اندھیروں کے مسافر ۔۔۔۔۔تحریر محمد اسمٰعیل بدایونی
یار! یہ مولوی بھی نا ! بس عجیب ہی مخلوق ہے اس کو نہ جانے آزادی کیوں پسند نہیں آتی یہ آسمانی حوروں کو پسند کرے تو سبحان اللہ اور ہم زمینی حوروں کو پسند کریں تو استغفر اللہ ۔۔۔۔ بھائی مولوی صاحب ! ہمیں ویلنٹائین منانے دو ،تیمورنے اپنے دوست جہانگیر سےکہا ۔ تیمور ! جس آزادی کو تم آزادی سمجھ رہے ہو وہ آزادی نہیں جہالت ہے ،حماقت ہے تم نہ جانے کن لوگوں کی صحبت کا شکار ہو گئےہو اللہ کا واسطہ انسان بنو ،جانور نہ بنو، یہ جو تمہاری دیسی لبرلز والی حرکتیں ہیں نا ! اس سے معاشرہ ایک ایسی سوسائیٹی میں تبدیل ہوجائےگاجہاں تم اپنی بیٹی اور بہن کی پہچان کھو بیٹھو گے تمہارے نزدیک اسلام نہ سہی ،عقل سے ہی رہنمائی لے لو وہ بھی اس کی حمایت نہیں کرتی ہاہاہاہاہاہاہاہہا۔۔۔۔۔۔۔۔ارے عقل اس کی تائید کرتی ہے نہیں عقل نہیں شہوت اس کی تائید کرتی ہے اچھا بھئی مولوی ! تجھ سے میں نہیں جیت سکتا ،میں نے ہار مانی بس ! خوش لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے یہ شعر سُنا کر جہانگیر وہاں سے واپس لوٹ گیا تیمور ۱۴ فروری کو ویلنٹائین ڈے منانے کے لیے اس دفعہ اپنے چند دیسی لبرلز دوستوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے کا پروگرام بنا بیٹھا تھا ہاں بھئی دوستو ! تو کیا پرو گرام ہے یار پرو گرام کیا ہے کل ہم نے ویلنٹائین ڈے منانا ہے اپنی اور اپنی گرل فینڈز کے ساتھ انجوئے کرنا ہے۔ نہیں یار اس دفعہ ایک اور ایکٹیویٹی کرنی ہے ہم پھول لے کر سڑکوں پر نکلیں گے اور پھر جس حور کو دل چاہے دیں گے ہاہاہاہہا۔۔۔ اگلے دن دیسی لبرلز ! سی ویو پر موجود تھے اور جو لڑکی نظر آتی اس کے پاس جاتے ہیپی ویلنٹائین ڈے کہتے اور پھول پیش کرتے اکثر یت نے تو یہ پھول ان کے منہ پر مار دئیے کچھ ایک نے تو سینڈلوں کے ساتھ تواضع کی ان دیسی لبرلز کی اوردیسی لبرلز کا یہ گروپ قہقہے لگاتا کسی اور شریف زادی کی جانب بڑھ جاتا ۔ اوئے وہ دیکھو ! تیمور کےایک لبرل دوست نے ایک لڑکی جانب اشارہ کیا کیا چیز ہے یار ! ایک نے تبصرہ کیا ختم ہے ختم ! کیا حسن ہے یار ! دوسرے نے تبصرہ کیا یار تیمور دیکھ تو سہی کیا مال آیا ہے آج سی ویو پر اس سے پہلے تو یہ حور زمین پر دکھی ہی نہیں ہمیں تیمور نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے کوئی اور نہیں اس کی بہن کھڑی تھی اس کے دوست کسی اور کے بارے میں نہیں اس کی بہن کے بارے میں تبصرہ کررہے تھے ۔ یار بس ایک رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور نے زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اپنےلبرل دوست کے ابے !میری بہن ہے وہ ۔۔۔۔۔تیمور ایک دم زمین پر بیٹھ گیا تو کیا ہو گیا روشن خیال بن میرے دوست !یہ کیا مومنوں والی غیرت اپنا لی تونے کیا تیری بہن کادل نہیں ہے کیا وہ نہیں چاہتی کسی کے ساتھ گھومے اور ہم ہیں نا تیری بہن کو خوش کرنے کے لیے اور اگلے ہی لمحے تیمور اور شیراز آپس میں گتھم گتھا تھے سب چھوڑ چھاڑ باقی دوستوں نے ان کو چھڑانے کی کوشش کی اورپھر اگلے ہی لمحے دو فائر ہوئے شیراز کی لاش سے نکلتا ہوا خون ساحل کی ریت میں جذب ہونے لگا سائرن کی آوز گونجی رہی تھی تیمور کے ہاتھوں کو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور وہ موبائل میں بیٹھا ہو اتھا عدالت میں تیمور کی ملاقات جب جہانگیر سے ہوئی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تیمور کو عمر قید ہو چکی تھی اس کا کیرئیر اس کی زندگی سب کچھ تباہ ہو گیا تھا تم نے درست کہا تھا یہ روشن خیالی نہیں حماقت ہے تم نے درست کہا تھا اس کی تائید عقل بھی نہیں کرتی اس کی تائید تو بس شہوت کرتی ہے تم نے اس دن درست شعر سنایا تھا
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جہانگیر !میرے تم سےیہ درخواست ہے تم کسی اور تیمور کو یہاں تک نہ پہنچنے دینا ۔ ہم تیمور کو تو وہاں سے واپس نہیں لاسکے آؤ !ہم کسی اور تیمور کو وہاں تک نہ جانے دیں جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہوجائے ۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جہانگیر !میرے تم سےیہ درخواست ہے تم کسی اور تیمور کو یہاں تک نہ پہنچنے دینا ۔ ہم تیمور کو تو وہاں سے واپس نہیں لاسکے آؤ !ہم کسی اور تیمور کو وہاں تک نہ جانے دیں جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہوجائے ۔
اگر پوسٹ اچھی لگی تو شئیر لازماً کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں