ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

غوثِ الاعظم کا تحریر کردہ قصیدہِ غوثیہ

قصیدہ غوثیہ 

   اُردو ترجمہ کے ساتھ
_______________________________
معرفت کے لیٹریچر میں قصیدہ غوثیہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حضرت مولانا شاہ عبدالباقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تزکرۃ الکرام میں لکھا ہے:
قصیدہ غوثیہ عالم وجدو کیف کی ایک صدا ہے جس سے دل راحت محسوس کرتے ہیں۔اس قصیدہ میں سرکار غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ارفع و اعلیٰ روحانی مقامات کا زکر بطور تحدیثِ نعمت کیا ہے "فتوح الغیب" کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ جب حضرت غوث الثقلین اس قصیدہ کے بعض اشعار پڑھتے تو آخر میں ارشاد فرماتے 
"ولافخر و ھٰذا من فضل ربّی"
فضائل و برکاتِ قصیدہ غوثیہ
مولانا سیّد بہاءالدین جیلانی المدنی نے "غنیۃ الطالبین" کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ جو سالکینِ طریقت معمولاً اس قصیدہ کو سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں اُن کے روحانی مَراتِب میں حیرت انگیز ترقی ہوتی ہے۔خوف و ہراس کے موقع پر اس قصیدہ کو پڑھنے سے سکونِ دل کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔
اور خوف و ہراس کے بادل بہت جلد دور ہو جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل قصیدہ غوثیہ اُردو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ شئیر کر کے اس کی برکات اپنے دوست احباب تک پہنچائیں


دعا قبول کیوں نہیں ہوتی

دعا قبول کیوں نہیں ہوتی



ایکسکیوز می سر !۔۔۔طالب علم کی آواز نے  مجھے رکنے پر مجبور کر دیا ۔
کچھ فاصلے سے مجھے ایک طالب علم دوڑتا  ہوا نظر آیا شاید یہ ہی وہ طالب علم ہے جس نے مجھے آواز دی  اتنی دیر میں طالب علم قریب آگیا ۔۔۔۔۔
سر ! سر! آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا  طالب علم کا سانس پھول رہا تھا ۔
پوچھو بیٹا ! لیکن پہلے سانس لے لو  میں آپ کی بات سننے سے پہلے کہیں نہیں جا رہا  ۔میں نے  مسکراتے ہوئے جواب دیا 
سر ! یہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ  القرآن ۴۰ :۶۰
مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا
لیکن دعا قبول نہیں ہوئی میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں سر ! پر میری  دعا قبول نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔اگر کوئی خدا ہوتا تو دُعا ضرور قبول کرتا  خدا نہیں ہے سر ! خدا نہیں ہے سر ! 
۱۷ سال کا نوجوان مایوسی کے گرداب میں ہچکولے کھا رہا تھا  میں نے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا   اور اسے لے کر اپنے   روم کی طرف بڑھ گیا ۔
آج تمہیں ایک قصہ سُناتا ہوں   میں بھی تمہاری عمر میں تھا  جذباتی عمر، مسجد پاپندی سے جاتا تھا  اور بالکل ایسے ہی سوچتا تھا  جیسے آج کا نوجوان سوچتا ہے ۔ بس ادھر ہم دعا کریں اور ادھر پوری ہو نی چاہیے ۔۔۔۔۔لیکن ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا ،کبھی ہو بھی جاتا ہے ۔۔۔۔۔
میں اپنے بابا جی کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج تم میرے پاس آئے ہو ۔
میں نے بھی بابا جی سے وہی شکایت یا شکوہ کیا جو تم نے مجھ سے سوال کیا ہے۔
بابا جی  مسکرا دئیے  بالکل ویسے ہی جیسے تمہارے سوال کے جواب میں،میں مسکرایا  ،مجھ سے کہنے لگے سب کو چھوڑ پتر ! یہ بتا یہ سوال کا جواب میں تجھے دوں یا امام غزالی سے  پوچھے گا۔
میں نے کہا بابا جی ! امام غزالی کا تو انتقال ہوئے صدیا ں بیت گئیں کیا  عالم ِ مراقبہ میں ملاقات ممکن ہے ۔
بابا جی نے کہا : پتر ! رات عشاء بعد میرے پاس آنا  آج تجھے امام غزالی کی بارگاہ میں لے کر چلیں گے ان کے درس کی محفل میں بیٹھیں گے ان کا درس سُنیں گے۔
میں اپنا سوال بھول گیا اور خوشی خوشی گھر واپس چلا آیا کہ آج بابا جی امام  غزالی سے ملاقات کرائیں گے ۔۔۔۔
رات عشاء بعد جب باباجی کے پاس پہنچا تو  بابا جی نے کہا :آؤ پتر آؤ !
میں اور بابا جی بالکل اکیلے تھے میرے سامنے ڈیسک پر امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم موجود تھی ۔
بابا جی  نے مجھ سے کہا : اب تم اپنا سوال دہراؤ
میں نے سوال دہرا دیا  دعائیں قبول کیوں  نہیں ہوتیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ  القرآن ۴۰ :۶۰
مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا
مجھے ایسا لگاکہ میں امام غزالی کی مجلس میں موجود ہوں   امام غزالی فرما رہے تھے  حضرت ابراہیم بن ادھم سے بھی یہ ہی سوال ہوا تھا 
حضرت ابراہیم بن ادہم  نے فرمایا : تمہارے دل مردہ ہو گئے ہیں 
سوال کیا : دل کس چیز سے مردہ  ہو گئے ؟
حضرت ابراہیم بن ادہم نے فرمایا :آٹھ باتوں سے 
سوال کیا وہ آٹھ باتیں کیا ہیں ؟
تم نے اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانا لیکن اس کا حق ادا نہیں کیا 
تم نے قرآن کی تلاوت کی مگر اس کی حدود پر عمل نہ کیا
تم نے اللہ و رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل نہیں کیا 
تم نے کہا ہم موت سے ڈرتے ہیں لیکن اس کی تیاری نہیں کی ۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو تمہارا دشمن قرار دیا لیکن تم نے اس سے موافقت کی 
تم نے کہا ہمیں جہنم سے ڈر لگتا ہے  لیکن اپنے جسم کو اس  میں ڈالنے سے نہیں بچایا 
. تم نے کہا ہمیں جنت پسند ہے مگر اس کے لیے نیک عمل نہیں کیے 
جب تم صبح بیدار ہوتے ہو تو اپنے عیبوں کو پس پشت ڈال کر   دوسروں کے عیب نکالنا شروع کر دیتے ہو 
اب تم خود ہی بتاؤ  تم اپنے رب کو ناراض بھی کرو اور دعا کی قبولیت کی تمنا بھی کرو ؟
احیاء العلوم کے اوراق میرے سامنے  کھلے  ہوئے تھے بابا جی کے ساتھ ساتھ میری بھی آنکھیں نم تھیں تو بیٹا ! جب ہمارے اعمال ایسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔جب ہم اپنے رب کو ناراض کر دیتے ہیں تو پھر  دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
کبھی کبھی اسی طرح بزرگوں کی کتب کھول کر (پڑھنے کے لیے ) بیٹھ جایا کرو اور تصور کرو وہ درس دے رہے ہیں تم سُن رہے ہو  تمہاری رہنمائی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔بس تب سے عادت بنا لی ۔ اکثر مطالعہ یہ سوچ کر کرتا ہوں صاحبِ کتاب میرے سامنے ہیں اور مجھے درس دے رہے ہیں ۔
میں نے  اس نوجوان کو دیکھا پہلے اس کی آنکھیں شدت ِ مایوسی کے سبب نم تھیں اور اب اس کی آنکھوں میں ندامت کے 
موتی چمک رہے تھے ۔۔۔۔۔میرے نوجوان! اپنے رب کے ہو جاؤ کائنات تمہاری ہو جائے گی ۔

محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم



 محبت مصطفٰی ﷺ کی جب بات آتی ہے تو یہ بہت آسان لگتا ہے کہ بیان کردیا جائے.. کیونکہ ایک مومن کا گمان ِ حسن ِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یہی ہوتا ہے.... لیکن جب بیان کرنے لگیں تو معلوم ہوتا ہے ارے.... ہم 

جس اعلی و ارفع ذات مبارکہ کی محبت  بیان کرنا چاہتے ہیں وہ لفظوں میں، وہ جذبوں میں،  وہ صدیوں میں، بیان کی ہی نہیں جاسکتی..... یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس ذات ِ مقدس، نشان ِ ایمان،  شافع ِ مومن کی تعریف بیان کی جسکے 

کیونکہ محبت مصطفٰی ﷺ وہ محبت ہے 

جس کی وجہ سے  کائنات وجود میں لائی گی.. 

زمیں کی چہل، آسماں کی پہل، ستاروں کی چمک، سورج کی دھنک، سمندروں کا شور، دریاؤں کا موڑ، بارشوں کی کِن مِن، اشجار کی چِھن چِھن 

 یہ سب ربِّ باری تعالٰی نے پیدا فرمایا کیوں کس لئے؟؟؟؟؟ 

:فرمادیا حقّ نے پھر 



اے محبوب(ﷺ) اگر میں تمہیں پیدا نہ فرماتا تو یہ کائنات بھی پیدا نہ فرماتا  (حدیث قدسی) 

یا جب میں نے بیان کرنا چاہا محبت رسول ﷺ تو

 چودہ سو سال پہلے  وہ (حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ) جو اپنے بھائی کا گریبان سرِ بازار محبت ِ رسول ﷺ میں پکڑ لیا کرتے تھے..... اور للکارا کرتے تھے  

یا وہ محبت جو حضرت ابو طالب کو یہ کہنے پر مجبور کرتی تھی 

"خدا کی قسم تم لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند رکھ دو تب بھی میں اپنے بھتیجے کی  مخالفت نہ کروں گا

یا وہ محبت جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہلواتی تھی 

"گھر والو کے لیے الله اور اس کا رسول ﷺ کافی ہے"

یا وہ محبت جو صدیقِ اکبر یارِ  غار سانپ کا ڈنگ سہتے رہے اور نیند خراب نہ ہونے کے ڈر سے جنبش نہ کی..... تکلیف ہوئی پر زبان سے آہ نہ نکلی

یا وہ محبت جس کا فیصلہ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ تلوار سے سر قلم کر کہ کیا کرتے تھے اور فرمان ہوتا تھا

جو اللہ کے رسول ﷺ کے فیصلے سے راضی نہیں اس کا فیصلہ میرے نزدیک یہ ہے 

یا وہ محبت محبت ِ مصطفٰی ﷺ جو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو منبر پر قیام کرواکے بیان کرنے پر مجبور کردیتی 


وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشا

اور پھر یہ اشعار رکتے نہ تھے بلکہ، "قصیدہ ِ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا تھا 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ  جو حضرت انس کو سخت سرد رات میں بستر سے نکل کر حضور 
ﷺ کی خدمت بجا لانے پر خوشی خوشی تیار کرتی تھی

یا وہ محبت ِ رسول  ﷺ جوحضرت  حنظلة کو ایک رات کی دلہن چھوڑ کر حضور ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے پر مجبور کرتی تھی 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ  کو  شوقِ دیدار رسول ﷺمیلوں کا سفر کروایا کرتا تھا
یا وہ محبت جو شجر ہو یا منبر فراق ِ رسول میں آنسو بہایا کرتی تھی 

یا وہ محبت رسول ﷺ جو امام بخاری علیہ الرحمہ کو بچھو کا ڈنگ برداشت کرنے پر مجبور کرتی  درد کا احساس  کے احساس پر محبت غالب آجاتی.. اور جنبش نہ ہوتی  کہ درسِ حدیث میں مشغول ہوتے تھے 

یا وہ محبت رسول ﷺ جو حضرت امام بو صیری علیہ الرحمہ سے  قصیدہ بردہ شریف لکھواتی تھے اور پھر مبارک ہاتھوں سے بردہ(چادر) عطا فرمائیں 

یا وہ محبت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  جو ترکوں سے پر شوق، وارفتگی عشق سے تعمیر ِِ مکہ و مدینہ کرواتی اور لبوں پر صرف مسکان ہوتی.... کہ ان فضاؤں میں بھی عقیدت گھل جاتی صرف یہ سوچ کر ان مقامات پر ان جگہوں پر میرے نبی ﷺ نے کلام فرمایا، 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ جو کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سننے کے لیے میلوں کا سفر سہتے.... اور پھر بھی  پیشانی پر شکن نہیں آنکھوں میں تھکن نہیں ہوتی بلکہ وفورِِ شوق سے پیشانی اور آنکھیں جگمگارہی ہوتیں

یا وہ محبت..جو علامہ اقبال کے  قلم کو وجد میں لے آتا اور  قلم لکھتا جاتا......لکھتا جاتا

کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں 

یا وہ محبت  مصطفٰی ﷺ جسے دیکھ کر آج بھی بنی اسرائیل خوف کھاتے ہیں... 

یا وہ محبت مصطفٰی ﷺ جو عیسائیوں کو سر اٹھانے نہیں دیتی

یا وہ محبت مصطفٰی ﷺ جو ترکھانوں کے، لوہاروں کے، ملکوں کے بیٹوں کو ناموس رسالت ﷺ کا پہرے دار بنادیتی ہے 

یا وہ محبت مصطفی ﷺ جس کے بیدار ہونے سے  دشمنان ِ اسلام  خوفزدہ رہتے ہیں 

یہ تو چند ان طویل طویل احادیث و واقعات کو اختصار سے بیان کیا ہے وگرنہ 

محبت مصطفٰی ﷺ کی مثالوں سے تو اسلام کا دامن بھرا ہوا جو ناممکنِ  بیان ہے لیکن کیا ہم اس محبت مصطفٰی ﷺ کا حق ادا کررہے ہیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا؟؟؟؟ 

جس کے بارے میں خود رب تعالی نے فرمایا 

مَا کَانَ لِاَھلِ الْمدِینَتهِ وَ مَنْ حَوْلھُمْ مِّن الَْعرابِ أَنْ یَّتَخَلَّفوْا عَنْ رَسُوْلِ اللهِ وَ لَا یَرْ غَبُوا بأنفسهم عن نفسهِ

مدینہ والوں اور ان کے گرد دیہات والو کو لائق نہ تھا کہ رسول (ﷺ)  سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں (التوبہ ١٢٠)

یہی نہیں صاف اور صریح حکم ہے کہ 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا 

"تم میں کوئی مومن نہیں ہوگا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ و اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں  ( صحیح بخاری) 

یہاں اختصار کے پیشِ نظر ایک آیت و حدیث سے استفادہ کیا ہے پر سوال تو وہی ہے 

کیا ہم اس تقاضے کو پورا کرہے ہیں یا نہیں؟؟؟ 

سوچنا خود ہے...... آج ہم لوگوں کی ایمانی غیرت و حمیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن افسوس آج ہم اپنی زندگیوں میں اس قدرمصروف ہوگئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر افسوس اور چند لائنوں کے اظہار کے علاوہ کوئی عملی ثبوت نہیں رہا دینے کے لیے..... اور نہ ہی حکومت کے پاس وقت کہ مومنوں کی جان، مومنوں کے ایمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کے خلاف کچھ کریں.... یا تعلیم مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں حکومت و عوام ہو... 

صرف اتنا کہوں گی فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ 
محبت مصطفی ﷺ
کا عملی ثبوت دیتے ہوئے نظام مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو نافذکریں اپنی زندگیوں میں تعلیم مصطفی  ﷺ کو لازم کریں کہ کل روز ِ آخرت کو شفاعت مصطفیﷺ بھی حاصل ہو 

آخر میں صرف اتنا ہی 

میری تحریر میں الفاظ شایان شان ِ جان عالم  رحمت اللعالمین  ﷺنہیں

میں محبت بیان نہیں کرپائی...... مگر میری تحریر کی عظمت اس نامِ اعلی و بالا سے ہی 

 "محمدﷺ"

قرطاس کے چہرے پر اک لفظ لکھا میں نے
اس لفظ کی خوشبو۔۔۔ سے ہر چیز معطر ہے
اس لفظ کی کرنوں ۔۔۔۔ سے ہر چیز منور ہے
وہ لفظ مکمل ہے ۔۔۔۔ وہ لفظ محمد ﷺ ہے

صلی اللہ علیہ وسلم

ازقلم:      درصدف الایمان  

کلچر،ثقافت،رسم و رواج شریعت كی نظر میں


ثقافت،کلچر،رسم و رواج اگر اسلام مخالف نا ہوں تو جائز ہیں

:حدیث مبارک میں ہے کہ

حلال وہ ہے جسکو اللہ نے(قرآن و حدیث کے ذریعے) حلال فرمایا اور حرام وہ جسکو حرام قرار دیا،اور جس کے متعلق حلال یا حرام کا حکم نہیں وہ معاف ہے) جائز.و.مباح ہے.......ترمذی حدیث 1726)
لٰہذا کلچر ڈے کے معاملات،نظریات و مقاصد رسم و رواجات سب کو اسلامی اصولوں پے پرکھا جائے گا.. جو اسلام.مخالف  ہوگا مردود کہلائے گا ورنہ جائزہے

:آیات اور اس قسم کی احادیث کی بنیاد پر علماء کرام فرماتے ہیں کہ
رسم کا اعتبار جب تک کسی فساد عقیدہ پر مشتمل نہ ہو اصل رسم کے حکم میں رہتا ہے،اگر رسم محمود ہے محمود ہے، مذموم ہو مذموم ہے،مباح ہو مباح ہے
(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ119)

جس ثقافت جن رسم و رواج میں اسلامی اصولوں کی پاسداری نا ہو وہ ٹھیک نہیں، ایسے رسم و رواج ایسی ثقافت کہ محض اس لیے ادا کی جائے کہ یہ تو ہمارے آباء و اجداد کرتے آ رہے ہیں یہ تو ہماری قومی شناخت ہے، اسلام کی حدودوتعلیمات کا لحاظ نا رکھا جائے تو ایسی ثقافت ایسے رسم و رواج کی اسلام میں شدید مذمت ہے

:القرآن..ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ ان(عقائد و اعمال اور احکامات) کی طرف جو اللہ نے نازل کیے اور آؤ رسول کی(ہدایات و تعلیمات کی) طرف تو کہتے ہیں "ہمیں تو وہ(نظریات، وہ اعمال، وہ ثقافت، وہ رسم و رواج) کافی ہیں جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہےاگرچے ان کے آباء و اجداد کچھ علم نا رکھتے ہوں اور ہدایت والے نا ہوں(پھر بھی اپنے باپ دادا کے نظریات ثقافت اعمال کی پیروی کرنے کا کہتے ہیں)
(سورہ مائدہ آیت104)

یہ تو ہوئی رسم و رواج ثقافت کے متعلق اصولی بات....اب آئیے غور کریں کہ کیا موجودہ مروجہ کلچر ڈے منانے میں اسلامی حدود و تعلیمات کا لحاظ رکھا جاتا ہے.....؟؟
میڈیا میں ، خبروں میں جو سنتے ہیں پڑھتے ہیں اس کے مطابق تو اسلامی حدود و تعلیمات کا لحاظ نظر نہیں آتا بلکہ ناچ گانے ڈھول ڈھماکے بے پردگی وغیرہ مختلف غیراسلامی کام ہوتے ہیں... لٰہذا اس طرح کلچر ڈے منانا تو ہرگز جائز نہیں...جو کلچر جو رسم و رواج اسلام کے اصولوں کے مطابق نا ہوں انہیں رد کر دینا ضروری ہے، انہیں بدلنا ضروری ہے، انہیں اسلامی اصول و تعلیمات کے مطابق و موافق کرنا ضروری ہے۔

تحریر: علامہ عنایت اللہ حصیر

کلچر ڈے اگر شرعی تقاضوں کر مد نظر رکھتے ہوے منایا جاے تو شرعا اس میں حرج نہیں, لیکن ہم نے دیکھا کہ کچھ تہواروں میں ہندو بھی ہوتے ہیں جو اس تہوار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں, اور مل جل کر یہ تہوار مناتے ہیں, تو ایسا تہوار کہ جو فقط قومیت کے نام پر منایا جائے اور جس میں مزھب کی تمیز ختم ہوجائے ممنوع قرار پاے گا۔
(ادارہ)

معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار کون۔۔۔۔؟

معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار کون۔۔۔۔؟

تحریر: درصدف الایمان 



بیٹا تمہارا رشتہ تمہاری پھپو کے یہاں کرنے کا سوچا ہے، فیصل کی والدہ نے فیصل کو بتایا ٹھیک ہے امی تابعداری سے سر جھکالیا، دونوں طرف سے بات چیت ہوگئ، رشتہ طے پاگیا شادی دو سال بعد ہونا قرار پائی اس عرصے میں، فیصل جو کہ اچھی جاب تو کرتا تھا ہی پر گھر کرائے کا تھا، ارادہ امید تھی کہ شادی سے پہلے کرائے کے گھر سے جان چھوٹ جائے.... اور اپنی کوشش میں بفضل اللہ کامیاب بھی ہوگیا، سسرال سے شادی کے لیے دباؤ بڑھنے لگا ، بہرحال شادی کی تاریخ طے ہوگئ، ایک طرف گھربنانے کی مد میں لیا گیا قرض تھا دوسری طرف دور حاضر کے مطابق شادی دھوم دھام سے ہونے کا تقاضہ، فیصل چاہتا تھا خیریت و سادگی کے ساتھ سنت پر عمل ہوجائے،  فیصل کی یہ سوچ کہ سادگی سے نکاح ہوجائے بنا کچھ جہیز میں لیے.....سسرال کے تقاضوں ، آنے بہانوں سے یہ بتانا  بارات کیسی اور کتنی شاندار آئے، بری میں کیا کیا ہو، شادی و ولیمہ کے دلہن کے جوڑے کسی بوتیک سے ہی لیے جائیں ایک طرف ہوگئ ..... 

تب غور کیا..... جہیز تو یوں ہی بدنام ہے بری کے نام پر بھی اچھا خاصا سودا کیا جاتا ہے، لڑکیوں کو ہر دور میں مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے  اصل مظلوم تو بے چارہ لڑکا ہے کبھی یہ سوچا ہے  کہ 25، 30 ہزار کی سیلری لینے والا لڑکا، گھر بنائے، اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کرے، اپنی بہنوں کی شادیاں کرے، 
، اور بات میری وہی پرانی بہنیں بھی ایک سے لے کر آٹھ، نو تک ہوسکتی ہیں....... 
اپنے ارمان تھوڑے کم کریں، سوچ بنانے والے ہم ہی ہوتے ہیں، ایک ایسا شخص پھر ایسی سوچ کیوں  نہ رکھے کہ بیوی کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پلس بہنوں کے جہیز میں بھی مدد مل جائے... اس میں اس سے زیادہ ہمارا خود کا ہی قصور ہے،... اور یہ سوچ لڑکوں سے زیادہ لڑکوں کی ماؤں کی ہوتی ہے. نہ آج کی ماں بیٹی کو جہیز کم دینا چاہتی نہ بہو کے جہیز میں کمی چاہتی سب کی بات نہیں کروں تب بھی اسی فیصد معاملہ ایسا ہی ہے.... 
معاشرے میں شادی کو مشکل آج کے دور میں مشکل بنانے والے لڑکے لڑکی سے زیادہ والدین ہیں... 
وہ غریب ہے، نوکری پکی نہیں، گھر اپنا نہیں، اور کچھ نہیں تو  ہماری برادری کا نہیں اور ٹھیک ایسا ہی لڑکی کے معاملے میں، خوبصورت نہیں، لمبی نہیں، لمبی بہت ہے، ہنستی برے طریقے سے ہے، نخرے بہت ہیں، 

یہ سب خوبیاں خامیاں بتانے والے خود ماں باپ ہوتے ہیں، اس فرمان سے بے گانہ ہوکر کہ نکاح محبت پیدا کرتا ہے. اور نصیب رب العالمین بناتا ہے، تھوڑی سوچ بدلیں ورنہ چوتھی کلاس سے لیکر آٹھویں کلاس تک کے بچے Love letters لکھنے، میٹرک کے کے بچے خود کشی، کالج کے ڈیٹ پر جانے، اور یونیورسٹییز کے چور راستے ڈھونڈنے تو  لگ گئے ہیں... پھر معاشرے کی اس خرابی کا رونا، رونا بھی چھوڑدیں....
اللہ کرے میری بات دلوں میں اتر جائے آمین

درسِ حدیث شریف

موضوع : فضائل سیدالمرسلین


حدیث پاک


روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی فرمایا جبکہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۱ ؎ 


شرحِ حدیث


۱؎ یعنی جب کہ حضرت آدم کے جسم میں روح پھونکی نہ گئی تھی اس وقت ہم نبی تھے۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ہم علم الٰہی میں نبی تھے کہ اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ ہم نبی ہوں گے کیونکہ اللہ تعالٰی تو تمام انبیاءکرام کی نبوت کو جانتا تھا پھر اس میں حضور کی خصوصیت کیا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کی نبوت کا اعلان اس وقت ہوچکا تھا،فرشتے حضور پر کروڑوں سال سے درود پڑھ رہے تھے،تمام روحوں کے سامنے سارے نبیوں سے حضور پر ایمان لانے،آپ کی نصرت و مدد کرنے کا عہد و پیمان لیا گیا تھا"وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثٰقَ النَّبِیّٖنَ"الخ۔عرش اعظم،آسمان،جنت کے محلوں،دریچوں میں،وہاں کے درختوں کے پتوں پر،حوروں کی پتلیوں میں،فرشتوں کی آنکھوں میں،غلمان کے سینوں پر، طوبیٰ کے غنچہ و گل میں حضور انور کا نام لکھ دیا گیا تھا،ان شاءالله ہم لوگ بھی وہاں جاکر یہ ساری بہار اپنی آنکھوں دیکھیں گے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ عالم ارواح میں حضور سارے نبیوں کے نبی تھے،آپ ان کی روحوں کو تعلیم و تربیت دیتے تھے،سارے نبی حضور کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرکے دنیا میں تشریف لائے اور حضور سے سیکھے ہوئے علوم مخلوق کو سکھائے۔(اشعۃ اللمعات) اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے۔چنانچہ ابن سعد نے اور ابو نعیم نے حلیہ میں،طبرانی نے کبیر میں حضرت ابن عباس سے یوں روایت کی کنت نبیا و آدم بین الروح والجسد،امام احمد نے اور بخاری نے اپنی تاریخ میں اور حاکم نے اور ابونعیم نے دلائل میں حضرت ابوہریرہ سے مرفوعًا روایت کی کنت اول النبی فی الخَلق واخرھم فی البعث ہم پیدائش میں تمام نبیوں سے پہلے ہیں بعثت میں سب کے بعد،دانہ درخت سے پہلے زمین میں جاتا ہے اور آخر میں وہ ہی دانہ نمودار ہوتا ہے،ہم نے عرض کیا ؎باغ رسالت کی ہیں جڑ اور ہیں بہار آخری مبداء جو اس گلشن کے تھے وہ منتہی یہ ہی تو ہیںخیال رہے کہ جسمانی نبوت کے لیے شرط ہے کہ نبی انسان ہوں اور انسانی سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوجاتا ہے، روحانی نبوت کے لیے یہ شرط نہیں۔لہذا اس فرمان عالی پر یہ اعتراض نہیں کہ نبی انسان ہونے چاہئیں،اس وقت حضور صفت انسانیت سے موصوف نہ تھے،یا یوں کہو کہ انسانیت کے لیے اولاد آدم ہونا ضروری حضرت بی بی حوا انسان ہیں مگر اولاد آدم نہیں،یوں ہی جو مخلوق جنت بھرنے کے لیے پیدا کی جاوے گی وہ انسان ہوگی مگر اولاد آدم نہ ہوگی لہذا اس وقت بھی حضور انسانیت کی صفت سے موصوف تھے۔
مرآۃالمناجیح

درسِ حدیث شریف

موضوع : فضائل سیدالمرسلین

حدیث پاک

روایت ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے شاید انہوں نے کچھ سنا تھا ۱؎ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے فرمایا میں کون ہوں۲؎ لوگوں نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں،فرمایا میں محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ہوں اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے اچھوں میں سے بنایا۳؎ پھر ان اچھوں کی دو جماعتیں کیں تو مجھے ان کے اچھے فرقہ میں سے بنایا۴؎ پھر ان اچھوں کے کئی قبیلے کیے تو مجھے اچھے قبیلے میں بنایا۵؎ پھر ان اچھوں کے گھر بنائے تو مجھے اچھے گھر والوں میں بنایا ۶؎ تو میں ان سب میں اچھی ذات والا۷؎ اور اچھے گھر والا ہوں۸؎ 
(ترمزی شریف)

شرح


۱؎ بعض بدباطن منافقوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب و حسب شریف پر کچھ طعنہ کیا تھا جیسے آج عیسائی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جناب ہاجرہ کی نسل سے ہیں اور حضرت ہاجرہ بی بی سارہ یا حضرت ابراہیم کی لونڈی تھیں،اس کی تحقیق ہم پہلے کرچکے ہیں۔حضرت عباس کو یہ طعن سن کر بہت صدمہ ہوا اور حضور انور سے اس کی شکایت کی۔
۲؎ حضور انور نے اس کا جواب صرف حضرت عباس کو نہ بتایا بلکہ مجمع میں کھڑے ہوکر سب کو سنایا تاکہ مسلمان آئندہ ایسے اعتراضات کے جوابات دے سکیں۔اپنے متعلق لوگوں سے سوال فرمایا تاکہ لوگ جواب دیں اور ان کے دل میں یہ بات اتر جائے۔
۳؎ جناب عبد المطلب سارے عرب میں عظمت و عزت و شرافت میں مشہورومعروف تھے۔غالبًا معترضین نے کہا تھا کہ نبوت ہم کو ملنی چاہیے تھی تب حضور نے یہ فرمایا۔عرب تمام جہان سے افضل ہے حضور انور کو عرب میں پیدا فرمایا،یا یہ مطلب ہے کہ ساری مخلوق میں انسان افضل،مجھے انسانوں میں سے بنایا انسانیت کو حضور سے فخر ہوا۔۴؎ یعنی انسان دو قسم کے ہیں: عرب و عجم،ان میں عرب افضل ہیں مجھے عرب میں پیدا فرمایا۔
۵؎ یعنی عرب کے بہت سے قبیلے بنائے سب سے بہتر قریش ہیں مجھے قریش میں پیدا فرمایا۔۶؎ یعنی قریش میں بہت سے خاندان و بطن بنائے سب خاندانوں میں بنی ہاشم افضل ہیں مجھے بنی ہاشم سے پیدا فرمایا۔
۷؎ یعنی اللہ تعالٰی نے مجھے ذاتی شرافت بھی بخشی اور خارجی و بیرونی شرافتیں بھی،بنی ہاشم افضل ہیں مجھے بنی ہاشم سے پیدا فرمایا ہے"لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ"بعض قرأت میں انفسکم میں ف کا فتحہ بمعنی نفیس ترین بہترین،یعنی تم میں وہ رسول تشریف لائے جو تم سب میں سب سے زیادہ نفیس اور شریف ہیں۔
۸؎ خیال رہے کہ عرب میں چھ طبقات ہوتے ہیں: شعب،قبیلہ،عمارہ،بطن،فخذ،فصیلہ،حضور ان چھ طبقات میں سے بہترین میں تشریف لائے۔خیال رہے کہ ہمیشہ انبیاءکرام اعلٰی نسب اونچے خاندان میں تشریف لاتے رہے جیساکہ ہرقل والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔بہترین شکل،بہترین آواز،بہترین اخلاق سے موصوف ہوتے ہیں،کشش والی ہر چیز اللہ انہیں بخشتا ہے۔یہ بھی خیال رہے کہ نبوت محض اللہ تعالٰی کے فضل سے ملتی ہے اس میں کسب کو یا کسی اور شرف کو دخل نہیں،ہاں جسے رب نے نبوت دی اسے ہر طرح اشرف بنایا،رب فرماتاہے:"اَللہُ اَعْلَمُ حَیۡثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ"اور فرماتاہے:"وَاللہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ"حضور انور تو نبیوں کے سردار ہیں بعد خدا تمام مخلوق سے بہتر آپ ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔
مرآۃالمناجیح

لبرل ازم کا ہولناک انجام

لبرل ازم کا ہولناک انجام

تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

شاہ زیب عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا  ۔
گرل فرینڈ سے شادی نہیں کرنی اور جس سے شادی کرنی ہے اسے گرل فرینڈ نہیں بنانا ۔لڑکے عموما یہ ہی سوچتے ہیں ۔
شاہ زیب سے کالج ہی کے زمانے میں ہی مجھے محبت ہو گئی تھی  ۔۔۔۔ اس نے مجھ ہی کو گرل فرینڈ بنایا اور مجھ ہی سے شادی بھی کی ۔۔۔۔میں بھی شاہ زیب کی طرح براڈ مائینڈ ،روشن خیال اور لبرل تھی ۔۔۔۔۔دقیانیوسیت اور مولویوں سے مجھے اللہ واسطے بیر تھا ۔۔۔
ہم نے جو خواب دیکھے انہیں پانا اس زمانے میں مشکل ہی ناممکن بھی  تھا اور آج تو شاید نا پید ہو چکے مگر شاہ زیب  جتنا اچھا شادی سے پہلے تھا شادی کے بعد بھی اتنا اچھا ہی ثابت ہوا ۔۔۔۔۔وہ مجھے ہر جگہ گھمانے لے جاتا اپنے دوستوں سے بھی ملواتا ۔۔۔۔میں نے کہا نا ! ہم روشن خیال ، براڈ مائنڈ اور لبرل تھے ۔۔۔۔
میری زندگی کو برباد اسی روشن خیالی ، براڈ مائنڈ اور لبرل سوچ  نے کیا۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب میں شاہ زیب کے نکاح میں آئی تھی ۔۔۔۔ہر رات شبِ براءت اور ہر دن یوم ِعید تھا ایک دن شاہ زیب مجھے اپنے باس سے ملوانے اپنے آفس لے گئے   گر چہ وہ مجھ سے میری شادی میں بھی مل چکے تھے ۔شاہ زیب کے باس مجھ سے بہت اچھے انداز میں ملے میری خوبصورتی اور میک اپ نے انہیں گھائل کر دیا تھا ۔۔۔۔آپ کی خوبصورتی سے کوئی شخص گھائل ہو کر آپ کے قدموں میں  گر جائے ۔۔۔۔۔
شاہ زیب کے باس نے کہا :شاہ زیب !میری سیکریٹری کی پوسٹ تو خالی ہے میم اگر راضی ہو ں تو انہی کو رکھ لیا جائے ۔۔۔ 
لیکن میں نے معذرت کر لی ۔
شاہ زیب نے انہیں گھر آنے کی بھی دعوت دی  بلکہ یوں کہیے گھر پر  کھانے کی دعوت دے ڈالی  جو شاہ زیب کے باس نے بخوشی و رغبت قبول کر لی ۔
شاہ زیب کے باس    جب گھر آئے  تو ان کی نگاہوں میں موجود پیغام مجھے  سمجھ آرہا تھا عورت کو اللہ تعالیٰ نے یہ کمال کی حس دی ہے وہ مرد کی  خبیث نگاہوں کو با آسانی سمجھ لیتی ہے ۔۔۔۔
پھر رفتہ رفتہ انہوں نے مجھ سے مراسم بڑھانے کی کوشش کی ایک دن صاف صاف لفظوں میں کہا : شاہ زیب کی ترقی ،تنخواہ میں اضافہ ، گاڑی اور فلیٹ لینے میں اگر میں ان کی مدد کروں تو  اگلے دن ہی یہ سب چیزیں شاہ زیب کے پاس ہوں گی ۔۔۔۔
لیکن یہ میں کیسے کر سکتی تھی ۔۔۔مجھے اس دن اس شخص ے بہت گھن آئی اور میں صاف انکار کرکے گھر آگئی ۔
ایک ہفتہ ساتھ خیریت کے گزرا اور اس کے بعد شاہ زیب کو غبن کے الزم میں آفس سے نہ صرف نکال دیا گیا بلکہ اس کی ایف آئی آر بھی کٹوا دی گئی ۔۔۔۔مقدمہ بازی آپ جانتے ہیں نا ! غریبوں کے بس کی بات کہاں ؟ آہستہ آہستہ زیور بکا چیزیں بکیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہو ا آخر میں باس نے پھر آفر کی اور  شاہ زیب کی امی شاید ممتا سے مجبور تھیں کہنے لگیں اپنے شوہر کو بچانے کے لیے یہ قربانی دے دو ۔۔۔۔۔۔
میں سوچنے لگی کیا  شوہروں کی ترقی کے دروازے قیمتِ عصمت پر کھلیں گے ؟
لبرل ازم کی  اس غلاظت نے مجھے یہ کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔شاہ زیب گھر آگئے لیکن شاید میں دربدر ہو گئی ۔۔۔۔باس کی فرمائشوں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ان کے دوستوں تک طویل ہو گیا اور جب شاہ زیب کو یہ ساری خبر ہوئی تو شاہ زیب نے مجھے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔قصور وار کون ؟
شاہ زیب ؟میں ؟یا پھر باس 
آج جب  بہت دنوں کے بعد قرآن کی تلاوت کی تو مجھے اپنے سوال کا جواب مل   گیا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  احزاب  59
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں  اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
 میری پیاری بہنو!
میں نے اپنے رب کی بات کو ٹال دیا تھا میں ستائی گئی اور اس حد تک ستائی گئی کہ زندگی ایک روگ بن چکی ہے۔۔۔۔۔تم ایسا مت کرنا ،یہ پردہ تمہاری حفاظت کا ضامن ہے ۔۔۔۔جب حفاظت کی شیٹ یا جیکٹ آپ خود اتار کر پھینک دیں گی تو پھر زخم بھی لگے گا اور شاید موت بھی ہو جائے ۔۔۔۔۔لبرل ازم اور روشن خیالی کی بیماری بہت عام ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔
خدارا  ! اسے مولوی  کا مسئلہ نہ سمجھیے یہ آپ خواتین  کی حفاظت پر مبنی اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کا نظام ہے ۔۔۔۔۔