ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

رمضان ٹرانسمیشنز | بہترین حل ہر ایک کے سمجھ آنے والی باتیں

ایک تحقیقی جائزہ اور دعوت فکر
 ہمارے معاشرے میں تین طرح کےلوگ رہتے ہیں؛
 ۱. دینی فکر رکھنے والے(Religious Persons) 
۲. درمیانی سوچ رکھنے والے(Moderate Persons) 
۳. دین کی فکر سے آزاد(Seculars and Liberals)

دینی فکر رکھنے والوں میں بھی تین طرح کے لوگ ہیں؛
 ۱.علماء کرام
 ۲.مدارس کے طالبِ علم یا علماء کے تربیت یافتہ مبلغین 
۳.علماء سے محبت رکھنے والے

 درمیانی سوچ والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ اور دیگر عبادات ادا کرتے ہیں لیکن معاشرے میں رائج دنیاوی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں مثلاً فلمیں ڈرامے دیکھنا، شادی بیاہ پر تمام دنیاوی رسومات ادا کرنا، لباس اور پردے وغیرہ کے بارے میں سخت سوچ نہ رکھنا.ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ اسی قسم کے ہیں جنھیں لفظ ٰ عوام ٰ سے جانا جاتا ہے. 

 دینی فکر سے آزاد وہ لوگ ہیں جنھیں اصطلاحِ جدید Modern term میں دیسی لبرل یا سیکیولر کہدیتے ہیں.اس قسم کے لوگ معاشرے میں چند ہیں جو مخصوص ایجنڈے Agenda پر کام کررہے ہیں. دینی فکر religious thinkers اور دینی فکر سے آزاد Desi liberals/ Seculars آپس میں ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں. 

 عوام کا جائزہ: اس وقت معاشرتی سطح social level پر عوام ایک بیچ چوراہے پر کھڑے ہیں.انکا واسطہ میڈیا سے بھی پڑتا ہے جہاں غالب اکثریت لبرل نامی مخلوق کی ہے اور یہی عوام پنج وقتہ نماز،قرآن سیکھنے کے لئے مساجد و مدارس کا اور نکاح پڑھانے، بچے کے کان میں آذان دینے، جنازہ پڑھوانے کے لئے علماء کرام کا اور عموماً صدقات و خیرات اور قربانی کی کھالوں کے لئے مدارس کا رخ کرتی ہے لیکن میڈیا (سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ) جس پر لبرل و سیکیولر حاوی ہیں، ہر وقت انکے ساتھ ہے.گویا عوام سوچ 
کی اصلاح یا بگاڑ کے اعتبار سے بیچ چوراہے پر ہے. 

خطرناک بات: دینی فکر سے آزاد طبقہ حتی الامکان عوام کو سوچ و فکر کے اعتبار سے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے لیکن رکاوٹ علماء و مدارس و مساجد ہیں جن سے عوام کو بدظن کرنے کیلئے لئے دن رات کوششیں جاری ہیں اور ان کوششوں کی ایک شکل 'رمضان ٹرانسمیشنز' ہیں. بظاہر تو لگتا ہے کہ میڈیا اسلام کو پروموٹ کررہا ہے لیکن بنظر عمیق دیکھا جائے تو سرار دونوں ہاتھوں سے وہ فائدہ اٹھارہا ہے مثلاً 
 *علماء کو مخلوط پروگرامز میں بٹھاکر یہ سوچ عام کی کہ مخلوط محافل بری نہیں ہیں. *مخلف مکاتب فکر کے علماء کے درمیان اختلافی مسائل پر عوام کے روبرو بحث چھڑوادی جس سے تاثر گیا کہ یہ تو لڑتے رہتے ہیں ہمیں کیا ایک کرینگے. *میڈیا پر علماء میں وہ وہ ابحاث عام کیں جن کا عوامی سطح سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ وہ علمی سطح کی ابحاث ہیں مثلاً نوروبشر، حاضر و ناظر وغیرہ.اس سے یہ بھی تاثر عام ہوا کہ دینی مسائل الجھے ہوئے ہیں جن کو بحث اور فتاوی بازی کے بغیر حل نہیں کیس جاسکتا. *ایک عام مسلمان رمضان المبارک میں عبادت کے لئے ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ مستعد ہوتا ہے، وہ اپنی آنکھوں کو بدنگاہی سے بچانا چاہتا ہے لیکن علماء کی محبت کی وجہ سے وہ سحری اور افطار ٹرانسمیشنز دیکھ لیتا ہے اور نمکین چہرے جب اسے کیمرے کی آنکھ میں نظر آتے ہیں تو کچھ نہ کچھ اس کی آنکھیں آلودہ ہوجاتی ہیں.گویا کہ نیکی اور نیت میں یہ ایک بڑا سببِ آزمائش ہے. *اداکاروں کو دین سکھانے کے لئے آگے بڑھادیا جس سے یہ تاثر گیا کہ اداکار برے نہیں ہیں انکی طرح بنو جو دین و دنیا ساتھ لیکر چل رہے ہیں. *علماء سے اپنے اپنے چینل یا میزبان اینکر کی تعریفیں کروائی جاتی ہیں جس سے انکی تشہیر بھی ہوجاتی ہے.حالانک وہی چینل دن رات دینی مزاج کے خلاف مواد چلارہا ہوتا ہے لیکن علماء کے ان کے حق میں حوصلہ افزاء کلمات سے یہ تاثر جاتا ہے کہ وہ باتیں بری نہیں جو چینلز پر چلتی ہیں، کہیں نہ کہیں شریعت میں انکی گنجائش ہے. * انعامات کے نام پر لوٹابازاری سے عالمی سطح پر تاثر گیا کہ مسلم قوم لالچی اور بے صبری ہے. ایک معصومانہ اعتراض کا جواب: اگر یہ کہا جائے علماء کو کہ آپ کو ان چینلز کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تو جواب ملتا ہے کہ جی میڈیا اسوقت میدان جنگ ہے، ہم نہیں آئینگے تو غامدی صاحب جیسے لوگ قبضہ کرلینگے.....اس بارے میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو مشورہ کہ کہ یقیناً آپ لوگ بے پردگی کے خلاف تو متفق ہیں، رمضان ٹرانسمیشنز کی غیر اخلاقی و غیر شرعی باتوں کے خلاف تو متفق ہیں نا؟ تو ایک آپس میں مل کر ان خلاف شرع امور کا بائیکاٹ کریں اور ممبر و محراب سے انکے خلاف آواز بلند کریں یا پیمرا کو متفقہ طور اپنے دستخط کے ساتھ درخواست دیں اور ان پروگرامز میں اپنی شرکت کو غیر اخلاقی باتوں کے خاتمے سے مشروط کردیں....یقیناً جب viewership ان چینلز کی کم ہوگی تو آپ کی چوکھٹ پر ناک رگڑتے ہوئے آئینگے......اور سو کی ایک بات یہ کہ آپ آج حق کے لئے کھڑے ہوں کل کو حق آپکے ساتھ ہوگا. دعوتِ فکر: میری ان گزارشات کے بات غور کریں کہ؛ *کیا رمضان ٹرانسمیشنز سے دین کا فائد ہورہا ہے یا نقصان.....؟ *اگر فائدہ ہورہا ہے تو آپکا یا دین کا یا دینی فکر سے آزاد لوگوں کا یا خود میڈیا کا...؟ * کیا عوام جس کی اصلاح آپکے ذمہ ہے، انکے دین میں ترقی ہورہی ہے یا تنزلی؟اگر کہا جائے کہ ترقی ہورہی ہے تو ثابت کیجئے کس طرح؟کیا لوگوں کی عملی زندگی میں کوئی مثبت دینی و شعوری تبدیلی واقع ہوئی یا نہیں. اگر تنزلی ہورہی ہے تو اسکا ذمہ دار کون؟ کہیں آپ اور ہم بھی تو اس گناہ میں شامل نہیں؟ ایک گزارش: تمام علماء سے گزارش ہے کہ رمضان ٹرانسمیشنز ختم نہ کیجئے بلکہ اسے شریعت کے رنگ میں رنگدیں ورنہ عوام علماء کے تابع ہے،امام غزالی کا فرمان کہ " علماء کی مثال کھانے میں نمک کے برابر ہے، نمک کی کمی بیشی کھانے کو بے ذائقہ کردیتی ہے" یہ ٹرانسمیشنز جاری رکھیں لیکن اپنا ایک متفقہ منشور تیار کریں اور حکمتِ عملی اور بہترین تدبیر وضع کیجئے کہ جس میں گناہ اور خلافِ شرع امور کا ذرہ بھر بھی دخل نہ ہو.یہ کام کسی ایک مسلک کا نہیں بلکہ ان تمام علماء کا ہے جو مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے چینلز پر آتے ہیں۔


Like us My Page For More Updates

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں