ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

14اگست کی پُکار----یومِ آزادی کی خصوصی تحریر

۱۴ اگست  کی پکار۔۔۔۔۔۔تحریر: محمد اسماعیل بدایونی

کھانس کر دکھائیے ۔۔۔۔لمبی لمبی سانس لیجیے۔ شبانہ نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پلاسٹک کے  stethoscope سے اپنے والد کو چیک کر تے ہوئے  کہا ۔
بابا جانی نے ننھی منی ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق  زبردستی کھانسا بھی اور لمبی لمبی سانسیں بھی لیں 
گھر میں موجود شبانہ کی والدہ اور بھائی  ننھی ڈاکٹر کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے ۔
بابا جانی ! میں بڑے ہو کر ڈاکٹر  بنوں گی  ۔۔۔۔شبانہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا 
ہاں بھئی میں اپنی بٹیا کو ڈاکٹر ضرور بناؤں گا۔بابا جانی نے پیار کرتے ہوئے ننھی شبانہ کو گود میں بٹھا لیا 
لیکن کچھ ہی دنوں بعد شبانہ کے والد ایک موذی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے ۔
شبانہ کے والد کا انتقال ہوئے کئی برس بیت چکے تھے ۔۔۔۔۔باپ کیا ہو تا ہے یہ باپ کے جانے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے 
امی ! میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں  ۔شبانہ نے  انٹر کے  امتحان میں تیسری پوزیشن لینے کے بعد کہا 
بیٹا ! تمہارے بابا آج زندہ ہوتے تو یقینا ً وہ بہت  خوش ہوتے  اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل ہو بھی جاتی  لیکن بیٹا ! تم جانتی ہو  یہاں تو روٹی  ،کپڑا اور مکان  کی تگ ودو ہی ختم نہیں ہو پارہی ہے اور میڈیکل کی پڑھائی  بہت مہنگی ہے ۔۔۔۔ایسا کرو تم بی اے کر لو   کم از کم گریجویشن ہو جائے گا 
نہیں امی نہیں ! اسے میڈیکل میں ایڈمیشن لینے دیں ۔فہد کی نگاہوں میں بچپن کا منظر  گھوم گیا یہ بابا جانی کی بھی خواہش تھی 
لیکن بیٹا ! میڈیکل کی فیس بہت زیادہ ہے ہم ضروریات بمشکل تمام پوری کر پا رہے ہیں  اور تم خواہشات کی بات کر رہے ہو اگر تمہارے والد  حیات ہوتے تودوسری بات تھی ۔
امی ! آپ چھو ڑ دیں  میں پارٹ  ٹائم کوئی جاب کر لوں گا لیکن  اپنی بہن کی خواہش ضرور پوری کروں گا ۔۔۔۔۔
فہد آفس  کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور پھر واپسی میں نامعلوم ڈکیتوں کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ 
بیوہ ماں کا آخری سہارا۔۔۔۔۔  خواہشات کو دفن کرتی  بے بس بہن 
تھانہ کلچر   ۔۔۔۔رشوت ۔۔۔۔آہ وبکا ۔۔۔۔۔جوان لاشہ کیا اٹھا   ماں کا کلیجہ چر گیا ۔۔۔۔۔۔ماں ہوش و حواش کھو بیٹھی  جوان بیٹی ۔۔۔۔۔۔
کوکھ سےجنم لینے کے بعد کیسے جوان ہو تی ہے اولاد کچھ خبر بھی ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔اذیتوں کا  طویل تر ہو تا سلسلہ ۔۔۔۔۔۔
کہاں ہے انصاف۔۔۔۔کہاں ہے کوتوال ؟ سپاہی کہاں ہیں ؟ نظام کہاں ہے ؟ پوچھ رہی ہیں وہ ماں اور بیٹی 
کیا ہر روز ہمارے نوجوان یوں ہی سڑکوں پر مرتے رہیں گے ؟
کیا مائیں یوں ہی سسکتی رہیں گی ؟
کیا ظلم  یوں ہی جاری  رہے گا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں یورپین انسٹی ٹیوٹ لانڈھی  کراچی  میں مہمان خصوصی  کی حیثیت سے مدعو تھا ۔۔۔۔۔۔میٹرک کلاس کے بچوں نے یہ ڈرامہ اسٹیج کیا تھا  ۔۔۔۔اس فرضی ڈرامے نے مجھ سمیت ہال میں موجود تمام لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
معلوم ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
لاشیں کیوں اٹھ رہی ہیں ؟
سہاگ کیوں اجڑ رہے ہیں ؟
مکا ر سیاست دان لاشوں کی سیاست  کیوں کررہے ہیں ؟
سنو ! میرے دوستو! ہم برائی کو ہوتا دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں یہ ہمارا مسئلہ تھوڑی ہے  یہ تو  ہمارے پڑوسی کا دردِ سر ہے وہ جانے  اور اس کاکام جانے 
یہ وہ بیماری ہے جس میں ہم بحیثیتِ قوم مبتلا ہو چکے ہیں ۔
سوچیے !
 ایک پانی کے دومنزلہ جہاز  کی پہلی منزل پر سمجھدار ، ذہین  افراد موجود ہوں اور اچانک وہ جہاز  کے عرشے پر ایک شور سنیں کہ وہاں موجود بے وقوف اور احمق  لوگ جہاز میں پانی ختم ہوجانے کے باعث    جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے  جارہے ہیں 
اب آپ ہی بتائیے اگر پہلی منزل  میں موجود مسافر انہیں نہیں روکیں گے تو  کیا وہ محض غیر جانب دار ہو نے کی وجہ سے بچ جائیں گے ؟
کیا وہ نہیں ڈوبیں گے ؟
یقینا ً وہ سب بی ڈوبیں گے ۔
باری سب ہی کی آئے گی  بچے گا کوئی نہیں اگر تم چاہتے ہو  یہ خون کی حدت تمہارے گھر تک نہ پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے دل  سے یہ دعا نکلتی ہے اے اللہ میرے بیٹے کو زندہ گر واپس لانا ۔۔۔۔۔
اگر تمہارے سینے میں ایک حساس دل ہے تو یاد رکھنا !!!!!!!
تمہیں ان درندوں سے لڑنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔جو ہر سیٹ پر بیٹھے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔۔۔۔جو مختلف محکموں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں ان سے پاکستان بچانا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔اپنی ذمہ داری ادا کر نا ہو گی ۔۔۔۔۔۔اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ بچے گا کوئی نہیں ۔
 یورپین انسٹی ٹیوٹ کے  نوجوان آنر  شہروز صاحب  کا بہت شکریہ آپ نے  نسلِ نو کے اذہان میں  فکر کے دیپ روشن کیے ۔۔۔۔۔۔وہ تمام ادارے جنہوں نے ۱۴ اگست کو شور شرابے سے ہٹ کر فکری انداز میں منایا اپنی  آنے والی نسل کی فکری آبیاری کا سامان کیا آپ سب کا بہت شکریہ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں