ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے | ازقلم : فرمان رضا رضوی

تو زندہ ہے والله تو زندہ ہے والله 
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے 

حالیہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کچھ اس مضمون پر لکھنا ضروری سمجھا کہ وہ عقیدہ جو قرآن پاک نے ہمیں دیا جو صحابہ اکرام علیھم الرضوان
کا عقیدہ تھا اسے امت مسلمہ سے ختم کیا جا رہا ہے اور ستم بالاے ستم یہ کہ اسے فرقہ واریت کہ نام دیا جا رہا ہے لیجیے کچھ قرآن و حدیث سے امت مسلمہ کا جو عقیدہ رہا ہے اور ابھی بھی جو سواد اعظم کا عقیدہ ہے اس پے قرآن و حدیث کے شواہد پڑھیے 

رب العزت اپنی لا ریب کتاب میں فرماتا ہے 
و لا تقولوالمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاءو لکن لا تشعرون۔ ۔
  پ 2 سورہ البقرہ آیت 154
اور جو خدا کی راہ میں مارے جایں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔
جب شہید زندہ ہیں تو نبی تو ان سے کئی درجے بلند درجے والے ہیں وو زندہ کیوں نہیں ۔؟؟
اور ویسے بھی حضور الیہ السلام شہید ہیں اس پے بخاری شریف کی حدیث پیش خدمت ہے 
جلد 6 صفحہ 9
اماں عایشہ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام اپنے مرض وفات میں فرمایا کرتے تھے اے عایشہ ۔۔
میں نے خیبر میں جو زہر آلود کھانا کھایا تھا اس کی تکلیف ہمیشہ محسوس کرتا رہا ہوں ۔اور اس وقت تک محسوس کر رہا ہوں کہ اس زہر سے میری رگ جان منقطع ہو رہی ہے ۔۔
اس سے ثابت ہوا کہ آقا کریم بھی شہید ہیں ۔۔
اور ہمارے آقا کریم علیہ السلام زندہ بھی ہیں اور ایسے زندہ کہ رزق بھی دے جاتے ہیں اور اپنی زندگی کی حیات کی طرح زندہ ہیں اور اللّه کی عطا سے جہاں چاہیں آین جہاں چاہیں جایں ۔۔
ایک اور آیت میں اللّه کریم فرماتا ہے کہ 
لا تحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون۔ ۔
کہ جو اللہ کی راہ میں مارے گے انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں ۔
 پ4 سورہ ال عمران ایت 169

اس کے تحت مفسر کبیر علامہ جلالدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں 
للہ جب شہداء زندہ ہیں تو انبیاء بدرجہ اولی زندہ ہیں کہ وہ ان میں مرتبہ میں بڑھے ہیں بلکہ کوئی نبی ایسا نہیں جس کے وصف نبوت میں شہادت نہ جمع ہوئی ھو پس انبیاء بھی اس ایت کے تحت داخل ہون گے ۔۔
  الحاوی للفتاوی ج2 ص1 80

اور نبی ایسے زندہ ہیں کہ مٹی پر حرام قرار دیا گیا کہ ان کے اجسام کو کھاے ۔۔
لیجیے اس پے بھی حضور کا فرمان پڑھیے 
بے شک اللّه نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانے لو حرام کر دیا ہے پس اللہ کا نبی زندہ ہے رزق دیا جاتا ہے۔ ۔۔ ابن ماجہ ج1 ص 524

اور مسلم شریف کی روایت بھی پڑھیے اور اپنے عقیدے پر ناز کیجیے 
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں معراج کی رات میں قبر موسی کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ۔

لیجیے قارعین قران و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ نبی زندہ بھی ہیں اور رزق بھی دے جاتے ہیں اور اچھا کیسی بات ہے کہ ایک وصف(زندہ ہونا ) امتی (شہید ) کے لیے تو مانیں مگر وہی وصف نبی کے لیے نا ماننا یہ تو سراسر نا انصافی ہے ۔
اللّه پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمایے ۔۔
از فرمان رضا رضوی




Like us My Page For More Updates

کیا خواتین کا گھر میں اعتکاف کرنا درست ہے؟؟؟ | نادر رضا حسنی نوری


سوال : کیا عورت کا اعتکاف گھر میں نہیں ہوسکتا?
جواب : خواتین کے اعتکاف کے حوالے سے اہلسنت کا موقف یہ ہے کہ عورت کا مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنا درست ہے, جبکہ وہاں مکمل اہتمام ہو, اور گھر میں بھی اعتکاف درست ہے..

پہلے ہم بات کرتے ہیں عورت کے مسجد جانے پر...
حدیث میں فرمایا:

 لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ.

(مؤطا امام مالک,کتاب قبلہ. سنن ابی داؤد,کتاب الصلوة)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کے دور مبارک میں خواتین مسجد میں جاتی تھی, اور اس دور میں بھی علماء فرماتے ہیں کہ عیدین, نماز تراویح, اعتکاف, اور درس و تدریس کے لیے خواتین کا مسجد جانا درست ہے جبکہ پردے کا لحاظ رکھا جاے.

اب یہ دیکھتے ہیں کہ گھروں کو مسجد بنانے کے بارے میں ہمیں اسلام کیا حکم دیتا ہے?

حدیث میں ہے: 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ گھروں میں (نماز کی جگہ) مسجد بنای جاے اور ان کو پاک صاف رکھا جاے اور خشبوں لگای جاے.

(سنن ابی داؤد,کتاب الصلوة)

یہ حکم مرد و عورت دونوں کو محیط ہے.

یہاں تک کی تحریر سے یہ بات واضح ہو گئ کہ عورت کا مسجد میں جانا بھی درست ہے اور گھر میں تمام عبادات بجا لانا بھی جائز ہے, اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے لیے اپنی تمام عبادات کو بجالانے کے لیے مسجد بہتر ہے یا گھر بہتر ہے ?

اس پورے مسئلے کو اس حدیث پاک میں حل فرمادیا گیا ہے.

نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا:

"لا تمنعوا نسأکم المساجد و بیوتھن خیر لھن".

ترجمہ: اپنی عورتوں کو مساجد سے نہ روکو اور ان عورتوں کے لیے ان کے گھر بہتر ہیں.

(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة)

سنن ابی داؤد کی ہم جو جو احادیث بیان کرریے ہیں, ان پر امام ابو داؤد رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائ ہے, اور آپ خود فرماتے ہیں کہ جس حدیث پر میں خاموشی اختیار کروں وہ قابل استدلال ہے.

اس حدیث سے مسئلہ سورج سے زیادہ واضح ہوگیا کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت ہے, وہ مسجد میں, نماز عید, نماز تراویح پڑھ سکتی ہے,  اعتکاف کر سکتی ہے, مگر فرمایا و بیوتھن خیر لھن ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں.
تو ثابت ہوا کہ عورت کا گھر میں اعتکاف میں بیٹھنا مسجد میں بیٹھنے سے افضل ہے..

اب مسئلہ رہ جاتا ہے پانچ وقت کی نماز کا کہ آیا خواتین پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کریں یا گھر میں?

اول تو یہ حدیث تمام عبادات کو محیط ہے کی ہر عبادت عورت کی گھر میں بہتر ہے.
اس پر ہم ایک اور حدیث دیتے ہیں.

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا : 
عورت کا گھر میں نماز پڑھنا حجرے (حویلی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے, اور گھر کے اندر چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے.

(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا شریعت کو زیادہ محبوب و مطلوب ہے.

شریعت کی اس پسندیدگی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے سمجھ لیا تھا اسی لیے فرمایا:

" لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المساجد کما منعہ نساء بنی اسرائیل".

(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة).

ترجمہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی اس حالت کو پاتے جو انھوں نے اب پیدا کیں ہیں تو ضرور انھیں منع فرمادیتے. 

امام ابو داؤد نے یہاں اس نام سے باب باندھا ہے, باب تشدید فی ذالک, اس سلسلے میں سخت حکم...
اور مسجد جانے کی روایات بیان فرمانے کے بعد امام ابو داؤد اب سخت حکم بیان فرمارہے ہیں, گویا آپ امام ابو داؤد اس طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ پہلے اجازت تھی بعد میں فتنے کے خوف سے سخت حکم لگایا گیا.
حیرت ہے لوگ ٹی وی پر سخت حکم چھپا جاتے ہیں.
لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول ہے, مگر ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک کو  ہم زیادہ سمجھ سکتے ہیں یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بہتر سمجھ سکتی ہیں?

اماں حضور مزاج رسالت سے واقف تھی اسی لیے تو تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حضور علیہ السلام اگر اس حالت کو پاتے جو عورتوں نے اب پیدا کی ہے تو ضرور ان کو مسجد سے روکتے,
اماں حضور یہاں صیغہ " منع"بھی فرماسکتی تھی مگر کیوں کہ آپ کو مزاج رسالت کی کامل معرفت حاصل تھی اس لیے فرمایا لمنعھن آپ نے لام تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حضور علیہ السلام ضرور منع فرماتے...
اب یہاں یہ کہنا کہ روک دیتے مگر حضور نے روکا تو نہیں, ہم کہتے ہیں پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ بیوتھن خیر لھن? وہ دور تو خود حضور علیہ الصلوة و السلام کا دور تھا اس وقت کسی فتنے کا امکان نہ تھا, لیکن حضور جانتے تھے کہ آنے والے دور میں عورتوں کی کیا حالت ہوگی اسی لیے فرمایا کہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں...

الترغیب والترہیب کی حدیث ہے کہ حضرت ام حمید خدمت اقدس میں حاضر ہوی عرض کی کہ آپ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا چاہتی ہوں.
فرمایا 
تیرا گھر کی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے, اور صحن میں نماز پڑھنا اپنے دار سے افضل ہے, دار میں پڑھنا محلے کی مسجد سے افضل ہے, اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (مسجد نبوی) سے افضل ہے. اس ارشاد کو سن کر ام حمید نے گھر کے اندورنی حصے میں نماز کی جگہ بنای اور آخر وقت تک وہیں نماز پڑھتی رہیں.
غور کیجیے مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے مگر حضور علیہ السلام نے صحابیہ کو منع فرما دیا, آج کی عورت کس گنتی میں ہے.
کیوں منع فرمایا ?
اس لیے کہ آپ معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے. 
دس منٹس کی نماز کے لیے مسجد جانا اگر باعث فتنہ ہوسکتا ہے تو دس دن کے اعتکاف میں یہ خدشہ مزید بڑھ جاتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ بعد کے علماء نے جب معاشرے کے بگاڑ کو دیکھا تو منع فرمادیا.

چنانچہ امام محمد رضی اللہ عنہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا عورتوں کو نماز عید کے لیے جانا واجب ہے?
امام صاحب نے فرمایا کہ پہلے انھیں اس کی اجازت تھی, لیکن اب میں اس کو ناپسند کرتا ہوں.
(المبسوط) 

غور کیجیے یہ زمانہ رسالت کے بعد کے دور کی بات ہے, نا کہ 2018 کی, سال بعد آنے والی نماز عید میں عورتوں کا اجتماع کو امام صاحب نے نا پسند فرمایا.
 اس دور میں عورتوں میں جس قدر بے حیای عام ہے یہ ہر خاص و عام پر ظاہر ہے, اس کے باوجود خواتین میں دینی زوق باقی رکھنے کے لیے علماء نے فرمایا کہ عیدین, نماز تراویح، اعتکاف اور درس و تدریس کے لیے مسجد یا مدرسے جاسکتی ہیں, اور پانچ وقت کی نماز گھر میں بہتر ہے....
یہاں یہ کہنا کہ گھر میں عورت کا اعتکاف ہوگا ہی نہیں علم حدیث اور مزاج شریعت سے محض ناواقفی ہے...
آخر میں ہم ان سے کہتے ہیں جو خود کو قرآن و حدیث کا فولوورز بتاتے ہیں, کہ آپ یہ تو عوام کو بتاتے ہو کہ نبی نے فرمایا لایمنعوا نساءکم مساجد, مگر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے نبی نے یہ بھی فرمایا ہے و بیوتھن خیر لھن. عورتوں کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں....
یقینا یہ اپنی پسند کے احکام بتانا اور مزاج شریعت کو چھپانا ہے...

تحریر: نادر رضا حسنی نوری

Like us My Page For More Updates

مجرب عمل برائے رشتہ | از : علامہ راحیل ثانوی



ماہ رمضان المبارک کی 12تاریخ کی شب یعنی بارویں روزے کی شب دن گیارہ کا بعد عشاء12رکعات نماز نفل دودوکرکے ادا کریں ہررکعت میں 12بار سورة الاخلاص پڑھیں بعد نوافل فارغ ہونے کہ 100بار درود وسلام کی ایک تسبیح پڑھیں اور پھر رب تعالیٰ سے اس عمل کے وسیلہ سے اپنے رشتہ کی دعا کریں۔مستورات کے عذرِ شرعی میں انکی والدہ یا کوئی اور جس کے ماتحت ہوں وہ یہ عمال ادا کرسکتا ہے۔

ان شاءاللہ اگلے رمضان المبارک کی آمد سے قبل ایک سال کے اندر اندر آپ کا اچھا مناسب رشتہ آجائے گا ، احقر کے علم میں جس نے یہ عمل کیا اس کو مطلوب حاصل ہوگیا اللہ تعالیٰ ہمارے مشائخ کے توسل سے آپ پر اپنا فضل فرمائے گا ،مذکوہ عمل رشتہ کے حاجت مند مرد وظن کو ضرور بتا کر خدمت خلق میں حصہ لیں۔




Like us My Page For More Updates

اصل عقیدہ حیات النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم | احمد سعید کاظمی

سلام ہے تم پر | حالات کی ترجمانی کرتی بہترین پوسٹ

Like us My Page For More Updates

 ہر سال رمضان شروع ہوتا ہے خواتین کی عظمت، کچن کی گرمی، چولہے کی تپش، گھنٹوں میں بننے والی افطاری، اور پھر افطار تیار کرنے والی محترم خواتین کے لیے کیا جانے والا ا#عزازی _سلام سب کچھ قابل قدر ہے انکار بھی نہیں، اور انکار کیا بھی نہیں جاسکتا بے شک گرمی میں کچن میں جانا بھی ایک معرکہ سر انجام دینا مگر صرف تصویر کا ایک رخ کیوں؟؟؟؟ خواتین کچن میں چولہے کے آگے کھڑے ہوکر کام کرتی ہیں کتنی دیر؟ دو گھنٹے، تین گھنٹے؟ زیادہ سے زیادہ 4 گھنٹے لیکن وہ مرد جو گھر سے باہر جاتا ہے، روزے کی حالت میں کام کرتا ہے مانا کہ باہر چولہے کی آگ نہیں ہوتی مگر مینہ برساتا بادل بھی نہیں ہوتا، چبھنے والی دھوپ اور آگ برساتا سورج کا گولہ ہوتا ہے اور اس باہر جاکر کام کرنے والے مرد کے کام کا دورانیہ کم سے کم آٹھ گھنٹے تو ہوتا ہی ہے اور پھر یہ آٹھ گھنٹے بڑھتے ہی ہیں پیشے کے حساب سے، عہدے کے حساب سے وہ مرد جو سخت دھوپ میں باہر جاتا ہے کام کرتا ہے اس لیے کہ وہ اپنے گھر والو کو بیوی بچوں کو وہ تمام نعمتیں مہیا کردے وہ نعمتیں جو بیوی باورچی خانے میں تیار کرتی ہے مگر پس پردہ ان نعمتوں کا محرک کوئی اور ہی ہوتا ہے جو کئی گھنٹوں بعد ان نعمتوں کا حصول ممکن بنا پاتا ہے اور افسوس کے ساتھ کئی جگہوں پر بارہ بارہ گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا مگر وہ پھر اسی گرمی بلکہ شدید گرمی میں باہر جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے، اور اگر پرانی بات کروں کہ اکثر گھروں میں خواتین کئی ہوتی ہیں،جیسے ساس بہو، ماں بیٹی، بہنیں بیوی، تو سحر و افطار میں کام تقسیم ہوجاتا ہے درمیان میں وقفے بھی لے لیے جاتے ہیں، مصالحہ جات رمضان سے قبل ہی پیس کر صاف کرکے، چھان پھٹک کے رکھ لیے جاتے ہیں، اور اس کے برعکس اگر گھر میں مرد کئ کئ بھی ہوں تب بھی نہ صرف اپنے کام کا دورانیہ انھیں مکمل کرنا ہوتا ہے بلکہ مکمل کام بھی کرنا ہوتا ہے اور گھر میں کئی کئی خواتین نہ ہوں اصرف بیوی ہی ہو تو سحر و افطار اکثر گھروں میں باہر سے ہی آتی ہے، کام کرنے والی ماسی بھی آتی ہے اور نہیں بھی آتی تو گھر کا ہی کام ہوتا ہے سہولت کے مطابق کر ہی لیا جاتا ہے کہنا صرف یہ عورت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم مگر مرد بھی آپ کی ہمدردی اور سلام کا اتنا ہی مستحق ہے، بلکہ شاید تھوڑا سا زیادہ ہی ہے اور میرے نزدیک عظیم ہیں وہ مرد جو روزے کی حالت میں رزق حلال کے لیے کوشاں رہتے ہیں اللہ ان تمام مردوں کی حفاظت فرمائے رزق میں برکت اور ان کے عمل کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین

دعوتِ اسلامی کی اک نہ سمجھ آنے والی پوسٹ کے متعلق سوال اور علماء کی رائے

Like us My Page For More Updates


سوال:راہنمائی فرمائیں کہ کھڑے ہو کر شلوار پہننا اور بیٹھ کر عمامہ باندھنا درست ہے یا نہیں؟
:جوابات

عمامہ کھڑے ہو کر باندھے اور پاجامہ بیٹھ کر پہنے جس نے اس کا الٹا کیا وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگا جس کی دوا نہیں۔     (خلاصۃ الفتاوی، رسالہ ضیاء القلوب فی لباس المحبوب، جلد۳، صفحہ۱۵۳)

حضرت امام اِبنِِ حَجَر مَکِّی شَافَعِی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اپنے فتاوٰی میں علامہ ابنُ الحاج مالکی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عمامہ باندھنے میں دیگر سنّتوں کا بھی اِلتِزام کیا جائے جیسے سیدھی جانب سے شروع کرنا، بِسْمِ اللہ پڑھنا ، لباس کی دعا پڑھنا نیز عمامہ کی متعلقہ سنّتوں مثلاً تَحنِیک، شملہ چھوڑنا اور سات ہاتھ یا اس کے برابر ہونا۔ پس لازم ہے کہ شلوار بیٹھ کر پہنو اور عمامہ کھڑے ہو کر باندھو۔
(الفتاوی الفقہیۃ الکبرٰی، ۱/۱۶۹ ملتقطاً)

 بَدرُالفُقَہاء حضرت علامہ مفتی محمد اجمل قادری رضوی عَلیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں: عمامہ کھڑے ہو کر باندھا جائے، مَوَاہِبِ لَدُنیَہ شریف میں ہے: فَعَلَیکَ بِاَن تَتَسَروَلَ قَاعِداً وَ تَتَعَمَّمَ قَائِماً یعنی تجھ پر لازم ہے کہ پاجامہ بیٹھ کر پہن اور عمامہ کھڑے ہو کر باندھ۔ (المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، المقصد الثالث، النوع الثانی فی لباسہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ، ۲/۱۴۹) اب باقی رہا مسجد اور غیرِ مسجد کا فرق یہ کسی معتبر کتاب میں نظر سے نہیں گزرا۔
(فتاویٰ اجملیہ، ۱/۱۷۴)

حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین قادری رضوی عَلیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: عمامہ کھڑے ہو کر باندھنا سنّت ہے، خواہ مسجد میں ہو یا گھر میں۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ جو بیٹھ کر عمامہ باندھے گا یا کھڑے ہو کر پاجامہ پہنے گا تو کسی ایسی مصیبت میں گرفتار ہو گا جس سے چھٹکارا مشکل سے ہو گا۔
(وقارالفتاوی، ۲/۲۵۲)

بہارِ شریعت جلدسوم، حصہ۱۶، صفحہ۶۶۰ پر کشف الالتباس في إستحباب اللباس''للشیخ المحقق عبدالحق، ذکرشملہ، صفحہ ۳۹ کے حوالے سے ہے: عمامہ کھڑے ہو کر باندھے اور پاجامہ بیٹھ کر پہنے۔ جس نے اس کا الٹا کیا وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگا جس کی دوا نہیں۔

حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہان ُالدِّین زَرنُوجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے تنگدستی کے جو اَسباب بیان فرمائے ہیں اُن میں سے چند یہ بھی ہیں: چہرہ لباس سے خُشک کرلینا، گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا، نَماز میں  سُستی کرنا، گُناہ کرنا خُصُوصاً جھوٹ بولنا، ماں  باپ کیلئے دُعائے خیر نہ کرنا، عِمامہ بیٹھ کر باندھنا اور پاجامہ یا شلوار کھڑے کھڑے پہننا، نیک اعمال میں  ٹال مٹول  کرنا۔
(تعلیم المتعلم طریق التعلم، صفحہ ۷۳ تا ۷۶)

حضرت امام محمد بن یوسف شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نقل فرماتے ہیں: ’’عمامہ بیٹھ کر باندھنے اور شلوار کھڑے ہو کر پہننے سے محتاجی اور بھول جانے کا مرض پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (سبل الھدی والرشاد، جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی لباسہ الخ ، الباب الثانی فی العمامۃ والعذبۃ الخ، ۷/۲۸۲)

دعوتِ اسلامی کی پوسٹ

رمضان ٹرانسمیشنز | بہترین حل ہر ایک کے سمجھ آنے والی باتیں

ایک تحقیقی جائزہ اور دعوت فکر
 ہمارے معاشرے میں تین طرح کےلوگ رہتے ہیں؛
 ۱. دینی فکر رکھنے والے(Religious Persons) 
۲. درمیانی سوچ رکھنے والے(Moderate Persons) 
۳. دین کی فکر سے آزاد(Seculars and Liberals)

دینی فکر رکھنے والوں میں بھی تین طرح کے لوگ ہیں؛
 ۱.علماء کرام
 ۲.مدارس کے طالبِ علم یا علماء کے تربیت یافتہ مبلغین 
۳.علماء سے محبت رکھنے والے

 درمیانی سوچ والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ اور دیگر عبادات ادا کرتے ہیں لیکن معاشرے میں رائج دنیاوی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں مثلاً فلمیں ڈرامے دیکھنا، شادی بیاہ پر تمام دنیاوی رسومات ادا کرنا، لباس اور پردے وغیرہ کے بارے میں سخت سوچ نہ رکھنا.ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ اسی قسم کے ہیں جنھیں لفظ ٰ عوام ٰ سے جانا جاتا ہے. 

 دینی فکر سے آزاد وہ لوگ ہیں جنھیں اصطلاحِ جدید Modern term میں دیسی لبرل یا سیکیولر کہدیتے ہیں.اس قسم کے لوگ معاشرے میں چند ہیں جو مخصوص ایجنڈے Agenda پر کام کررہے ہیں. دینی فکر religious thinkers اور دینی فکر سے آزاد Desi liberals/ Seculars آپس میں ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں. 

 عوام کا جائزہ: اس وقت معاشرتی سطح social level پر عوام ایک بیچ چوراہے پر کھڑے ہیں.انکا واسطہ میڈیا سے بھی پڑتا ہے جہاں غالب اکثریت لبرل نامی مخلوق کی ہے اور یہی عوام پنج وقتہ نماز،قرآن سیکھنے کے لئے مساجد و مدارس کا اور نکاح پڑھانے، بچے کے کان میں آذان دینے، جنازہ پڑھوانے کے لئے علماء کرام کا اور عموماً صدقات و خیرات اور قربانی کی کھالوں کے لئے مدارس کا رخ کرتی ہے لیکن میڈیا (سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ) جس پر لبرل و سیکیولر حاوی ہیں، ہر وقت انکے ساتھ ہے.گویا عوام سوچ 
کی اصلاح یا بگاڑ کے اعتبار سے بیچ چوراہے پر ہے. 

خطرناک بات: دینی فکر سے آزاد طبقہ حتی الامکان عوام کو سوچ و فکر کے اعتبار سے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے لیکن رکاوٹ علماء و مدارس و مساجد ہیں جن سے عوام کو بدظن کرنے کیلئے لئے دن رات کوششیں جاری ہیں اور ان کوششوں کی ایک شکل 'رمضان ٹرانسمیشنز' ہیں. بظاہر تو لگتا ہے کہ میڈیا اسلام کو پروموٹ کررہا ہے لیکن بنظر عمیق دیکھا جائے تو سرار دونوں ہاتھوں سے وہ فائدہ اٹھارہا ہے مثلاً 
 *علماء کو مخلوط پروگرامز میں بٹھاکر یہ سوچ عام کی کہ مخلوط محافل بری نہیں ہیں. *مخلف مکاتب فکر کے علماء کے درمیان اختلافی مسائل پر عوام کے روبرو بحث چھڑوادی جس سے تاثر گیا کہ یہ تو لڑتے رہتے ہیں ہمیں کیا ایک کرینگے. *میڈیا پر علماء میں وہ وہ ابحاث عام کیں جن کا عوامی سطح سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ وہ علمی سطح کی ابحاث ہیں مثلاً نوروبشر، حاضر و ناظر وغیرہ.اس سے یہ بھی تاثر عام ہوا کہ دینی مسائل الجھے ہوئے ہیں جن کو بحث اور فتاوی بازی کے بغیر حل نہیں کیس جاسکتا. *ایک عام مسلمان رمضان المبارک میں عبادت کے لئے ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ مستعد ہوتا ہے، وہ اپنی آنکھوں کو بدنگاہی سے بچانا چاہتا ہے لیکن علماء کی محبت کی وجہ سے وہ سحری اور افطار ٹرانسمیشنز دیکھ لیتا ہے اور نمکین چہرے جب اسے کیمرے کی آنکھ میں نظر آتے ہیں تو کچھ نہ کچھ اس کی آنکھیں آلودہ ہوجاتی ہیں.گویا کہ نیکی اور نیت میں یہ ایک بڑا سببِ آزمائش ہے. *اداکاروں کو دین سکھانے کے لئے آگے بڑھادیا جس سے یہ تاثر گیا کہ اداکار برے نہیں ہیں انکی طرح بنو جو دین و دنیا ساتھ لیکر چل رہے ہیں. *علماء سے اپنے اپنے چینل یا میزبان اینکر کی تعریفیں کروائی جاتی ہیں جس سے انکی تشہیر بھی ہوجاتی ہے.حالانک وہی چینل دن رات دینی مزاج کے خلاف مواد چلارہا ہوتا ہے لیکن علماء کے ان کے حق میں حوصلہ افزاء کلمات سے یہ تاثر جاتا ہے کہ وہ باتیں بری نہیں جو چینلز پر چلتی ہیں، کہیں نہ کہیں شریعت میں انکی گنجائش ہے. * انعامات کے نام پر لوٹابازاری سے عالمی سطح پر تاثر گیا کہ مسلم قوم لالچی اور بے صبری ہے. ایک معصومانہ اعتراض کا جواب: اگر یہ کہا جائے علماء کو کہ آپ کو ان چینلز کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تو جواب ملتا ہے کہ جی میڈیا اسوقت میدان جنگ ہے، ہم نہیں آئینگے تو غامدی صاحب جیسے لوگ قبضہ کرلینگے.....اس بارے میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو مشورہ کہ کہ یقیناً آپ لوگ بے پردگی کے خلاف تو متفق ہیں، رمضان ٹرانسمیشنز کی غیر اخلاقی و غیر شرعی باتوں کے خلاف تو متفق ہیں نا؟ تو ایک آپس میں مل کر ان خلاف شرع امور کا بائیکاٹ کریں اور ممبر و محراب سے انکے خلاف آواز بلند کریں یا پیمرا کو متفقہ طور اپنے دستخط کے ساتھ درخواست دیں اور ان پروگرامز میں اپنی شرکت کو غیر اخلاقی باتوں کے خاتمے سے مشروط کردیں....یقیناً جب viewership ان چینلز کی کم ہوگی تو آپ کی چوکھٹ پر ناک رگڑتے ہوئے آئینگے......اور سو کی ایک بات یہ کہ آپ آج حق کے لئے کھڑے ہوں کل کو حق آپکے ساتھ ہوگا. دعوتِ فکر: میری ان گزارشات کے بات غور کریں کہ؛ *کیا رمضان ٹرانسمیشنز سے دین کا فائد ہورہا ہے یا نقصان.....؟ *اگر فائدہ ہورہا ہے تو آپکا یا دین کا یا دینی فکر سے آزاد لوگوں کا یا خود میڈیا کا...؟ * کیا عوام جس کی اصلاح آپکے ذمہ ہے، انکے دین میں ترقی ہورہی ہے یا تنزلی؟اگر کہا جائے کہ ترقی ہورہی ہے تو ثابت کیجئے کس طرح؟کیا لوگوں کی عملی زندگی میں کوئی مثبت دینی و شعوری تبدیلی واقع ہوئی یا نہیں. اگر تنزلی ہورہی ہے تو اسکا ذمہ دار کون؟ کہیں آپ اور ہم بھی تو اس گناہ میں شامل نہیں؟ ایک گزارش: تمام علماء سے گزارش ہے کہ رمضان ٹرانسمیشنز ختم نہ کیجئے بلکہ اسے شریعت کے رنگ میں رنگدیں ورنہ عوام علماء کے تابع ہے،امام غزالی کا فرمان کہ " علماء کی مثال کھانے میں نمک کے برابر ہے، نمک کی کمی بیشی کھانے کو بے ذائقہ کردیتی ہے" یہ ٹرانسمیشنز جاری رکھیں لیکن اپنا ایک متفقہ منشور تیار کریں اور حکمتِ عملی اور بہترین تدبیر وضع کیجئے کہ جس میں گناہ اور خلافِ شرع امور کا ذرہ بھر بھی دخل نہ ہو.یہ کام کسی ایک مسلک کا نہیں بلکہ ان تمام علماء کا ہے جو مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے چینلز پر آتے ہیں۔


Like us My Page For More Updates