ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

اسلام کی فتح



وہ دور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تھا کہ ہر طرف اسلام سورج کی روشنی کی طرح پھیل رہا تھا, نئے نئے ملک اور شہر فتح ہورہے تھے, یہاں تک کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب عمر اسلام لاے تو اسلام  ظاہر ہوگیا, کیوں کہ عمر وہ واحد شخص ہے جس نے اعلانیہ اسلام قبول کیا, اعلانیہ ہجرت کی,آپ کے اسلام لانے کی وجہ سے اعلانیہ طواف ہونے لگا, لوگ اعلانیہ اسلام قبول کرنے لگے, اسلام کی کھلے عام دعوت دی جانے لگی, یہ ساری عزتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کی وجہ سے اسلام کو ملیں,  اسی لیے دربار رسالت سے آپ کو فاروق کا لقب ملا, کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کی وجہ سے ہی اسلام ظاہر ہوا ہے, اور حق اور باطل میں فرق واضح ہوگیا,
اور کیوں نہ ہو کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلخصوص حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمای تھی, چنانچہ حاکم کی روایت ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
"رب العالمین ! عمر بن خطاب سے اسلام کو غلبہ عطا فرما".
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جس قدر فتوحات ہوئیں,اور جس قدر اسلام کو عروج ملا وہ درحقیقت حضور علیہ السلام کی اس دعا کا ہی ثمرہ تھا, جو اللہ تعالی نے عمر کے زریعے سے اسلام کو دیا, یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا کامل ایمان تھا اور آپکی اپنے نبی کریم علیہ السلام سے سچی محبت تھی کہ آپ نے خلافت کے امور بخوبی انجام دیے, اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچایا, اسلامی احکام نافذ کیے.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بہت سخت تھے, یہ بات کسی نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہہ دی, کہ آپ اللہ کو کیا جواب دینگے کہ آپ ایسے شخص کو خلیفہ بنا کر جارہے ہیں جو بہت سخت ہیں, فرمایا میں اللہ کی بارگاہ میں عرض کرونگا کہ الہی میں نے تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا.
شرعی حدود قائم کرنا نہ ظلم ہے نہ سختی, دشمن اسلام اسے انسانی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہیں,ہم کہتے ہیں کہ یہ ظلم نہیں انصاف ہے, دنیاوی قانون میں بھی مجرموں کو سزا دی جاتی ہے, تو اس بنیاد پر اگر کوئی کہے کہ عمر سخت مزاج تھے تو میں کہونگا کہ یہ درست نہیں ہے, مؤطا امام مالک کی روایت ہے, حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی معافی کو پسند فرماتا ہے سوائے حدود کے, کہ حدود معاف کرنے کو ناپسند فرماتا ہے,
تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شرعی احکام نافذ کرنے میں سخت تھے نہ کہ اخلاقیات کے حوالے سے,
ہم اہلسنت کے نزدیک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق دوسرے خلیفہ مقرر ہوے, اور تمام صحابہ کرام بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی, حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے, اور صحابہ کرام کے اجماع کا انکار ایسے ہی کفر ہے جیسے قرآن کی آیت کا انکار کفر ہے.
سب سے پہلےحضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ہی امیر المؤمنین کا لقب ملا, آپ کے فضائل میں بہت احادیث موجود ہیں, چنانچہ بخاری میں ہے حضور علیہ الصلاة و السلام نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اے عمر جس راستے پر تم چلوگے اس راستے پر شیطان نہیں چلے گا بلکہ دوسرا رستہ اختیار کرےگا.
ہمیں اپنے محبوب کے فرمان پر یقین ہے, آج الحمد للہ ہم عمر کے راستے پر ہیں اور شیطان نے الگ رستہ بنالیا ہے,
واقعی اے عمر, آپ فاروق ہیں, فقط آپ کے نام سے آج بھی حق اور باطل کی پہچان ہوتی ہے,
آخر میں اتنا کہونگا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اسلام کو عروج ملا, اور آپ کے دنیا سے چلے جانے سے فتنوں کے دروازے کھل گے یہاں تک کہ طبرانی سے روایت ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ عمر کی موت پر اسلام رویا ہے, مگر یہ موت تو ایک وعدہ ہے آج بھی مسجد کی اذانوں میں عمر زندہ ہے..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں