سلطان مراد اور مردہ انسان
سلطان مراد کو ایک رات بڑی گھٹن محسوس ہوئی لیکن وہ اس کی وجہ نہ جان سکا
اس نے اپنےسکیورٹی انچارج کو بلایا
بادشاہ کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خبر گیری کرتا تھا بولا
چلو کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ہیں
اس نے اپنےسکیورٹی انچارج کو بلایا
بادشاہ کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خبر گیری کرتا تھا بولا
چلو کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ہیں
شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گیرا پڑا ہے .بادشاہ نے اسے ہلا کر دیکھا تو مردہ انسان تھا . لوگ اس کے پاس سے گزر کر جارہے تھے.
بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی
ادھر آؤ بھائی ،، لوگ جمع ہو گۓ اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے . پوچھا کیا بات ہے ، بادشاہ نے کہا .
آدمی مرا پڑا ہے . اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا . کون ہے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ہیں .
بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی
ادھر آؤ بھائی ،، لوگ جمع ہو گۓ اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے . پوچھا کیا بات ہے ، بادشاہ نے کہا .
آدمی مرا پڑا ہے . اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا . کون ہے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ہیں .
لوگوں نے کہا ،، یہ بہت برا اور گناہ گار انسان ہے ،،
تو سلطان مراد نے کہا
کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے . چلو اس کو اٹھائیں اور اسکے گھر لے چلیں
لوگوں نے میت گھر پہنچا دی
اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی . لوگ چلے گۓ
بادشاہ اور اسکا سکیورٹی انچارج وہیں عورت کا رونا سنتے رہے .
وہ کہ رہی تھی
میں گواہی دیتی ہوں ، بیشک تو اللّه کا ولی ہے . اور نیک لوگوں میں سے ہے .
سلطان مراد بڑا متعجب ہوا
یہ کیسے ہوسکتا ہے . لوگ تو اس کے بارے میں یہ باتیں کر رہے تھے اور اس کی میت کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے .
تو سلطان مراد نے کہا
کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے . چلو اس کو اٹھائیں اور اسکے گھر لے چلیں
لوگوں نے میت گھر پہنچا دی
اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی . لوگ چلے گۓ
بادشاہ اور اسکا سکیورٹی انچارج وہیں عورت کا رونا سنتے رہے .
وہ کہ رہی تھی
میں گواہی دیتی ہوں ، بیشک تو اللّه کا ولی ہے . اور نیک لوگوں میں سے ہے .
سلطان مراد بڑا متعجب ہوا
یہ کیسے ہوسکتا ہے . لوگ تو اس کے بارے میں یہ باتیں کر رہے تھے اور اس کی میت کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے .
اس کی بیوی نے کہا
مجھے بھی لوگوں سے یہی توقع تھی
اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ہر روز شراب خانے جاتا ، جتنی ہو سکے شراب خریدتا اور گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا . اور کہتا کہ چلو کچھ تو گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہو .
اسی طرح رات کو ایک بری عورت کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور اس کو کہتا کہ ، اپنا دروازہ بند کر لے . کوئی تیرے پاس نہ آئے
گھر آکر کہتا
الحمد للّہ ! آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناہوں کا میں نے کچھ بوجھ ہلکا کر دیا ہے .
مجھے بھی لوگوں سے یہی توقع تھی
اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ہر روز شراب خانے جاتا ، جتنی ہو سکے شراب خریدتا اور گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا . اور کہتا کہ چلو کچھ تو گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہو .
اسی طرح رات کو ایک بری عورت کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور اس کو کہتا کہ ، اپنا دروازہ بند کر لے . کوئی تیرے پاس نہ آئے
گھر آکر کہتا
الحمد للّہ ! آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناہوں کا میں نے کچھ بوجھ ہلکا کر دیا ہے .
لوگ اس کو ان جگہوں پر آتا جاتا دیکھتے تھے ، میں اسے کہتی تھی کہ یاد رکھ ! جس دن تو مر گیا لوگوں نے تجھے غسل دینا ہے نہ تیری نماز پڑھنی ہے اور نہ تجھے دفنا نا ہے
وہ مسکرا دیتا اور مجھ سے کہتا کہ ، گھبرا مت تودیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ ، علماء اور اولیا پڑھیں گے .
وہ مسکرا دیتا اور مجھ سے کہتا کہ ، گھبرا مت تودیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ ، علماء اور اولیا پڑھیں گے .
یہ سن کر بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا
میں سلطان مراد ہوں . کل ہم اس کو غسل دیں گے . ہم اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائیں گے اور اس کی تدفین بھی ہم کر وائیں گے .
چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ ، علماء ، اولیاء اور کثیر عوام نے پڑھا .
میں سلطان مراد ہوں . کل ہم اس کو غسل دیں گے . ہم اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائیں گے اور اس کی تدفین بھی ہم کر وائیں گے .
چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ ، علماء ، اولیاء اور کثیر عوام نے پڑھا .
آج ہم بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض دوسروں سے سن کر اہم فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔ اگر ہم دوسروں کے دلوں کے بھید جان جائیں تو ہماری زبانیں گونگی ہو جائیں ۔
طہارتِ نسب پاک مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر اپنے نسب کی طہارت کی اس فردیت کو بیان فرمایا۔
حضرت عباس ابن عبد المطلب حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور کوئی بات جو انہوں نے لوگوں سے سنی تھی (وہ خود اس پر بڑے رنجیدہ تھے) اس بات کی خبر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:
مَنْ اَنَا؟ فَقَالُوا: اَنْتَ رَسُولُ اﷲِ عَلَيْکَ السَّلَامُ. قَالَ: اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.
’’میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس بہترین مخلوق کے دو حصے (عرب و عجم) کئے اور ان دونوں میں سے بہترین حصہ (عرب) میں مجھے رکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے رکھا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں رکھا‘‘۔
(ترمذی، السنن، 5: 543، رقم: 3532)
اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے اپنی نبوت و رسالت اور احکام شریعت کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ صرف اپنی ذات، اپنی ولادت، اپنے نسب، اپنے گھرانے، اپنے آبا و اجداد اور اپنے قبیلہ کا تذکرہ کیا۔ یہ سارا بیان میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہے۔
حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ فَضْلِ نَسَبِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم 4:1782، رقم: 2276)
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو فضیلت دی، اور کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی اور قریش میں سے بنوہاشم کو فضیلت دی اور بنوہاشم میں سے مجھ کو فضیلت دی‘‘۔
یہ بیان بھی میلاد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نسب کی طہارت پر ارشاد فرمایا:
خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم إلی أن ولدنی ابی وأمی.
(طبرانی، الأوسط، 5: 80، رقم: 4728)
میرا تولد نکاح سے رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے والدین کریمین تک جتنی پشتیں گزری ہیں، ہر پشت اور ہر نسل میں جو میرے آباء و امہات تھے ان کا سلسلہ تولد نکاح سے رہا ہے۔
سفاح یعنی میرے پورے سلسلہ نسب میں کہیں بھی بدکاری نہیں رہی اور یہ رشتہ نکاح کی طہارت آدم علیہ السلام سے لے کر میرے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور میری والدہ حضرت آمنہ کے رشتہ ازدواج تک قائم رہی۔ پورے نسب کو اللہ پاک نے نکاح کے مقدس تعلق میں پرویا ہے اور دور سفاح اور دور جاہلیت کی خرابی سے پاک رکھا ہے۔
قرآن مجید میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان فردیت (انفرادیت) کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِيْنَo
اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔
(الشعراء، 26: 219)
یعنی ہم آپ کو سجدہ گزاروں میں نسلاً بعد نسلٍ منتقل کرتے لائے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
من صلب نبی إلی صلب نبی حتی أخرجه نبيا.
(ابن کثير، تفسير، 3: 353)
نبی سے نبی کی صلب تک (پاک سے پاک صلب تک) آپ کا پورا سلسلہ نسب رہا۔ حتیٰ کہ آپ کی شان نبوت کے ساتھ ولادت ہوئی۔
طبرانی نے اس قول کو یوں روایت کیا کہ
نبي إلی نبي حتی أخرجت نبيا.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 11: 362)
امام ہیثمی نے کہا کہ رجالھما رجال الصحیح۔ ان دونوں روایتوں کے جو رجال ہیں وہ صحیح ہیں۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
ما ولدنی من سفاح أهل الجاهلية شيئ. ما ولدني إلا نکاح کنکاح الإسلام.
میرے والدین سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک میرے پورے نسب میں کسی ایک جگہ بھی دور جاہلیت کی آلودگی نے نہیں چھوا۔ میرے والدین اسلام کے نکاح کے رشتے میں جڑتے رہے (اور اس میں کوئی ناجائز رشتہ ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ہوا۔)
(بغوی، تفسير، 2: 341)
ﮔﺴﺘﺎﺧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ -- ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﮔﺴﺘﺎﺧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ -- ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﯽ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ " ﺣﻀﻮﺭﷺ ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺑﺸﺮ ﻣﻨﺎﻓﻖ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺭﻭﮦ ( ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ (" ﮐﺎﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﮔﻼ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺩﯾﺎ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ " ﺩﻭ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞﻣﻌﺎﺫؓ ﻭ ﻣﻌﻮﺫؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﻣﯿﮧ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ " ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝؓﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۲ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﺣﺎﺭﺙ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؓﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۲ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻋﺼﻤﺎ ( ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ (" ۱ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎﺻﺤﺎﺑﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﻦ ﻋﺪﯼؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۲۲ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﻮ ﻋﻔﮏ " ﺣﻀﺮﺕ ﺳﺎﻟﻢ ﺑﻦﻋﻤﺮؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﮐﻌﺐ ﺑﻦ ﺍﺷﺮﻑ " ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﻧﺎﺋﻠﮧؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﻮﺭﺍﻓﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ؓ ﮐﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﻮﻋﺰﮦ ﺟﻤﻊ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺻﻢﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۳ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻃﻼﻝ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؓﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻣﻌﯿﻂ " ﺣﻀﺮﺕﻋﻠﯽؓ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ۲ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺍﺑﻦ ﺧﻄﻞ " ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﺮﺯﮦ ؓﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺣﻮﯾﺮﺙ ﻧﻘﯿﺪ " ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۸ ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻗﺮﯾﺒﮧ ( ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺑﺎﻧﺪﯼ (" ﻓﺘﺢﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﯽ۔
۱ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺷﺨﺺ ( ﻧﺎﻡ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ) ﺧﻠﯿﻔﮧﮨﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺭﯾﺠﯽ ﻓﺎﻟﮉ ( ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ (" ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
" ﯾﻮﻟﻮ ﺟﯿﺌﺲ ﭘﺎﺩﺭﯼ " ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦﺍﻧﺪﻟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺭﺍﺟﭙﺎﻝ " ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻧﺘﮭﻮﺭﺍﻡ " ﻏﺎﺯﯼ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺭﺍﻡ ﮔﻮﭘﺎﻝ " ﻏﺎﺯﯼ ﻣﺮﯾﺪﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۶ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﭼﺮﻥ ﺩﺍﺱ " ﻣﯿﺎﮞ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﮩﯿﺪﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۷ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺷﺮﺩﮬﺎ ﻧﻨﺪ " ﻏﺎﺯﯼ ﻗﺎﺿﯽﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۲۶ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﭼﻨﭽﻞ ﺳﻨﮕﮫ " ﺻﻮﻓﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۸ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻣﯿﺠﺮ ﮨﺮﺩﯾﺎﻝ ﺳﻨﮕﮫ " ﺑﺎﺑﻮﻣﻌﺮﺍﺝ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۲ ﻣﯿﮟﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ " ﺣﺎﺟﯽﻣﺤﻤﺪ ﻣﺎﻧﮏ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۶۷ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ -
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺑﮭﻮﺷﻦ ﻋﺮﻑ ﺑﮭﻮﺷﻮ " ﺑﺎﺑﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۷ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﮐﮭﯿﻢ ﭼﻨﺪ " ﻣﻨﻈﻮﺭﺣﺴﯿﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۱ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻧﯿﻨﻮ ﻣﮩﺎﺭﺍﺝ " ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺨﺎﻟﻖﻗﺮﯾﺸﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۴۶ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻟﯿﮑﮭﺮﺍﻡ ﺁﺭﯾﮧ ﺳﻤﺎﺟﯽ " ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ
ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﻭﯾﺮ ﺑﮭﺎﻥ " ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ۱۹۳۵ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺍ
ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ " ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﻣﻠﻌﻮﻥ ﮐﻮ ﻏﺎﺯﯼ ﺍﺳﻼﻡ ﻋﺎﺷﻖ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﻠﮏ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺣﺴﯿﻦ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﺍﺻﻞ ﺟﮭﻨﻢ ﮐﯿﺎ
ﯾﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺩﻭﺭﺍﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﮯ ﮔﯽ
ﺯﺭﺍﺳُﻮﭼﻮ !!!
Click Here For More Post....
ﺑﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﭼﻮﺭ ﮐﻮﻥ ؟
ﺑﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﭼﻮﺭ ﮐﻮﻥ ؟
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﭼﻮﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﮐﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﻮﺩ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﺡ ﻣﮑﻤﻞ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ....
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ 1888 : ،
533ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺘﺮﻏﻴﺐ ﺍﻻٔﻟﺒﺎﻧﻲ :
Click Here For More POst
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﭼﻮﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﮐﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﻮﺩ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﺡ ﻣﮑﻤﻞ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ....
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ 1888 : ،
533ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺘﺮﻏﻴﺐ ﺍﻻٔﻟﺒﺎﻧﻲ :
Click Here For More POst
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﻮﺭﺕ
ﺑﺮﻗﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻧﻘﺎﺏ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﻮﺭﺕ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﭙﺮ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﭨﺮﺍﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮐﯿﺶ ﮐﺎﻭﻧﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮍﻫﯽ. ﺍﯾﮏ ﭼﺴﺖ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﯿﻠﺰ ﮔﺮﻝ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻘﺶ ﻭﻧﮕﺎﺭ ﺳﮯ ﻋﺮﺏ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﯽ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﺑﮍﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ. باﺣﺠﺎﺏ ﻋﻮﺭﺕ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﻬﮍﯼ ﺗﻬﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﯿﻠﺰ ﮔﺮﻝ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺟﻨﺠﮭﻼﮨﭧ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﯽ. ﺑﻮﻟﯽ. ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﻢ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ، ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﻬﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﯾﮧ ﻧﻘﺎﺏ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮨﮯ. ﮨﻢ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﯾﺎ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻑ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ. ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﺭﮨﻮ. ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ ﭼﻬﻮﮌﻭ. ﭘﺮﺩﮦ ﺩﺍﺭ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺮﺱ ﮐﺎؤﻧﭩﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ. ﻧﯿﻠﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﺳﻨﮩﺮﮮ ﺑﺎﻝ.. ﯾﻮﺭﭘﯽ ﻧﻘﻮﺵ. ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ، ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﮨﻮﮞ، ﯾﮧ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﯿﺮﺍ ﻭﻃﻦ ﮨﮯ، ﭘﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﮯ. ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﺎﺕ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ.. ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ..
Click Here For More Post.
Click Here For More Post.
بدگمانی سے بچو
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ،ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﺗﮭﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎ ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ:
“ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ؟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﺘﻨﯽ ﺳﺨﺖ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ، ﮐﻮئی ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔”؟
“ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ ، ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ،
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ۔
ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺗﮭﯽ، ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ” ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺏ ﺧﻄﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﮯ ، ﺍﮔﺮ ﮐﻮئی ﺳﻮﺍﻝ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻧﺮﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﻨﺎ۔ ” ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ۔
“ﮐﺘﻨﺎ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﮨﮯ، ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺘﺎ” ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺑﻮﻻ،
ﺍﯾﮏ ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ، ”ﺍﺱ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﺮ ﺭﯾﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔”
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺑﮯﺟﺎ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ نہ ﺑﺮﺍ ﮔﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻦ ﮐﻦ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،،
Click Here
موت توبہ کا وقت نہیں دیتی
میں ایک رشتہ دار کے گھر سے واپس آ رھا تھا.. رات کافی ہوچکی تھی اس لیے بائک کی رفتار تھوڑی تیز تھی تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ سکوں.. میں چوک کے پاس پہنچا تو مجھے تھوڑی ھی دور فلائی اوور نظر آ رھا تھا..
اچانک ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا..
اوپر پُل پر ایک تیز رفتار گاڑی بے قابو ھوئی اور پُل کے کنارے لگے جنگلے کو توڑتی ھوئی نیچے آرھی.. عجیب ترین منظر تھا.. اسی پر بس نہیں بلکہ عین اسی وقت پُل کے نیچے سے ایک اور گاڑی گزر رھی تھی.. وہ گاڑی عین اس گاڑی کے اوپر آکر گری.. تیز رفتاری کی وجہ سے دونوں گاڑیاں ایک ساتھ گھسٹتی ھوئی دور تک گئیں.. پھر اوپر والی گاڑی نیچے والی گاڑی سے الگ ھوکر گر گئی اور نیچے والی گاڑی بھی رُک گئی..
میں فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا تاکہ اگر کسی قسم کی مدد کرسکوں تو کروں.. دونوں گاڑیوں میں سوار لوگ اسی وقت جہانِ فانی سے کوچ کرچکے تھے لیکن اس سے بھی شدید المیہ یہ تھا کہ نیچے والی گاڑی میں ابھی بھی تیز آواز میں ایک گانا چَل رھا تھا..
واقعی موت توبہ کا وقت نہیں دیتی
(منقول)
Click Here For More Post
اچانک ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا..
اوپر پُل پر ایک تیز رفتار گاڑی بے قابو ھوئی اور پُل کے کنارے لگے جنگلے کو توڑتی ھوئی نیچے آرھی.. عجیب ترین منظر تھا.. اسی پر بس نہیں بلکہ عین اسی وقت پُل کے نیچے سے ایک اور گاڑی گزر رھی تھی.. وہ گاڑی عین اس گاڑی کے اوپر آکر گری.. تیز رفتاری کی وجہ سے دونوں گاڑیاں ایک ساتھ گھسٹتی ھوئی دور تک گئیں.. پھر اوپر والی گاڑی نیچے والی گاڑی سے الگ ھوکر گر گئی اور نیچے والی گاڑی بھی رُک گئی..
میں فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا تاکہ اگر کسی قسم کی مدد کرسکوں تو کروں.. دونوں گاڑیوں میں سوار لوگ اسی وقت جہانِ فانی سے کوچ کرچکے تھے لیکن اس سے بھی شدید المیہ یہ تھا کہ نیچے والی گاڑی میں ابھی بھی تیز آواز میں ایک گانا چَل رھا تھا..
واقعی موت توبہ کا وقت نہیں دیتی
(منقول)
Click Here For More Post
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ عمر ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ عمر ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻼﺝ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﻮﭘﯽ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﺮﻭ، ﺳﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺟﺎﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻗﯿﺼﺮ جب ﻭﮦ ﻭﮦ ﭨﻮﭘﯽ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺩ ختم ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ، ﺍﺗﺎﺭﺗﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺩ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻟﻮﭦ آتا۔ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ، ﺗﺠﺴﺲ ﺳﮯ ٹوپی ﭼﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ رﻗﻌﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ '' ﺑﺴﻢ ﺍللہ ﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ'' ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ!!
’’اﺳــﻼﻡ ﮐـــﺲ ﻗـــﺪﺭ ﻣﻌـــﺰﺯ ﮨﮯ اﺱ ﮐـــﯽ ﺗــﻮ ﺍﯾـــﮏ ﺁﯾــﺖ ﺑﮭـــﯽ باﻋــــﺚ ﺷــــﻔﺎ ﮨـــﮯ۔ ﭘــــﻮﺭﺍ ﺩﯾـــﻦ باﻋـــﺚ ﻧﺠــــﺎﺕ ﮐﯿـــﻮﮞ ﻧـﮧ هو گا؟‘‘ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ
ﺷﺮﺡ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺹ33:
Like Us on Facebook Click Here
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﻮﭘﯽ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﺮﻭ، ﺳﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺟﺎﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻗﯿﺼﺮ جب ﻭﮦ ﻭﮦ ﭨﻮﭘﯽ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺩ ختم ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ، ﺍﺗﺎﺭﺗﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺩ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻟﻮﭦ آتا۔ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ، ﺗﺠﺴﺲ ﺳﮯ ٹوپی ﭼﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ رﻗﻌﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ '' ﺑﺴﻢ ﺍللہ ﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ'' ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ!!
’’اﺳــﻼﻡ ﮐـــﺲ ﻗـــﺪﺭ ﻣﻌـــﺰﺯ ﮨﮯ اﺱ ﮐـــﯽ ﺗــﻮ ﺍﯾـــﮏ ﺁﯾــﺖ ﺑﮭـــﯽ باﻋــــﺚ ﺷــــﻔﺎ ﮨـــﮯ۔ ﭘــــﻮﺭﺍ ﺩﯾـــﻦ باﻋـــﺚ ﻧﺠــــﺎﺕ ﮐﯿـــﻮﮞ ﻧـﮧ هو گا؟‘‘ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ
ﺷﺮﺡ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺹ33:
Like Us on Facebook Click Here
عشق کہاں سے ملتا ہے آؤ تمہیں بتاؤں
عشق کرنے والو ! آؤ تمہیں بتاؤں کے عشق کہاں سے ملتا ہے اور کس کے لۓ
ملتا ہے....اور کیسے ملتا ہے ...
کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جسے اللہ
تعالیٰ نےعشق کی منزل بنایا ہے...
جس کی خاطر کائنات تخلیق کی...
اور جس کو فرمایا کہ"محبوب اگر تجھے نہ پیدا فرمانا ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا..
اب خود ہی بتایۓ... اس کے بعد کوئی اور جگہ نظر آتی ہے جہاں جا کر شمئع عشق کے پروانے مچلیں...?
پوری کائنات میں اِك واحد دِر حبيبِ خُدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہے جہاں عشق کے پروانے اللہ تعالیٰ کی عطا کردا توفیقِ عشق سے پروانہ وار اس شمع کےگرد مچلتے ہیں....
اور یہ توفیق صرف اُسے ہی عطا ہوتی ہے جو اس کا طلبطار ہے...
کیونکہ یہ کائنات کا سب سے انمول تحفہ ہے...جو ہر اک کے لۓ عام نہیں ...
اس کو حاصل کرنے کیلۓ بہت بڑے بڑے امتحانات اور آزمائشیں ہیں ....
یہ راہ آسان نہیں... اسی لۓ تو سلطان باہو رحمۃاللہ نے فرمایا کہ
زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھ دا....
دل دا پڑھ دا کوئی ہو.......
اللہ تعالیٰ کسی لالچی شخص کو اپنے محبوب کی محبت عطا نہیں فرماتا...ہاں... یہ سب سے اہم بات ہے ... اسکو سل میں سما لیجۓ اور دل سے دنیا کا لالچ اور ہوس نکال کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیجۓ کہ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت عطا فرماۓ .... آمین یا رب العٰلمین.....
برکات صرف نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں
١: ایک پاکستانی سیاستدان دو یا دو سے زائد حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑ سکتا هے، مگر ایک پاکستانی شهری دو حلقوں میں ووٹ نهیں ڈال سکتا.
٢: ایک شخص جو جیل میں هے ووٹ نهیں دے سکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان جیل میں هونے کے باوجود بھی الیکشن لڑ سکتا ھے
٣: ایک شخص جو کبھی جیل گیا هو کبھی سرکاری ملازمت نهیں حاصل کرسکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان کتنی بار بھی جیل جاچکا هو صدر، وزیراعظم، ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی بھی عهده حاصل کرسکتا هے.
٤: بینک میں ایک معمولی ملازمت کیلیئے آپ کاگریجویٹ هونا لازمی هے مگر ایک پاکستانی سیاستدان فنانس منسٹر بن سکتاهے چاهے وه انگوٹھا چھاپ هی کیوں نه هو.
٥: فوج میں ایک عام سپاهی کی بھرتی کیلیئے دس کلو میٹر کی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر چست درست هونا بھی ضروری هے البته ایک پاکستانی سیاستدان اگرچه ان پڑھ، عقل سے پیدل، لاپرواه، پاگل، لنگڑا یا لولا هی کیوں نه هو وه وزیراعظم یا وزیر دفاع بن کر آرمی، نیوی اورایئر فورس کے سربراهان کا باس بن سکتاهے.
٦: اگر کسی کسی سیاستدان کے پورے خاندان میں کوئی کبھی اسکول گیا هی نه هو تب بھی ایسا کوئی قانون نهیں جو اسے وزیر تعلیم بننے سے روک سکے اور.....
٧: ایک پاکستانی سیاستدان پر اگرچه هزاروں مقدمات عدالتوں می اس کے خلاف زیر التوا هوں وه تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا وزیر داخله بن کر سربراه بن سکتا هے.
اگر آپ سمجھتے هیں که اس نظام کو بدلنا چاهیئے، ایسے نظام سے جس میں ایک عام آدمی اور ایک سیاستدان پر یکساں قانون لاگو هو تو پاکستان کی عوام میں زیاده سے زیاده آگاهی کیلیئے اس پیغام کو دوسروں تک پهنچانے میں تعاون کریں.همیں درحقیقت اس نظام کو بدلنے کی ضرورت هے..
٢: ایک شخص جو جیل میں هے ووٹ نهیں دے سکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان جیل میں هونے کے باوجود بھی الیکشن لڑ سکتا ھے
٣: ایک شخص جو کبھی جیل گیا هو کبھی سرکاری ملازمت نهیں حاصل کرسکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان کتنی بار بھی جیل جاچکا هو صدر، وزیراعظم، ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی بھی عهده حاصل کرسکتا هے.
٤: بینک میں ایک معمولی ملازمت کیلیئے آپ کاگریجویٹ هونا لازمی هے مگر ایک پاکستانی سیاستدان فنانس منسٹر بن سکتاهے چاهے وه انگوٹھا چھاپ هی کیوں نه هو.
٥: فوج میں ایک عام سپاهی کی بھرتی کیلیئے دس کلو میٹر کی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر چست درست هونا بھی ضروری هے البته ایک پاکستانی سیاستدان اگرچه ان پڑھ، عقل سے پیدل، لاپرواه، پاگل، لنگڑا یا لولا هی کیوں نه هو وه وزیراعظم یا وزیر دفاع بن کر آرمی، نیوی اورایئر فورس کے سربراهان کا باس بن سکتاهے.
٦: اگر کسی کسی سیاستدان کے پورے خاندان میں کوئی کبھی اسکول گیا هی نه هو تب بھی ایسا کوئی قانون نهیں جو اسے وزیر تعلیم بننے سے روک سکے اور.....
٧: ایک پاکستانی سیاستدان پر اگرچه هزاروں مقدمات عدالتوں می اس کے خلاف زیر التوا هوں وه تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا وزیر داخله بن کر سربراه بن سکتا هے.
اگر آپ سمجھتے هیں که اس نظام کو بدلنا چاهیئے، ایسے نظام سے جس میں ایک عام آدمی اور ایک سیاستدان پر یکساں قانون لاگو هو تو پاکستان کی عوام میں زیاده سے زیاده آگاهی کیلیئے اس پیغام کو دوسروں تک پهنچانے میں تعاون کریں.همیں درحقیقت اس نظام کو بدلنے کی ضرورت هے..
Read More Post In My Official Facebook Page Keep Like Us:
http://m.facebook.com/TTASP021/
گستاخ آسیہ مسیح کیس کی بنیادی معلومات
نام:آسیہ مسیح زوجہ عاشق مسیح
رہائش:چک نمبر3اٹانوالی،تھانہ صدر،ضلع ننکانہ صاحب پنجاب پاکستان
قوم:عیسائی(کرسچین)
جرم:محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور عدالت میں اعتراف جرم بھی کیا.
تاریخ واقع:2009-06-14
تاریخ مقدمہ:2009-06-19
زیردفعہ:295Cقانون توہین ناموس رسالت
مقدمہ:F.I.Rنمبر226/2009
تاریخ گرفتاری:2009-06-19
سنائی جانے والی سزا:سزائے موت
19-06-20099 سے تاحال نامعلوم جیل میں پورے عیش وآرام کے ساتھ مقیم ہے بد قسمتی سے بزدل بے غیرت حکمران اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ڈرسے اپنی ہم شیرہ کو پھانسی نہیں دے رہے...یاد رکھنا مسلمانوں!گستاخ کا حمایتی اور محافظ بھی گستاخ ہے...
الداعی الالخیر:خادم اھلسنت خاک پائے علمائے حق محمد نعیم قادری
(تمام پیجز کو بغیر کسی ترمیم کے مضمون کاپی پیسٹ کرنے کی اجازت ہے)
http://m.facebook.com/TTASP021/
فری اهلسنت نیوز حاصل کریں صرف 1روپے میں وہ بهی صرف پہلی بار ہی کٹیں گے...
سروس حاصل کرنے کے لیے ابهی اپنے رائٹ میسج میں جا کر Follow @TTASP021 لکهیں اور40404 پر سینڈ کر دیں
.صرف ایک روپے میں جب تک ہم زندہ ہیں یا جب تک ہمارا اکاءونٹ سلامت ہے جب تک اهلسنت نیوز حاصل کری
رہائش:چک نمبر3اٹانوالی،تھانہ صدر،ضلع ننکانہ صاحب پنجاب پاکستان
قوم:عیسائی(کرسچین)
جرم:محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور عدالت میں اعتراف جرم بھی کیا.
تاریخ واقع:2009-06-14
تاریخ مقدمہ:2009-06-19
زیردفعہ:295Cقانون توہین ناموس رسالت
مقدمہ:F.I.Rنمبر226/2009
تاریخ گرفتاری:2009-06-19
سنائی جانے والی سزا:سزائے موت
19-06-20099 سے تاحال نامعلوم جیل میں پورے عیش وآرام کے ساتھ مقیم ہے بد قسمتی سے بزدل بے غیرت حکمران اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ڈرسے اپنی ہم شیرہ کو پھانسی نہیں دے رہے...یاد رکھنا مسلمانوں!گستاخ کا حمایتی اور محافظ بھی گستاخ ہے...
الداعی الالخیر:خادم اھلسنت خاک پائے علمائے حق محمد نعیم قادری
(تمام پیجز کو بغیر کسی ترمیم کے مضمون کاپی پیسٹ کرنے کی اجازت ہے)
http://m.facebook.com/TTASP021/
فری اهلسنت نیوز حاصل کریں صرف 1روپے میں وہ بهی صرف پہلی بار ہی کٹیں گے...
سروس حاصل کرنے کے لیے ابهی اپنے رائٹ میسج میں جا کر Follow @TTASP021 لکهیں اور40404 پر سینڈ کر دیں
.صرف ایک روپے میں جب تک ہم زندہ ہیں یا جب تک ہمارا اکاءونٹ سلامت ہے جب تک اهلسنت نیوز حاصل کری
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک عجمی کا فر
روایت ہے کہ بادشاہ روم کا بھیجا ہوا ایک عجمی کا فرمدینہ منورہ آیا اورلوگوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پتہ پوچھا، لوگوں نے بتادیا کہ وہ دوپہر کو کھجور کے باغوں میں شہر سے کچھ دور قیلولہ فرماتے ہوئے تم کو ملیں گے ۔ یہ عجمی کافر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے پاس پہنچ گیااور یہ دیکھا کہ آپ اپنا چمڑے کا درّہ اپنے سر کے نیچے رکھ کر زمین پر گہری نیند سو رہے ہیں۔ عجمی کافر اس ارادے سے تلوار کو نیام سے نکال کر آگے بڑھا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کر کے بھاگ جائے مگر وہ جیسے ہی آگے بڑھابالکل ہی اچانک اس نے یہ دیکھا کہ دو شیر منہ پھاڑے ہوئے اس پر حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ خوف ودہشت سے بلبلا کر چیخ پڑا اور اس کی چیخ کی آواز سے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدارہوگئے اوریہ دیکھا کہ عجمی کافر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے تھرتھرکانپ رہا ہے ۔ آپ نے اس کی چیخ اوردہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے سچ مچ ساراواقعہ بیان کردیا اورپھر بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ برتاؤ فرماکر اس کے قصور کو معاف کردیا۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء،ج۴،ص۱۰۹) (کرامات صحابہ، ص80)
تبصرہ:یہ روایت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی حفاظت کے لیےغیب سے ایسا سامان فراہم فرمادیتاہے کہ جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا اوریہی غیبی سامان اولیاء اللہ کی کرامت کہلاتے ہیں۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی مضمون کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ؎
محال است چوں دوست دارد ترا
کہ در دست دشمن گزارد ترا
کہ در دست دشمن گزارد ترا
یعنی اللہ تعالیٰ جب تم کو اپنا محبوب بندہ بنالے تو پھر یہ محال ہے کہ وہ تم کو تمہارے دشمن کے ہاتھ میں کسمپرسی کے عالم میں چھوڑدے بلکہ اس کی کبریائی ضرور دشمنوں سے حفاظت کے لیے اپنے محبوب بندوں کی غیبی طور پر امدادونصرت کا سامان پیدا فرمادیتی ہے۔
(کرامات صحابہ، ص811)
(کرامات صحابہ، ص811)
تحریک تحفظ اهلسنت پاکستان
بےوقوف کی صُحبت
بےوقوف کی صُحبت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے ایک پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔ ایک آدمی نے بُلند آواز سے پُکار کر کہا "اے خُدا کے رسول علیہ السلام.! آپ اِس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں, آپ کے پیچھے کوئی دشمن بھی نظر نہیں آ رہا پھر آخر آپ کی وجہِ خوف کیا ہے۔؟ ۔"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "میں ایک احمق آدمی سے بھاگ رہا ہوں, تُو میرے بھاگنے میں خلل مت ڈال۔"
اُس آدمی نے کہا "یاحضرت آپ کیا وہ مسیح علیہ السلام نہیں ہیں جن کی برکت سے اندھا اور بہرا شفایاب ہو جاتا ہے۔؟" آپ نے فرمایا "ہاں"
اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مُردے پر کلامِ الہٰی پڑھتے ہیں اور وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔؟" آپ نے فرمایا "ہاں"
اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ ہی نہیں ہیں کہ مٹی کے پرندے بنا کر اُن پے دَم کر دیں تو وہ اُسی وقت ہَوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔؟" آپ علیہ السلام نے فرمایا "بیشک میں وہی ہوں۔" تو اُس شخص نے حیرانگی سے پوچھا کہ "اللّٰہ نے آپ کو اِس قدر قوت عطا کر رکھی ہے تو پھر آپ کو کس کا خوف ہے۔؟"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "اُس رب العزت کی قسم کہ جس کے اسمِ اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفایاب ہو گئے, پہاڑوں پر پڑھا تو وہ ہٹ گئے, مُردوں پر پڑھا تو وہ جی اُٹھے لیکن وہی اسمِ اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا لیکن اُس پر کچھ اثر نہ ہُوا۔"
اُس شخص نے پوچھا "یاحضرت, یہ کیا ہے کہ اسمِ اعظم اندھوں, بہروں اور مُردوں پر تو اثر کرے لیکن احمق پر کوئی اثر نہیں کرتا حالانکہ حماقت بھی ایک مرض ہے۔؟" تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا "حماقت کی بیماری خُدائی قہر ہے۔"
درسِ حیات: "بیوقوف کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔"
.. حکایت نمبر 6, کتاب: "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ رحمہ
www.facebook.com/@TTASP021
www.twitter.com/@TTASP021
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے ایک پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔ ایک آدمی نے بُلند آواز سے پُکار کر کہا "اے خُدا کے رسول علیہ السلام.! آپ اِس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں, آپ کے پیچھے کوئی دشمن بھی نظر نہیں آ رہا پھر آخر آپ کی وجہِ خوف کیا ہے۔؟ ۔"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "میں ایک احمق آدمی سے بھاگ رہا ہوں, تُو میرے بھاگنے میں خلل مت ڈال۔"
اُس آدمی نے کہا "یاحضرت آپ کیا وہ مسیح علیہ السلام نہیں ہیں جن کی برکت سے اندھا اور بہرا شفایاب ہو جاتا ہے۔؟" آپ نے فرمایا "ہاں"
اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مُردے پر کلامِ الہٰی پڑھتے ہیں اور وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔؟" آپ نے فرمایا "ہاں"
اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ ہی نہیں ہیں کہ مٹی کے پرندے بنا کر اُن پے دَم کر دیں تو وہ اُسی وقت ہَوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔؟" آپ علیہ السلام نے فرمایا "بیشک میں وہی ہوں۔" تو اُس شخص نے حیرانگی سے پوچھا کہ "اللّٰہ نے آپ کو اِس قدر قوت عطا کر رکھی ہے تو پھر آپ کو کس کا خوف ہے۔؟"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "اُس رب العزت کی قسم کہ جس کے اسمِ اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفایاب ہو گئے, پہاڑوں پر پڑھا تو وہ ہٹ گئے, مُردوں پر پڑھا تو وہ جی اُٹھے لیکن وہی اسمِ اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا لیکن اُس پر کچھ اثر نہ ہُوا۔"
اُس شخص نے پوچھا "یاحضرت, یہ کیا ہے کہ اسمِ اعظم اندھوں, بہروں اور مُردوں پر تو اثر کرے لیکن احمق پر کوئی اثر نہیں کرتا حالانکہ حماقت بھی ایک مرض ہے۔؟" تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا "حماقت کی بیماری خُدائی قہر ہے۔"
درسِ حیات: "بیوقوف کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔"
.. حکایت نمبر 6, کتاب: "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ رحمہ
www.facebook.com/@TTASP021
www.twitter.com/@TTASP021
Share Lazmi Krn....
ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﺭﻧﺪﮮ ﻓﯿﺴﺒﮏ ﭘﺮ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺳﮯ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﺯﻧﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
۔
ﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺎ ﺑﺎﻟﺠﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺯﻧﺎ
۔
ﺟﻮ ﺯﻧﺎﺑﺎﻟﺠﺒﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺷﺎﺋﺴﺘﮧ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺎ ﮐﺮ ﮐﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﻧﺒﺎﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺘﮯ ﺧﯿﺮﺍﮞ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ،،،،،،
ﺟﻮ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺯﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ 70 ﻓﯿﺼﺪ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﻭﭘﻦ ﻣﺎﺋﻨﮉ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺷﻦ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﺁئی ﮉﯼ ﺩﯾﮑﻬﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻤﺎﺋﻞ ﺍﯾﻤﻮﺷﻦ ﺑﻬﯿﺠﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﻼ . ﺑﺎﺕ ﭼﺎﻟﻮ ،،،،
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮩﻦ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﯿﮟ ؟
ﺟﯽ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠّٰﮧ
ﻣﺎﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ sister ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮑﻬﺘﯽ ﮨﻮ ﺑﮩﻦ
ﺁﭘﮑﯽ ﮨﻮﺳﭧ ﭘﮍﮬﯽ ﺣﺠﺎﺏ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﭘﻮﺳﭧ ﺗﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﮮ ﻣُﻠﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺳﻮﭺ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ
ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻓﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺟﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮩﺖ ﺷﮑﺮﯾﮧ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺩﯾﻦ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﮯ
ﺟﯽ بالکل ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﺗﻮ ﮨﺮ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﯽ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠّٰﮧ ۔۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭘﮑﻮ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﻬﮯ
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺑﺲ ﺁﭖ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ،،،،
۔
ﺍﻭﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁ ﮔﺌﮯ so ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺎﻓﻆ
Ok Ok
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺠﺪ کے ﻟﺌﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
==========
Next Talk
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺭ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮩﻦ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷُﮑﺮ ﮨﮯ
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ ﺑﺮﺍ ﻧﮧ مناﺋﯿﮟ
ﺗﻮ
ﺟﯽ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ؟؟
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻣﮏ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻨﺠﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ
ﻭﺍﮦ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ؟؟
ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﭽﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ
ﺍﺭﮮ ﻭﺍﮦ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮨﻮﺋﮯ
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍُﺳﺘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ !! ﮬﺎﮬﺎﮬﺎ ﮬﺎﮬﺎﮬﺎﮬﺎ !!!
ﮐﺎﻓﯽ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ Sorry
No No it's Ok
ﺧﺪﺍ حاﻓﻆ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻭﮞ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ
Ok ﺍﻟﻠﮧ حاﻓﻆ
==========
ﺍلسلاﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ السلاﻡ ﺑﮩﻦ
ﮐﺪﮬﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﮯ
ﺁﺝ Sister ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﻬﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﺧﯿﺮﯾﺖ ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﮩﻦ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﮐﻮﺋﯽ Help ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ؟
ﻣﺠﻬﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ Hurt کیا
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ
ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ
ﺑﺲ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﯿﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ
ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻝ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ؟
Ok ﻧﻤﺒﺮ ﺩﯾﮟ
034555555
==========
ﺍلسلام ﻋﻠﯿﮑﻢ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍلسلاﻡ
ﺁﭖ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮ
ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﮞ
ﺁپ کی ﺁﻭﺍﺯ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﺍﭼﮭﺎ !!! ﺷﮑﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ ؟
ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
hihihi
ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ؟
ﺁﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﮔﯽ
=============
ﺑﺎﺕ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﮨﯽ ،،، ﮨﻤﺪﺭﺩﯾﺎﮞ ﺑﮍﻫﺘﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﻣﭩﺘﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﻤﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﻭ ﺩﺍﺋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ
ﮨﻮﺍ ﯾﻮﮞ ﻟﮍﮐﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺪﻑ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻬﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﮍﮪ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﯿﺮ ﭼﻼ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﺴﺒﮑﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﭘﮑﺎ ﭨﻬﮑﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﭩﺘﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﭧ ﮔﯿﺎ
ﺩﻭﺳﺖ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﭘﮭﺮ ﺯِﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ حقیقی
ﭘﮭﺮ
ﮨﻠﮑﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﭘﮭﺮ
The End
==========
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ، ﻣﻘﺪﺱ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﮑﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ- ﺁﺋﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍپنے ﺍﺭﺍﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ میں ﺩﮮ ﺩﯾﮟ !!!
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﻮ ﺑُﺮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻔﻆ ﻭ ﺍﻣﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ .
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ
انتخاب...علی بھای
#CopyPast
#طالب_دعا_محمدنعیم_قادری
For More Post Like us My Facebook Page http://m.facebook.com/TTASP021/
۔
ﺑﮩﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ
=================ﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺎ ﺑﺎﻟﺠﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺯﻧﺎ
۔
ﺟﻮ ﺯﻧﺎﺑﺎﻟﺠﺒﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺷﺎﺋﺴﺘﮧ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺎ ﮐﺮ ﮐﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﻧﺒﺎﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺘﮯ ﺧﯿﺮﺍﮞ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ،،،،،،
ﺟﻮ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺯﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ 70 ﻓﯿﺼﺪ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﻭﭘﻦ ﻣﺎﺋﻨﮉ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺷﻦ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﺁئی ﮉﯼ ﺩﯾﮑﻬﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻤﺎﺋﻞ ﺍﯾﻤﻮﺷﻦ ﺑﻬﯿﺠﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﻼ . ﺑﺎﺕ ﭼﺎﻟﻮ ،،،،
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮩﻦ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﯿﮟ ؟
ﺟﯽ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠّٰﮧ
ﻣﺎﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ sister ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮑﻬﺘﯽ ﮨﻮ ﺑﮩﻦ
ﺁﭘﮑﯽ ﮨﻮﺳﭧ ﭘﮍﮬﯽ ﺣﺠﺎﺏ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﭘﻮﺳﭧ ﺗﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﮮ ﻣُﻠﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺳﻮﭺ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ
ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻓﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺟﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮩﺖ ﺷﮑﺮﯾﮧ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺩﯾﻦ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﮯ
ﺟﯽ بالکل ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﺗﻮ ﮨﺮ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﯽ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠّٰﮧ ۔۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭘﮑﻮ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﻬﮯ
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺑﺲ ﺁﭖ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ،،،،
۔
ﺍﻭﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁ ﮔﺌﮯ so ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺎﻓﻆ
Ok Ok
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺠﺪ کے ﻟﺌﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
==========
Next Talk
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺭ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮩﻦ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷُﮑﺮ ﮨﮯ
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ ﺑﺮﺍ ﻧﮧ مناﺋﯿﮟ
ﺗﻮ
ﺟﯽ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ؟؟
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻣﮏ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻨﺠﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ
ﻭﺍﮦ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ؟؟
ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﭽﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ
ﺍﺭﮮ ﻭﺍﮦ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮨﻮﺋﮯ
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍُﺳﺘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ !! ﮬﺎﮬﺎﮬﺎ ﮬﺎﮬﺎﮬﺎﮬﺎ !!!
ﮐﺎﻓﯽ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ Sorry
No No it's Ok
ﺧﺪﺍ حاﻓﻆ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻭﮞ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ
Ok ﺍﻟﻠﮧ حاﻓﻆ
==========
ﺍلسلاﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ السلاﻡ ﺑﮩﻦ
ﮐﺪﮬﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﮯ
ﺁﺝ Sister ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﻬﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﺧﯿﺮﯾﺖ ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﮩﻦ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﮐﻮﺋﯽ Help ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ؟
ﻣﺠﻬﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ Hurt کیا
ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ
ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ
ﺑﺲ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﯿﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ
ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻝ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ؟
Ok ﻧﻤﺒﺮ ﺩﯾﮟ
034555555
==========
ﺍلسلام ﻋﻠﯿﮑﻢ
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍلسلاﻡ
ﺁﭖ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮ
ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﮞ
ﺁپ کی ﺁﻭﺍﺯ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﺍﭼﮭﺎ !!! ﺷﮑﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ ؟
ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
hihihi
ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ؟
ﺁﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﮔﯽ
=============
ﺑﺎﺕ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﮨﯽ ،،، ﮨﻤﺪﺭﺩﯾﺎﮞ ﺑﮍﻫﺘﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﻣﭩﺘﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﻤﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﻭ ﺩﺍﺋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ
ﮨﻮﺍ ﯾﻮﮞ ﻟﮍﮐﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺪﻑ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻬﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﮍﮪ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﯿﺮ ﭼﻼ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﺴﺒﮑﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﭘﮑﺎ ﭨﻬﮑﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﭩﺘﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﭧ ﮔﯿﺎ
ﺩﻭﺳﺖ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﭘﮭﺮ ﺯِﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ حقیقی
ﭘﮭﺮ
ﮨﻠﮑﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﻔﺮﺕ
ﭘﮭﺮ
The End
==========
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ، ﻣﻘﺪﺱ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﮑﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ- ﺁﺋﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍپنے ﺍﺭﺍﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ میں ﺩﮮ ﺩﯾﮟ !!!
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﻮ ﺑُﺮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻔﻆ ﻭ ﺍﻣﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ .
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ
انتخاب...علی بھای
#CopyPast
#طالب_دعا_محمدنعیم_قادری
For More Post Like us My Facebook Page http://m.facebook.com/TTASP021/
زندگی کے سبق
کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا ، ، کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی تھی، اتنے میں پرنسپل کلاس روم میں داخل ہوئے، کلاس روم میں سناٹا چھاگیا ۔
پرنسپل صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے کالج کے وزیٹنگ پروفیسر، پروفیسر انصاری ہیں، آپ مفکر دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یہ آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں گے۔ ان کے کئی لیکچر ہوں گے۔ جو اسٹوڈنٹس انٹرسٹڈ ہوں وہ ان کے لیکچر میں باقاعدگی سے شریک ہوں۔
*1*
Sabaq01
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی پروفیسر کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ پروفیسر کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔
وزیٹنگ پروفیسر انصاری نے ہال میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا….
‘‘تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے؟’’….
‘‘یہ ناممکن ہے۔’’، کلاس کے ایک ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں۔’’ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کردی۔
پروفیسر نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے بلیک بورڈ پر اس لکیر کے نیچے ہی اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ اب اوپر والی لکیر کے سامنے یہ لکیر چھوٹی نظر آرہی تھی۔
پروفیسر نے چاک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا:
‘‘آپ نے آج اپنی زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھا ہے، وہ یہ ہے دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے کس طرح نکلا جاسکتا ہے….’’
آگے بڑھنےکی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو طاقتور اور بڑا بنانے پر توجہ دی جائے۔ دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا، ترقی کا صحیح طریقہ ہے۔ یہ طریقہ فرد کے لیے بھی بہتر ہے اور قوموں کے لیے بھی۔ اس طریقے پر اجتماعی طور پر ہمارے پڑوسی ملک چین نے سب سے زیادہ عمل کیا ہے اور بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔
*2*
Sabaq02
دوسرے دن کلاس میں داخل ہوتے ہی پروفیسر انصاری نے بلیک بورٖڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کردیا، اس کے بعد انہوں نے اس سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے ایک سیاہ نقطہ ڈالا، پھر اپنا رخ کلاس کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:
‘‘آپ کو کیا نظر آ رہا ہے….؟ ’’
سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا‘‘ایک سیاہ نقطہ’’۔
طالب علم تعجب کا اظہار کررہے تھے سر بھی کمال کرتے ہیں ، کل لکیر کھینچی تھی آج نقطہ بنادیا ہے ….
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ حیرت ہے ! اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک چھوٹا سا سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟’’
زندگی میں کیے گئے لاتعداد اچھے کام سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں جبکہ کوئی غلطی یا خرابی محض ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت دوسروں کی غلطیوں پر توجہ زیادہ دیتی ہے لیکن اچھائیوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔
آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوئی ایک کوتاہی یا کسی غلطی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
آپ آدھا گلاس پانی کا بھر کر اگر 100 لوگوں سے پوچھیں گے ، تو کم از کم 80 فیصد کہیں گے آدھا گلاس خالی ہے اور 20 فیصد کہیں گے کہ آدھا گلاس پانی ہے …. دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا لیکن درحقیقت یہ دو قسم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ جن لوگوں کا انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے جبکہ مثبت ذہن کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاشکرلیتے ہیں۔
ہماری زندگی کے معاملات میں لوگوں کے ردعمل گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ‘‘لوگ کیا کہیں گے’’ جیسے روائتی جملے ہمیں ہمیشہ دو راہوں پر گامزن کردیتے ہیں۔ یہ دوراہی فیصلہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔اس صورتحال میں صرف نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔
اس لیے آپ مستقل میں کوئی بھی کام کریں، کوئی بھی راہ چنیں ، تو یہ یاد رکھیں کہ آپ ہر شخص کو مطمئننہیں کرسکتے ۔
*3*
Sabaq03
تیسرے دن پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا، جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا۔انہوں نے وہ گلاس بلند کردیا، تاکہ تمام طلبا اسےدیکھ لیں۔
‘‘سر کیا آپ وہی فلسفیانہ سوال تونہیں پوچھنا چاہ رہے کہ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے’’ ایک طالب علم نے جملہ کستے ہوئے کہا۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا اور کہا ‘‘نہیں! آج میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا….؟’’
‘‘پچاس گرام’’، ‘‘سو گرام’’، ‘‘ایک سو پچیس گرام’’۔سب اپنے اپنے انداز سے جواب دینے لگے۔
‘‘میں خود صحیح وزن بتا نہیں سکتا، جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کرلوں!….’’ پروفیسر نے کہا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ‘‘ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لیے اسی طرح اٹھائے رہوں….؟’’
‘‘کچھ نہیں ہوگا!’’ طالب علموں نے جواب دیا۔
‘‘ٹھیک ہے، اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یوں ہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’ پروفیسر نے پوچھا۔
‘‘آپ کے بازو میں درد شروع ہوجائے گا۔’’ طلباء میں سے ایک نے جواب دیا۔
‘‘تم نے بالکل ٹھیک کہا۔’’ پروفیسر نے تائیدی لہجے میں کہا۔‘‘اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’
‘‘آپ کا باوزو شل ہوسکتا ہے۔’’ ایک طالب علم نے کہا۔‘‘آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے’’ ایک اور طالب علم بولا، ‘‘آپ پر فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔ آپ کو اسپتال لازمی جانا پڑے گا!’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری گلاس قہقہے لگانے لگی۔
‘‘بہت اچھا!’’ پروفیسر نے بھی ہنستے ہوئے کہا پھر پوچھا ‘‘لیکن اس دوران کیا گلاس کا وزن تبدیلہوا….؟’’
‘‘نہیں۔’’ طالب علموں نے جواب دیا۔
‘‘تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا….؟’’پروفیسر نے پوچھا۔طالب علم چکرائے گئے۔
‘‘ گلاس کا بہت دیر تک اُٹھائے رکھنا ، بہتر ہوگا کہ اب گلاس نیچے رکھ دیں!’’ ایک طالب علم نے کہا۔
‘‘بالکل صحیح!….’’ استاد نے کہا۔
‘‘ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک لگتے ہیں۔انہیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ آپ کے لیے سر کا درد بن جائیں گے۔ انہیں اور زیادہ دیر تک تھامے رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کردیں گے۔ آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
دیکھیے….!اپنی زندگی کے چیلنجز (مسائل) کے بارے میں سوچنا یقیناً اہمیت رکھتا ہے۔لیکن…. اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر دن کے اختتام پر سونے سے پہلے ان مسائل کو ذہن سے اُتاردیا جائے۔ اس طریقے سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا نہیں رہیں گے۔ اگلی صبح آپ تروتازہ اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیدار ہوں گے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو، کسی بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کرسکیں گے۔ لہٰذا گلاس کو یعنی مسائل پر غیر ضروری سوچ بچار کو نیچے کرنا رکھنا یاد رکھیں۔’’
*4*
Sabaq04
پروفیسر نے کہا کہ کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور ٹماٹرساتھ لائے۔
جب طلباء تھیلا اور ٹماٹر لے آئے تو پروفیسر نے کہا کہ :
‘‘آپ میں سے ہر طالب علم اس فرد کے نام پر جسے آپ نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک ٹماٹر چن لیں اور اس پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں۔’’
سب نے ایک ایک کرکے یہی عمل کیا، پروفیسر نے کلاس پر نظر ڈالی تو دیکھابعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے۔
پھر پروفیسر نے سب طالب علموں سے کہا کہ:
‘‘ یہ آپ کا ہوم ورک ہے، آپ سب ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھریں۔ رات کو سوتے وقت اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر میں رکھیں۔ کل ہفتہ ، پرسوں اتوار ہے آپ کی چھٹی ہے، پیر کے روز آپ ان تھیلوں کو لے کر آئیں اور بتائیں آپ نے کیا سیکھا۔ ’’
پیر کے دن سب طالب علم آئے تو چہرے پر پریشانی کے آثار تھے، سب نے بتایا کہ اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہوگیا۔ قدرتی طور پر ٹماٹروں کی حالت خراب ہونے لگی۔ وہ پلپلے اور بدبودار ہوگئے تھے۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ اس ایکسرسائز سے کیا سبق سیکھا….؟’’
سب طلبہ و طالبات خاموش رہے۔
‘‘اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا ، کسی پر احسان کرنااس شخص کے لیے اچھا ہے لیکن دوسرے کو معاف کرکے ہم خود اپنے لیے لاتعداد فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ جب تک ہم کسی سے ناراض رہتے ہیں ، اس کے خلاف بدلہ لینے کے لیے سوچتے ہیں اس وقت تک ہم کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا خون جلاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اذیت اور مشقت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ بدلے اور انتقام کی سوچ، گلے سڑے ٹماٹروں کی طرح ہمارے باطن میں بدبو پھیلانے لگتی ہے۔ معاف نہ کرنا ایک بوجھ بن کر ہمارے اعصاب کو تھکا دیتا ہے۔
*5*
Sabaq05
‘‘آج ہم نہیں پڑھیں گے….’’
پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سارے طالب علم حیران و پریشان ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔
‘‘آپ دو دن ٹماٹروں کا تھیلا اٹھائے تھک گئے ہوں گے۔ اس لیے آج آپ کے لیے چائے کافی میریطرف سے….’’
اسی دوران لیکچر ہال میں کالج کا پیُون داخل ہوا اس کے ہاتھ میں کافی کے دو بڑے سے جگ تھے ۔ ساتھ ہی بہت سے کپ تھے، پورسلین کے کپ، پلاسٹک کے کپ، شیشے کے کپ، ان میں سے بعض سادہ سے کپ تھے اور بعض نہایت قیمتی، خوبصورت اور نفیس….
پروفیسر نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘سب اپنی مدد آپ کے تحت وہ گرما گرم چائے کافی آپ خودلے لیں۔’’
جب تمام طالب علموں نے اپنے چائے اور کافی کے کپ ہاتھوں میں لے لیے تو پروفیسر صاحب گویا ہوئے ۔
‘‘ آپ لوگ غور کریں …. تمام نفیس، قیمتی اور دیکھنے میں حسین کافی کپ اٹھا لیے گئے ہیں، جبکہ سادہ اور سستے کپوں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا، وہ یوں ہی رکھے ہوئے ہیں۔’’
‘‘اس کا کیا مطلب سر’’۔ ایک طالب علم نے پوچھا
‘‘گو یہ عام سی بات ہے کہ آپ اپنے لیے سب سے بہترین کا انتخاب کرتے ہیں لیکن یہی سوچ آپ کے کئی مسائل اور ذہنی دباؤ کی جڑ بھی ہے۔’’
سارے طالب علم چونک اٹھے، ‘‘ یہ کیا کہہ رہے ہیں سر اچھی چیز کا انتخاب تو اعلیٰ ذوق کی علامت ہے۔ یہ مسائل کی جڑ کیسے ….؟’’
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:‘‘آپ سب کو حقیقت میں جس چیز کی طلب تھی، وہ چائے یا کافی تھی…. نہ کہ کپ…. لیکن آپ سب نے دانستہ طور پر بہتر کپوں کے لیے ہاتھ بڑھایا اور سب ایک دوسرے کے کپوں کو چور نگاہوں سے دیکھتے رہے۔’’
میرے بچو …. نوجوانو… یاد رکھو…. زندگی کا اصل حسن باطن سے پھوٹنے والی خوشیوں کی وجہ سے ہے۔ عالی شان بنگلہ، قیمتی گاڑی، دائیں بائیں ملازمین، دولت کی چمک دمک کی وجہ سے بننے والے دوست یہ سب قیمتی کپ کی طرح ہیں۔ اگر اس قیمتی کپ میں کافی یا چائے بدمزہ ہو تو کیا آپ اسے پئیں گے؟۔
اصل اہمیت زندگی ، صحت اور آپ کے اعلیٰ کردار کی ہے۔ باقی سب کانچ کے بنے ہوئے نازک برتن ہیں، ذرا سی ٹھیس لگنے سے یہ برتن ٹوٹ جائیں گے یا ان میں کریک آجائے گا۔
یاد رکھیے! دنیا کی ظاہری چمک دمک کی خاطر اپنے آپ کو مت گرائیے۔ بلکہ زندگی کے اصلی جوہر کو اُبھاریے۔
تمام تر توجہ صرف کپ پر مرکوز کرنے سے ہم اس میں موجود کافی یعنی زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔لہٰذا کپوں کو اپنے ذہن کا بوجھ نہ بنائیں…. اس کی بجائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔’’
*6*
Sabaq06
پروفیسر صاحب نے کلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک پینسل نکالی اور تمام طلبا کو دکھاتےہوئے کہا :
‘‘ آج کا سبق آپ اس پینسل سے سیکھیں گے…. پینسل میں پانچ باتیں ایسی ہیں جو ہم سب کے لیے جاننی ضروری ہیں!….
‘‘وہ کیا سر….’’ سب نے تجسس سے پوچھا
‘‘پہلی بات :یہ پینسل عمدہ اور عظیم کام کرنے کے قابل اس صورت میں ہوسکتی ہے ، جب وہ خود کو کسی کے ہاتھ میں تھامے رکھنے کی اجازت دے۔
دوسری بات :ایک بہترین پینسل بننے کے لیے وہ بار بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہے۔
تیسری بات: وہ ان غلطیوں کو درست کرنے کی اہل رکھتی ہے ، جو اس سے سرزد ہوسکتی ہیں۔
چوتھی بات :یہ پینسل کا سب سے اہم حصہ ہمیشہ وہ ہوگا جو اس کے اندر یعنی اس کے باطن میں ہوتا ہے اور پانچویں بات : پینسل کو جس سطح پر بھی استعمال کیا جائے، وہ لازمی اس پر اپنا نشان چھوڑ جاتی ۔ چاہے حالات کیسے ہی ہوں۔’’
‘‘اب اس پینسل کی جگہ آپ اپنے کو لے لیں۔
آپ بھی عمدہ اور عظیم کام کرنے کے لیے قابل اسی صورت میں ہوسکتے ہیں، جب آپ خود کو اپنے استاد یا راہنما کے ہاتھوں میں تھامے رکھنے کی اجازت دیں۔
دوسری بات : آپ کو بات بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑے گا ۔ یہ مراحل دنیا میں زندگی کے مختلف مسائل کی صورت میں آپ کے سامنے آئیں گے، ایک مضبوط فرد بننے کے لیے آپ کو ان مسائل کا اچھے طریقے سے سامنا کرنا ہوگا۔
تیسری بات :یہ کہ اپنے آپ کو ان غلطیوں کو درست کرنے کے قابل بنائیں جو آپ سے سرزد ہوسکتی ہیں۔
چوتھی بات: ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے اندر ہے، ہمارا باطن ہے ، ہمیں اسے کثافتوں اور آلائشوں سے بچانا ہے۔
پانچویں بات: آپ جس سطح پر سے بھی گزر کر جائیں، آپ اپنے نشان ضرور چھوڑ جائیں۔ چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اس دنیا کو آپ کی ضرورت ہے، کیونکہ کوئی شے بھی فضول اور بے مقصد نہیں ہوتی۔
*7*
Sabaq07
پروفیسر صاحب نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے اپنے طالب علموں پر نظر ڈالی اور کہا
“آج میں تمہیں زندگی کا نہایت اہم سبق سکھانے جارہا ہوں….’’
وہ اپنے ہمراہ کانچ کی ایک بڑی برنی یعنی جارJAR لائے تھے، انہوں نے اس جار کوٹیبل پر رکھا اور اپنے بیگ سے ٹیبل ٹینس کی گیندیں نکال کر اس برنی میں ڈالنے لگے….اور تب تک ڈالتے رہے جب تک اس برنی میں ایک بھی گیند کی جگہ باقی نہ رہی….
پروفیسر صاحب نے طالب علموں سے پوچھا“کیا برنی پوری بھر گئی ہے….؟” “جی ہاں….”طالب علموں نے ایک ساتھ جواب دیا…..
پھر پروفیسر صاحب نے بیگ سے چھوٹے چھوٹے کنکر نکال کر اس برنی میں بھرنے شروع کردیے، وہ دھیرے دھیرے برنی کو ہلاتے بھی جارہے تھے۔ کافی سارے کنکر برنی میں جہاں جگہ خالی تھی سماگئے….
پروفیسر صاحب نے پھر سوال کیا:“کیا اب برنی بھرگئی ہے….؟”
طالب علموں نے ایک بار پھر “ہاں”کہا….
اب پروفیسر صاحب نے بیگ سے ایک تھیلی نکالی اور اس میں سے ریت نکال کر دھیرے دھیرے اس برنی میں ڈالنی شروع کردی، وہ ریت بھی اس برنی میں جہاں تک ممکن تھا بیٹھ گئی….
یہ دیکھ کر طلباء اپنی نادانی پر ہنسنے لگے….
پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر سوال کیا
“کیا اب یہ برنی پوری بھرگئی ہے ناں….؟”
“جی!…. اب تو پوری بھر گئی ہے سر….”سب ہی نے ایک آواز میں کہا….
پروفیسر نے بیگ کے اندر سے جوس کے دو ڈبّے نکال کر جوس اس برنی میں ڈالا، جوس بھی ریت کے بیچ تھوڑی سی جگہ میں جذب ہوگیا ….اب پروفیسر صاحب نے نہایت ہی گھبمیر آواز میں سمجھانا شروع کیا….
‘‘اس کانچ کی برنی کو تم لوگ اپنی زندگی سمجھو، ٹیبلٹینس کی گیندیں تمہاری زندگی کے سب سے اہم کام ہیں….. مثلاً طرزِ معاشرت، حصولِ معاش، تعلیموتربیت، خاندان ،بیوی بچے، نوکری ، صحت وتحفظ وغیرہ…. چھوٹے کنکر تمہاری عام ضروریات اور خواہشات ہیں۔ گاڑی، بنگلہ، نوکرچاکر، موبائل، کمپیوٹر اور دیگراصرافِ زندگی وغیرہ….اور ریت کا مطلب ہے چھوٹی چھوٹی بےکار اور فضول باتیں،جھگڑے، آوارہ گردی، ہوائی قلعہ بنانا، ٹائم پاس کرنا، وقت کاضیاعوغیرہ ….
اگر تم نے کانچ کی برنی میں سب سے پہلے ریت بھری ہوتی تو ٹیبل ٹینس کی گیند اور کنکرکے لیے جگہ ہی نہیں بچتی یا صرف کنکر بھردیے ہوتے تو گیند نہیں بھرپاتے ، ریت ضرور آسکتی تھی….
ٹھیک یہی طریقہ کار زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر تم فضول اور لایعنی چیزوں کے پیچھے پڑے رہو گے اور اپنی زندگی اسی کے چکرمیں ختم کردو گے تو تمہارے پاس اہم باتوں کے لیے وقت نہیں رہے گا….
ایک کامیاب اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے یہ اہم سبق ہے ۔ اب یہ تم خود طے کرلو کہ تمہیں اپنی کانچ کی برنی کس طرح بھرنی ہے’’….
طالب علم بڑے غور سے پروفیسر صاحب کی باتیں سن رہے تھے، اچانک ایک طالبعلم نے پوچھا “سر! لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جوس کے دوڈبّےکیا ہیں؟”….
پروفیسر مسکرائے اور بولے “میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک کسی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا…. اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں اور کس قدر ہی کامیابیاں کیوں نہ سمیٹ رہے ہوں لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں کےساتھ تعلق کی مٹھاس کی گنجائش ہمیشہ رکھنی چاہیے”….
*8*
Sabaq08
آج لیکچر کا آخری دن تھا ، کلاس روم کے طلبہ میں چہ مگوئیاں جاری تھیں، اتنے میں پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے، کلاس روم کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ گہری خاموشی میں بدلنے لگی۔ دیکھا کہ پروفیسر کے پیچھے ایک غبارے والا ڈھیر سارے سرخ رنگ کے کلاس روم میں داخل ہورہا ہے ….
پروفیسر کے اشارے پر غبارے والے نے ایک ایک کرکے سارے غبارے طلباء میں تقسیمکردئیے….
‘‘سر آج ویلنٹائن ڈے نہیں ہے….’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا۔ ‘‘ سر!کیا آپ کی سالگرہ ہے؟’’ ایک اور طالب علم بولا۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا:
‘‘آپ میں سے ہر ایک کومارکر کا استعمال کرتے ہوئے ا ن غباروں پر اپنا نام لکھنا ہے ’’۔ سب نے پرفیسر کی کہنے پر نام لکھ دئے ۔ اس کے بعد تمام غبارےجمع کرکے دوسرے کمرے میں ڈال دیے گئے۔ آپ پروفیسر نے تمام طالب علموں سے کہا کہ ‘‘اب سب غباروں والے کمرے میں جائیں اور اپنے اپنے نام والا غبارہ تلاش کریں ، دھیان رہے کہ کوئی غبارہ نہ بھٹے اور آپ سب کے پاس پانچ منٹ ہیں۔’’
ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہوئے،دوسروں کو دھکیلتے ہوئے اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگا۔ ایک افراتفری کا سماں تھا۔ سارے غبارے ایک ہی رنگ کے تھے، پانچ منٹ تک کوئی بھی اپنے نام والا غبارہ تلاش نہ کرسکا…. یہ دیکھ کر پروفیسر انصاری نے کہا کہ
اب آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں کوئی بھی غبارہ پکڑ لیں اور اس کے نام والے شخص کودے دیں، دو تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ تمام افراد کے پاس اپنے اپنے نام والے غبارے تھے۔
پروفیسر انصاری کلاس سے مخاطب ہوتے ہوئےبولے:
‘‘بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں اپنے ارد گرد خوشیاں تلاش کر رہا ہے یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کہاں ہیں۔
نوجوانوں…. یاد رکھو…ہماری خوشی دوسروں کی خوشی میں پنہاں ہے، ان کو ان کی خوشی دے دیں تو آپ کو آپ کی خوشی مل جائے گی ۔’’
Mazeed Achi Post k Lia Hamara Facebook Page Like Krn..
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)