جس نے پانی پینے تک کہ آداب بیان فرماۓ ہیں, جسے نبی کریم علیہ السلام کی سنت کہا جاتا ہے, اور یوں ہی نہیں بلکہ آج سائنس نے تسلیم کیا کہ پانی پینے کے وہ آداب عبث نہیں بلکہ حکمت سے بھرے ہیں, چنانچہ بیٹھ کر تین سانسوں میں پانی پینا سنت ہے, اور آج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے گردے خراب ہونے کا اندیشہ ہے,اور ایک ہی سانس میں پینے سے معدہ اور آنتیں کمزور ہوجاتی ہیں, جب ہم پانی پیتے ہیں تو ہماری سانس کی نالی خود بخود بند ہوجاتی ہے, جس سے خون تک آکسیجن پہنچنا بند ہوجاتی ہے, اگر ایک ہی سانس میں پانی پیا جاۓ تو خون میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں, اور جب ہم سنت کے مطابق تین سانسوں میں پانی پیئنگے تو آکسیجن میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی, یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یہ تمام تحقیقات موجود نہیں تھیں, مگر کتاب و سنت نے وہ حقائق بیان فرما دیے تھے جسے آج سائنس تحقیق کے بعد تسلیم کررہی ہے, تو ثابت ہوا کہ حق وہی ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے.
فلسفہ کائنات کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں ہم نے کائنات کے چند حقائق بیان کر کے اللہ تعالی کے خالق ہونے کو ثابت کیا تھا, اور زمین کی ایک مخصوص شے پانی کے حوالے سے اسلام کے مقرر کردہ اصول بیان کر کے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا تھا, اب ہم بارش سے متعلق وہ حقائق بیان کرینگے کہ ملحدین کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہے گی, یہ بارش اللہ تعالی کے وجود, قدرت اور خالق ہونے کی ایک دلیل ہے, آج جب بارش ہوتی ہے, تو دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھر جاتی ہیں, بچے بڑے تقریبا سب ہی بارش میں نہانے کا شوق رکھتے ہیں, اور انسانوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی سر سبز و شاداب ہوکر لہلہارہے ہوتے ہیں, اور مومن و کافر, موحد و ملحد سب خوش نظر آتے ہیں, مگر منکر غور نہیں کرتے کہ یہ ان کے رب کی ایک نشانی ہے, فرماتا ہے :
پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ''.
(الروم ، 30:48)
گویا کہ ملحد کا بارش میں دلی خوشی محسوس کرنا خود اس پر ہی حجت ہے....
اب یہ دیکھتے ہیں کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟
تو جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق سمندر سے کروڑوں ٹن پانی بخارات کی صورت میں جمع ہوجاتا ہے, ہوا ان بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے, یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں, انہی بدلوں کی رگڑ سے بجلی پیدا ہوتی ہے, جو ہمیں آسمان کی طرف فورا دیکھای دیتی ہے لیکن اس کی آواز کچھ دیر سے سنای دیتی ہے,اس کی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے, چنانچہ روشنی کی رفتار 300,000 کلو میٹر, یا 1,86000 میل فی سیکنڈ ہے, جبکہ آواز کی رفتار 343 میل فی سیکنڈ ہے. پھر ایک اور ہوا ان بادلوں کو ہر طرف پھیلا دیتی ہے, اسے مونسون کہا جاتا ہے, سائنس نے آج بعد از تحقیق بتایا کہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات کو ہوا اوپر لے کر جاتی ہے, اور اللہ تعالی نے اس مرحلے کو قرآن میں اس وقت بیان فرمایا کہ جب سائنس غلبا ماں کے پیٹ میں تھی, اللہ تعالی نے فرمایا:
وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (1) فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (2) فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (3) فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (4)
" قسم انکی جو بکھیر کر اڑانے والیاں, پھر بوجھ اٹھانے والیاں, پھر نرم چلنے والیاں, پھر حکم سے بانٹنے والیاں.
(سورة الذریت, پارہ 26)
یہاں حملت وقرا سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں, یہی بادل اگر زیادہ بلندی پر چلے جائیں تو ٹھنڈ سے جم جاتے ہیں اور زمین پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں گرنے لگتے ہیں جسے ہم برف باری کہتے ہیں, اور یہی بادل اگر بلندی کے بجاے زمین پر آجائیں تو اسے دھند کہا جاتا ہے, آگے فرمایا کہ نرمی سے چلنے والیاں یعنی وہ ہوائیں جو بادلوں کو لیے پھرتی ہیں, یا وہ کشتیاں کہ جسے تم صرف اور صرف اپنے رب کے سہارے سمندر میں چھوڑتے ہو فرمایا نرمی سے چلتی ہیں,
آگے فرمایا حکم سے باٹنے والیاں.
سائنس نے بارش پر تحقیقات کر کے بارش کے مختلف مراحل کو معلوم کیا, لیکن ایک مرحلے میں اب تک سائنس بے بس ہے کہ بادل تو ہر جگہ آتے ہیں مگر بارش کہیں ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی, قادر مطلق اللہ رب العلمین نے فرمایا فالمقسمت امر کہ یہ تو تمہارے رب کا حکم ہے جہاں چاہتا ہے برساتا ہے.
اور یہ اللہ تعالی کی کمال قدرت ہے کہ سمندر سے بھاپ بن کر اٹھنے والا کھاری پانی جب برستا ہے تو میٹھا ہوتا ہے, برسنے والے بادل زمین سے تقریبا بارہ سو 1200 میٹر بلندی پر ہوتے ہیں, اور زمین کی طرف آتے ہوے بارش کے قطروں کی رفتار پانچ سو اٹھاون (558) کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے, اگر برش اسی رفتار سے برسے تو بستیاں, کھیتیاں سب برباد ہوجاے لیکن قادر مطلق کی قدرت دیکھیۓ اس نے ایسا نظام بنایا کہ بارش کے قطروں کی مخصوص بناوٹ اور ہوا سے لگنے والی رگڑ کے سبب ان کی رفتار انتہای کم اور مناسب ہو جاتی ہے, تو جب برستی ہے تو نرم اور خوش گوار محسوس ہوتی ہے.
رب عالمین خالق کائنات فرماتا ہے :
"کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟
(واقعہ,68-70)
حاصل کلام یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت قبول کر لینی چاییے, اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بندہ ہے...
ملحدین دنیا کے تمام باطل مزاھب کو چھوڑ کر آج فقط اسلام پر سوالات کی برسات کررہے ہیں, اب ان کے سوالات جیسے بھی ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات دینا اہل علم کی زمہ داری ہے, اور ان اعتراضات اور سوالات کو صرف گستاخی کہہ کر چھوڑ دینا آنے والی نسلوں کے ایمان خطرے میں ڈالنا ہے,اور یقین رکھو کہ اسلام پر اٹھنے والے جس اعتراض اور سوال کا جواب آج تم نہیں دوگے کل وہی سوال تمہاری آنے والی اولاد سے کیا جاے گا, تو اہل علم حضرات کی اس طرف توجہ دلانے کے واسطے فقیر نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے, گزشتہ دنوں ملحدین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ 2024 میں 100 افراد کا ایک گروپ سیارہ مریخ (Mars) پر جاے گا, جس کی واپسی کا امکان نہیں ہے, ان سو افراد میں ایک مسلمان بھی ہے تو بتاو وہ مسلمان سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کیسے کرے گا کیا اسلام میں اسکا کوی حل موجود ہے؟
تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں اسلام میں اسکا حل موجود ہے, لیکن اس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیارہ مریخ ( Mars) کیسا ہے اور کہاں ہے؟
ہمارا سورج جو آسمان پر دکھائی دیتا ہے اس کے نو سیارے ہیں, جو مختلف رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں, اسے نظام شمسی کہا جاتا ہے,تاہم نویں سیارے کو اب نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا. سورج سے سب سے قریب جو سیارہ ہے وہ عطارد (Mercury) ہے, جو کہ سورج سے پانچ کروڑ اناسی لاکھ (5,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور اڑتالیس (48) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہا ہے, اس کے بعد سیارہ زہرہ (Venus) ہے جو سورج سے دس کروڑ بیاسی لاکھ (10,82,00,000) کلو میٹر دور ہے, اور پینتیس (35) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے,اس کے بعد نیلا سیارہ ہے جیسے زمین کہا جاتا ہے, یہ سورج سے پندرہ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھانوے ہزار (15,95,98,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور تیس (30) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے,قرآن میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ
ترجمہ: " بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے"
(الفاطر41)
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ زمین ساکن ہے, بلکہ مطلب یہ ہے زمین اپنے محور سے باہر نہیں جاسکتی...
زمین کا ایک دن عام طور پر بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (365) دنوں کا, اس کے بعد سیارہ مریخ (Mars) ہے, جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے, یہ سورج سے بائیس کروڑ اناسی لاکھ (22,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور چوبیس (24) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے, اور سورج اہنے نو سیاروں کو لے کر ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے, جس کا ایک چکر پچیس لاکھ
(25000,000) سال میں پورا ہوتا ہے, قرآن میں ہے:
وَهُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِىْ فَلَكٍ يَسْبَحُوْنَ
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے بناے رات اور دن اور سورج اور چاند, ہر ایک ایک گھیرے میں تیر رہا ہے".
(الانبیاء,33)
ان مزکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کے یہ چاند سورج وغیرہ ایک دائرے میں گردش کررہے ہیں, اور اس سے باہر نہیں نکل سکتے...
سیارہ مارس کا ایک دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (687) دنوں کا ہوتا ہے, عام طور پر اس کی سطح کا درجہ حرارت منفی 55 c ہوتا ہے, اور دوپہر میں 20 c تک ہوسکتا ہے,مارس زمین سے تقریبا سات کروڑ اٹھتر (7,78,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اب تک کی تحقیق کے مطابق مارس پر پانی کے امکانات موجود ہیں, اللہ تعالی نے فقط زمین کو انسانی زندگی کے لیے بنایا, اور زندگی کے تمام لوازمات یہاں پیدا کیے, ہماری کائنات میں زمین جیسے اربوں کھربوں سیارے ہیں مگر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد ہوا :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ
" اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں".
(سورہ بقرہ)
تو تمام سیاروں کو چھوڑ کر فرمایا فی الارض,معلوم ہوا زمین کو زندگی کے واسطے بنایا گیا ہے,اور انسان صرف زمین پر موجود ہے, اب کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کرنا اور وہاں دنیا آباد کرنے کی سوچنا محض ایک سائنسی خواہش ہے...
آج سائنس عروج پر جارہی ہے, اور سائنس دانوں کے مارس پر جانے کے ارادے ہیں, وہاں جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے, بہر حال ہم اپنے جواب کی طرف پلٹتے ہیں, مارس پر اگر بلفرض انسان پہنچ جاتا ہے, اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو وہیں نماز ادا کرنی ہوگی, پس اگر زمین نظر آجاتی ہے تو نماز پڑتے وقت زمین کی طرف منہ کیا جاے گا کہ خانہ کعبہ زمین پر ہے,بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان اگر ملکی وے سے باہر کسی کہکشاں کے کسی سیارے پر چلاجاے تو اس وقت بھی نماز پڑھتے وقت ملکی وے کہکشاں کی طرف منہ کرےگا کہ زمین اسی میں ہے, اور اصل قبلہ کہ جو فضا ہے اسکا تعین وہاں مشکل ہے, پھر اگر زمین نظر نہ آے تو اس کا حکم زمین پر اس جگہ کی مثل ہے کہ جہاں قبلے کا تعین نہ ہوسکے اور کوی بتانے والا نہ ہو, اسی طرح جب مارس پر زمین نظر نہ آے اور کوی ایسا آلہ بھی نہ ہو جو کعبہ کی سمت بتا سکے تو چاہیے کہ تحری کرے, یعنی غور و فکر کرے اور جس طرف غالب گمان ہو کہ زمین اس طرف ہے تو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھے, پھر اگر زمین کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوی سوار ہو اور قبلہ رخ نہ ہوسکے تو اسکا حکم یہ ہے کہ جہاں ہوسکے منہ کر کے نماز پڑھ لے کہ مشرق و مغرب سب اسی کے ہیں...
مارس کا ایک دن 24 گھنٹے 37 منٹس کا ہوتا ہے, تو وہاں روزہ رکھا جا سکتا ہے..
ملحدین نے کہا مارس سے واپس آنا ناممکن ہے تو حج کیسے ہوگا,ہم کہتے ہیں کہ حج صاحب نصاب پر دیگر تمام شرائط کی موجودگی میں زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے,جو پہلے ہی زمین پر ادا کیا جاسکتا ہے, رہی زکوة تو مارس پر تمام افراد ضرورت کی اشیاء ہی لے کر جائیں گے,لھزہ زکوة فرض نہ ہوی.اس کے علاوہ اس میں مزید تفصیل بھی ہے جو ہم وقت پڑنے پر بیان کرینگے..
یہ تمام وضاحت ہم نے صرف اس لیے بیان کی تاکہ ملحدین پر واضح ہوجاے کہ تنگی ان کی فکر میں ہے اسلام میں بڑی وسعت ہے..
پچھلے صفحات میں ہم نے سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کے بارے میں بتایا تھا, جو کہ فقط ملحدین کے اعتراض کا جواب تھا ورنہ ہماری تحقیق کے مطابق سائنس دان ابھی تک چاند پر بھی نہ جاسکے ہیں, جو کہ زمین سے (3,84,400) کلو میٹر دور ہے, جبکہ سیارہ مارس (7,78,00,000) کلو میٹر دور ہے, تو وہاں کیوں کر جاسکتے ہیں؟
اب ہم اپنے اس موضوع کو سمیٹے ہیں, اور اپنی دیگر تحقیقاتی تحاریر کو مختلف عنوان اور مختلف نام کے ساتھ منظر عام پر لائنگے...آخر میں ہم اپنی تحریر اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ یہ کائنات بہت وسیع ہے اس میں اربوں کھروں سیارے اور ستارے ہیں, جیسا کہ پہلے گزرا کہ ملکی وے کہکشاں میں سترا ارب سیارے اور ایک کھرب ستارے (سورج) ہیں, اور پھر کہکشائیں لاکھوں کروڑوں ہیں, اس مقام پر مجھے مشکاة کی وہ حدیث یاد آتی ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ کیا آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمر کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں, سوچنے کی بات ہے آج 2017 کے جدید دور میں بھی سائنس مکمل ستاروں کی تعداد معلوم نہ کرسکی, تو جس عمر کی نیکیوں تک ہماری رسای نہیں اس کے مقام تک کون پہنچ سکتا ہے؟
عرض کی کہ پھر ابو بکر؟
فرمایاعمرکی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابرہے,معلوم ہوا پوری کائنات بھی ابو بکرکی نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتی,اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک جتنے لوگ آے اور آئنگے حضور سب کے اعمال سے واقف ہیں,اور کائنات میں کتنے ستارےہیں حضور جانتے ہیں, اور منکرین نے کہا نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں, بخاری نے کہا نبی نظر اٹھاے تو اپنے حوض کوثر کو دیکھ لیتے ہیں, اب حوض تو ساتوں آسمان سے اوپر ہے, معلوم ہوا اللہ کے نبی اگر توجہ فرمائیں تو کائنات تو رہی محدود آسمانوں سے اوپر بھی دیکھ لیتے ہیں یہی حاضر ناظر کا معنی ہے.....
ازقلم : نادر رضا حسنی نوری
دیسی لبرل ملحدین کے زاتِ باری پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر مبنی ایک بہترین تحریر
(تحریر "اللہ خالق کل شئ" کے موضوعات)
1. خلائی مخلوق کی شرعی اور سائنسی حیثیت.
2. کائنات کی وسعت اور حقائق.
3. زمین کی خصوصیت.
4. سیارہ مریخ پر نماز روزے کی ادائگی.
5 پانی پینے کے اداب اور سائنس.
6. بارش اور سائنسی.
7. سیاروں کی حرکت.
8. پوری کائنات اور علم مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے, جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)
اب سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں کوئ بھی چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ؟ یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئی؟
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا؟
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ
اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود وجود میں نہیں آسکتا؟
ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کیں, جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ,پھر زمین پر مناسب کشش ثقل رکھی,اگر کشش ثقل بڑھ جاے تو انسان قدم بھی نہ اٹھا سکے گا,جیسے کہ سورج کی کشش ثقک زیادہ ہے,زمین پر اگر کسی کا وزن ایک کلو ہے تو سورج پر اس کا وزن 28 کلو ہوگا, اور اگر کشش ثقل کم ہوجاے تو انسان کا چلنا پھرنا مشکل ہوجاے,اور وہ اڑتا رہے جیسے چاند پر,مختصر یہ کہ زمین پر انسانی زندگی کے واسطے ہر ضرورت مہا کی اور اسے اعتدال میں رکھا,جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے؟
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائی مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ﴿۱﴾
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائی مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے؟ تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائی مخلوق اگر جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں,اور جانوروں جیسی کوی مخلوق ہوی تو مکلف نہیں, اس سے آگے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:
يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ
(النور,45)
اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائی ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائی مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.
ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ
"اللہ ہر چیز کا خالق ہے"
چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ دھماکے کا نتیجہ ہے, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, یہاں ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجائےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جائے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے؟
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیچرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,دور حاضر میں اس سیارے کو نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا.
یہ نو سیارے سورج کہ گرد گردش کررہے ہیں, زمین سورج کے گرد تیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتی ہے,اور ایک چکر 365 دن میں مکمل کرتی ہے, ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف آٹھ منٹس انیس سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے؟ کیا یہ خود چلتی ہے؟ جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی...
یہ ہمارا شمس نظام کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy) بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے (سورج) ہیں, یہ اللہ تعالی کی کامل قدرت ہے کہ یہ تمام سیارے اور ستارے آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں, ادھر سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینکڑوں سالوں تک سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے, کیا یہ محض اتفاق ہے؟
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,اور ملکی وے سے پچیس لاکھ (25,00,000) نوری سال کے فاصلے ہر ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"
" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".
خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...
دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا سے مٹ جاۓ, اس مقصد کے لیے انھوں نے مخصوص افراد کو خرید کر اسلام میں اندرونی اور بیرونی سازشوں, اور فتنوں کا جال بچھایا ہوا ہے, روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں, دوسری طرف عوام ہے جو دنیاوی فکروں میں گم ہے, ایسے وقت میں اہل علم حضرات پر تمام زمہ داریاں آجاتی ہیں, اور وہ انھیں پورا بھی کررہے ہیں, مگر ہم نے اندازہ لگایا کہ بہت سے طلبہ اور کافی اہل علم حضرات رفع الیدین جیسے مسئلوں میں الجھے ہوے ہیں, یقینا اس قسم کے لوگوں کی تعداد کافی پھیلتی جارہی ہے, اور یہ ایک بڑا فتنہ بھی ہے, لیکن ہمیں یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیۓ, ہمارے نزدیک اہل بدعت کے بعد سب سے بڑا فتنہ لبرل ازم ہے, کہ جس نے بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے, ہم اصاغر اور اماثل اہل علم حضرات کو یہ فکر دینا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام میں نئے عقیدے اور نئے مسئلے وضح کیۓ آپ ضرور ان کا رد کریں مگر اس پچھلے راستے سے بے خبر نہ رہیں, یہ راستہ الحاد کا راستہ ہے, اور الحاد کو شکست دینے کے لیۓ آپ کو کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ سائنس کی دنیا میں بھی قدم رکھنا ہوگا.
کیوں؟
اس لیے کہ الحاد کے رد کے لیۓ آپ کے پاس کتاب و سنت کے ساتھ عقلی دلائل اور سائنسی نولج ہونا بھی ضروری ہے, پچھلے حصوں میں ہم نے کائنات کی وسعتیں بیان کی تھیں, اور یہ بیان کیا تھا کہ صرف زمین پر ہی مکمل طور پر زندگی ممکن ہے, کیونکہ زمین ان اربوں کھربوں سیاروں میں وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں زندگی کی تمام ضروریات اور ایک مناسب ماحول موجود ہے, جو کہ دوسرے معلوم سیاروں پر اب تک نہیں پایا گیا, یقینا یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے, اور زمین میں موجود تمام اشیاء میں جو ربط ہے وہ یقینا اپنے خالق کی طرف اشارہ کرتا ہے, ہم یہاں پانی اور بارش سے متعلق چند حقائق بیان کرینگے, اور یہ ثات کرینگے کہ بارش وجود الہی کی قرآنی اور عقلی دلیل ہے، پہلے ہم پانی کو لے لیتے ہیں, کسی بھی سیارے کی تحقیق میں سب سے پہلے اس سیارے پر ہوا اور پانی تلاش کیا جاتا ہے, چاند کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہاں ہوا اور پانی موجود نہیں, سیاروں کے اپنے چاند ہوتے ہیں,انھیں سیارچہ بھی کہا جاتا ہے, ہماری زمین کا ایک چاند ہے جو عام طور پر آسمان میں نظر آتا ہے, جب کہ مرکری اور وینس کے کوی چاند نہیں.مارس کے دو چاند ہیں, کہا گیا ہے کہ زمین کا دوسرا چاند دریافت ہوا ہے جو 300 فٹ چوڑا ہے, واللہ اعلم, جوپیٹر کے 63 چاند ہیں, سیچرن کے 62 چاند ہیں, یورینس کے 27 چاند ہیں, نیپچون کے 13 چاند ہیں اور پلوٹو کے 2 چاند ہیں, یہ فقط نظام شمسی میں موجود 9 سیاروں کے چاند ہیں, جبکہ صرف ملکی وے میں سترا ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں, ان کے چاندوں کی تعداد وہی جانے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے, زمین کے چاند میں دن میں سخت گرمی اور رات میں سخت سردی ہوتی ہے,چنانچہ دن میں چاند کی سطح کا درجہ حرارت 104 سینٹی گریڈ ہوتا ہے, اور رات میں منفی 121, لھزہ وہاں زندگی ممکن نہیں, تحقیق کے مطابق چاند کی روشنی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین پر آتی ہے,جو کہ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ 1:15 میں زمین تک پہنچ جاتی ہے, حیرت ہے آسمان پر چمکتے چاند اور سورج کو دیکھ کر ملحدین کو خدا یاد نہیں آتا, جب کہ 100 volts کے بلب کے بارے میں کہتے ہیں اس کا موجد ایڈیسن تھا... زمین میں کثرت سے پانی پایا جاتا ہے, اور ہوا بھی, پانی دو حصے ہائٹروجن اور ایک حصہ آکسجن سے مل کر بنتا ہے, اور زندگی کی بنیادی ضرورت ہے, نا صرف انسان بلکہ جانوروں اور پودوں کی بھی ضرورت ہے, اسلام وہ واحد مزھب ہے جس نے پانی پینے تک کہ آداب بیان فرماۓ ہیں, جسے نبی کریم علیہ السلام کی سنت کہا جاتا ہے, اور یوں ہی نہیں بلکہ آج سائنس نے تسلیم کیا کہ پانی پینے کے وہ آداب عبث نہیں بلکہ حکمت سے بھرے ہیں, چنانچہ بیٹھ کر تین سانسوں میں پانی پینا سنت ہے, اور آج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے گردے خراب ہونے کا اندیشہ ہے,اور ایک ہی سانس میں پینے سے معدہ اور آنتیں کمزور ہوجاتی ہیں, جب ہم پانی پیتے ہیں تو ہماری سانس کی نالی خود بخود بند ہوجاتی ہے, جس سے خون تک آکسیجن پہنچنا بند ہوجاتی ہے, اگر ایک ہی سانس میں پانی پیا جاۓ تو خون میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں, اور جب ہم سنت کے مطابق تین سانسوں میں پانی پیئنگے تو آکسیجن میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی, یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یہ تمام تحقیقات موجود نہیں تھیں, مگر کتاب و سنت نے وہ حقائق بیان فرما دیے تھے جسے آج سائنس تحقیق کے بعد تسلیم کررہی ہے, تو ثابت ہوا کہ حق وہی ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے.
فلسفہ کائنات کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں ہم نے کائنات کے چند حقائق بیان کر کے اللہ تعالی کے خالق ہونے کو ثابت کیا تھا, اور زمین کی ایک مخصوص شے پانی کے حوالے سے اسلام کے مقرر کردہ اصول بیان کر کے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا تھا, اب ہم بارش سے متعلق وہ حقائق بیان کرینگے کہ ملحدین کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہے گی, یہ بارش اللہ تعالی کے وجود, قدرت اور خالق ہونے کی ایک دلیل ہے, آج جب بارش ہوتی ہے, تو دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھر جاتی ہیں, بچے بڑے تقریبا سب ہی بارش میں نہانے کا شوق رکھتے ہیں, اور انسانوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی سر سبز و شاداب ہوکر لہلہارہے ہوتے ہیں, اور مومن و کافر, موحد و ملحد سب خوش نظر آتے ہیں, مگر منکر غور نہیں کرتے کہ یہ ان کے رب کی ایک نشانی ہے, فرماتا ہے :
پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ''.
(الروم ، 30:48)
گویا کہ ملحد کا بارش میں دلی خوشی محسوس کرنا خود اس پر ہی حجت ہے....
اب یہ دیکھتے ہیں کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟
تو جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق سمندر سے کروڑوں ٹن پانی بخارات کی صورت میں جمع ہوجاتا ہے, ہوا ان بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے, یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں, انہی بدلوں کی رگڑ سے بجلی پیدا ہوتی ہے, جو ہمیں آسمان کی طرف فورا دیکھای دیتی ہے لیکن اس کی آواز کچھ دیر سے سنای دیتی ہے,اس کی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے, چنانچہ روشنی کی رفتار 300,000 کلو میٹر, یا 1,86000 میل فی سیکنڈ ہے, جبکہ آواز کی رفتار 343 میل فی سیکنڈ ہے. پھر ایک اور ہوا ان بادلوں کو ہر طرف پھیلا دیتی ہے, اسے مونسون کہا جاتا ہے, سائنس نے آج بعد از تحقیق بتایا کہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات کو ہوا اوپر لے کر جاتی ہے, اور اللہ تعالی نے اس مرحلے کو قرآن میں اس وقت بیان فرمایا کہ جب سائنس غلبا ماں کے پیٹ میں تھی, اللہ تعالی نے فرمایا:
وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (1) فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (2) فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (3) فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (4)
" قسم انکی جو بکھیر کر اڑانے والیاں, پھر بوجھ اٹھانے والیاں, پھر نرم چلنے والیاں, پھر حکم سے بانٹنے والیاں.
(سورة الذریت, پارہ 26)
یہاں حملت وقرا سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں, یہی بادل اگر زیادہ بلندی پر چلے جائیں تو ٹھنڈ سے جم جاتے ہیں اور زمین پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں گرنے لگتے ہیں جسے ہم برف باری کہتے ہیں, اور یہی بادل اگر بلندی کے بجاے زمین پر آجائیں تو اسے دھند کہا جاتا ہے, آگے فرمایا کہ نرمی سے چلنے والیاں یعنی وہ ہوائیں جو بادلوں کو لیے پھرتی ہیں, یا وہ کشتیاں کہ جسے تم صرف اور صرف اپنے رب کے سہارے سمندر میں چھوڑتے ہو فرمایا نرمی سے چلتی ہیں,
آگے فرمایا حکم سے باٹنے والیاں.
سائنس نے بارش پر تحقیقات کر کے بارش کے مختلف مراحل کو معلوم کیا, لیکن ایک مرحلے میں اب تک سائنس بے بس ہے کہ بادل تو ہر جگہ آتے ہیں مگر بارش کہیں ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی, قادر مطلق اللہ رب العلمین نے فرمایا فالمقسمت امر کہ یہ تو تمہارے رب کا حکم ہے جہاں چاہتا ہے برساتا ہے.
اور یہ اللہ تعالی کی کمال قدرت ہے کہ سمندر سے بھاپ بن کر اٹھنے والا کھاری پانی جب برستا ہے تو میٹھا ہوتا ہے, برسنے والے بادل زمین سے تقریبا بارہ سو 1200 میٹر بلندی پر ہوتے ہیں, اور زمین کی طرف آتے ہوے بارش کے قطروں کی رفتار پانچ سو اٹھاون (558) کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے, اگر برش اسی رفتار سے برسے تو بستیاں, کھیتیاں سب برباد ہوجاے لیکن قادر مطلق کی قدرت دیکھیۓ اس نے ایسا نظام بنایا کہ بارش کے قطروں کی مخصوص بناوٹ اور ہوا سے لگنے والی رگڑ کے سبب ان کی رفتار انتہای کم اور مناسب ہو جاتی ہے, تو جب برستی ہے تو نرم اور خوش گوار محسوس ہوتی ہے.
رب عالمین خالق کائنات فرماتا ہے :
"کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟
(واقعہ,68-70)
حاصل کلام یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت قبول کر لینی چاییے, اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بندہ ہے...
ملحدین دنیا کے تمام باطل مزاھب کو چھوڑ کر آج فقط اسلام پر سوالات کی برسات کررہے ہیں, اب ان کے سوالات جیسے بھی ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات دینا اہل علم کی زمہ داری ہے, اور ان اعتراضات اور سوالات کو صرف گستاخی کہہ کر چھوڑ دینا آنے والی نسلوں کے ایمان خطرے میں ڈالنا ہے,اور یقین رکھو کہ اسلام پر اٹھنے والے جس اعتراض اور سوال کا جواب آج تم نہیں دوگے کل وہی سوال تمہاری آنے والی اولاد سے کیا جاے گا, تو اہل علم حضرات کی اس طرف توجہ دلانے کے واسطے فقیر نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے, گزشتہ دنوں ملحدین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ 2024 میں 100 افراد کا ایک گروپ سیارہ مریخ (Mars) پر جاے گا, جس کی واپسی کا امکان نہیں ہے, ان سو افراد میں ایک مسلمان بھی ہے تو بتاو وہ مسلمان سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کیسے کرے گا کیا اسلام میں اسکا کوی حل موجود ہے؟
تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں اسلام میں اسکا حل موجود ہے, لیکن اس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیارہ مریخ ( Mars) کیسا ہے اور کہاں ہے؟
ہمارا سورج جو آسمان پر دکھائی دیتا ہے اس کے نو سیارے ہیں, جو مختلف رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں, اسے نظام شمسی کہا جاتا ہے,تاہم نویں سیارے کو اب نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا. سورج سے سب سے قریب جو سیارہ ہے وہ عطارد (Mercury) ہے, جو کہ سورج سے پانچ کروڑ اناسی لاکھ (5,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور اڑتالیس (48) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہا ہے, اس کے بعد سیارہ زہرہ (Venus) ہے جو سورج سے دس کروڑ بیاسی لاکھ (10,82,00,000) کلو میٹر دور ہے, اور پینتیس (35) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے,اس کے بعد نیلا سیارہ ہے جیسے زمین کہا جاتا ہے, یہ سورج سے پندرہ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھانوے ہزار (15,95,98,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور تیس (30) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے,قرآن میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ
ترجمہ: " بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے"
(الفاطر41)
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ زمین ساکن ہے, بلکہ مطلب یہ ہے زمین اپنے محور سے باہر نہیں جاسکتی...
زمین کا ایک دن عام طور پر بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (365) دنوں کا, اس کے بعد سیارہ مریخ (Mars) ہے, جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے, یہ سورج سے بائیس کروڑ اناسی لاکھ (22,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور چوبیس (24) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے, اور سورج اہنے نو سیاروں کو لے کر ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے, جس کا ایک چکر پچیس لاکھ
(25000,000) سال میں پورا ہوتا ہے, قرآن میں ہے:
وَهُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِىْ فَلَكٍ يَسْبَحُوْنَ
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے بناے رات اور دن اور سورج اور چاند, ہر ایک ایک گھیرے میں تیر رہا ہے".
(الانبیاء,33)
ان مزکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کے یہ چاند سورج وغیرہ ایک دائرے میں گردش کررہے ہیں, اور اس سے باہر نہیں نکل سکتے...
سیارہ مارس کا ایک دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (687) دنوں کا ہوتا ہے, عام طور پر اس کی سطح کا درجہ حرارت منفی 55 c ہوتا ہے, اور دوپہر میں 20 c تک ہوسکتا ہے,مارس زمین سے تقریبا سات کروڑ اٹھتر (7,78,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اب تک کی تحقیق کے مطابق مارس پر پانی کے امکانات موجود ہیں, اللہ تعالی نے فقط زمین کو انسانی زندگی کے لیے بنایا, اور زندگی کے تمام لوازمات یہاں پیدا کیے, ہماری کائنات میں زمین جیسے اربوں کھربوں سیارے ہیں مگر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد ہوا :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ
" اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں".
(سورہ بقرہ)
تو تمام سیاروں کو چھوڑ کر فرمایا فی الارض,معلوم ہوا زمین کو زندگی کے واسطے بنایا گیا ہے,اور انسان صرف زمین پر موجود ہے, اب کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کرنا اور وہاں دنیا آباد کرنے کی سوچنا محض ایک سائنسی خواہش ہے...
آج سائنس عروج پر جارہی ہے, اور سائنس دانوں کے مارس پر جانے کے ارادے ہیں, وہاں جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے, بہر حال ہم اپنے جواب کی طرف پلٹتے ہیں, مارس پر اگر بلفرض انسان پہنچ جاتا ہے, اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو وہیں نماز ادا کرنی ہوگی, پس اگر زمین نظر آجاتی ہے تو نماز پڑتے وقت زمین کی طرف منہ کیا جاے گا کہ خانہ کعبہ زمین پر ہے,بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان اگر ملکی وے سے باہر کسی کہکشاں کے کسی سیارے پر چلاجاے تو اس وقت بھی نماز پڑھتے وقت ملکی وے کہکشاں کی طرف منہ کرےگا کہ زمین اسی میں ہے, اور اصل قبلہ کہ جو فضا ہے اسکا تعین وہاں مشکل ہے, پھر اگر زمین نظر نہ آے تو اس کا حکم زمین پر اس جگہ کی مثل ہے کہ جہاں قبلے کا تعین نہ ہوسکے اور کوی بتانے والا نہ ہو, اسی طرح جب مارس پر زمین نظر نہ آے اور کوی ایسا آلہ بھی نہ ہو جو کعبہ کی سمت بتا سکے تو چاہیے کہ تحری کرے, یعنی غور و فکر کرے اور جس طرف غالب گمان ہو کہ زمین اس طرف ہے تو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھے, پھر اگر زمین کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوی سوار ہو اور قبلہ رخ نہ ہوسکے تو اسکا حکم یہ ہے کہ جہاں ہوسکے منہ کر کے نماز پڑھ لے کہ مشرق و مغرب سب اسی کے ہیں...
مارس کا ایک دن 24 گھنٹے 37 منٹس کا ہوتا ہے, تو وہاں روزہ رکھا جا سکتا ہے..
ملحدین نے کہا مارس سے واپس آنا ناممکن ہے تو حج کیسے ہوگا,ہم کہتے ہیں کہ حج صاحب نصاب پر دیگر تمام شرائط کی موجودگی میں زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے,جو پہلے ہی زمین پر ادا کیا جاسکتا ہے, رہی زکوة تو مارس پر تمام افراد ضرورت کی اشیاء ہی لے کر جائیں گے,لھزہ زکوة فرض نہ ہوی.اس کے علاوہ اس میں مزید تفصیل بھی ہے جو ہم وقت پڑنے پر بیان کرینگے..
یہ تمام وضاحت ہم نے صرف اس لیے بیان کی تاکہ ملحدین پر واضح ہوجاے کہ تنگی ان کی فکر میں ہے اسلام میں بڑی وسعت ہے..
پچھلے صفحات میں ہم نے سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کے بارے میں بتایا تھا, جو کہ فقط ملحدین کے اعتراض کا جواب تھا ورنہ ہماری تحقیق کے مطابق سائنس دان ابھی تک چاند پر بھی نہ جاسکے ہیں, جو کہ زمین سے (3,84,400) کلو میٹر دور ہے, جبکہ سیارہ مارس (7,78,00,000) کلو میٹر دور ہے, تو وہاں کیوں کر جاسکتے ہیں؟
اب ہم اپنے اس موضوع کو سمیٹے ہیں, اور اپنی دیگر تحقیقاتی تحاریر کو مختلف عنوان اور مختلف نام کے ساتھ منظر عام پر لائنگے...آخر میں ہم اپنی تحریر اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ یہ کائنات بہت وسیع ہے اس میں اربوں کھروں سیارے اور ستارے ہیں, جیسا کہ پہلے گزرا کہ ملکی وے کہکشاں میں سترا ارب سیارے اور ایک کھرب ستارے (سورج) ہیں, اور پھر کہکشائیں لاکھوں کروڑوں ہیں, اس مقام پر مجھے مشکاة کی وہ حدیث یاد آتی ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ کیا آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمر کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں, سوچنے کی بات ہے آج 2017 کے جدید دور میں بھی سائنس مکمل ستاروں کی تعداد معلوم نہ کرسکی, تو جس عمر کی نیکیوں تک ہماری رسای نہیں اس کے مقام تک کون پہنچ سکتا ہے؟
عرض کی کہ پھر ابو بکر؟
فرمایاعمرکی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابرہے,معلوم ہوا پوری کائنات بھی ابو بکرکی نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتی,اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک جتنے لوگ آے اور آئنگے حضور سب کے اعمال سے واقف ہیں,اور کائنات میں کتنے ستارےہیں حضور جانتے ہیں, اور منکرین نے کہا نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں, بخاری نے کہا نبی نظر اٹھاے تو اپنے حوض کوثر کو دیکھ لیتے ہیں, اب حوض تو ساتوں آسمان سے اوپر ہے, معلوم ہوا اللہ کے نبی اگر توجہ فرمائیں تو کائنات تو رہی محدود آسمانوں سے اوپر بھی دیکھ لیتے ہیں یہی حاضر ناظر کا معنی ہے.....
ازقلم : نادر رضا حسنی نوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں