ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

غوثِ الاعظم کا تحریر کردہ قصیدہِ غوثیہ

قصیدہ غوثیہ 

   اُردو ترجمہ کے ساتھ
_______________________________
معرفت کے لیٹریچر میں قصیدہ غوثیہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حضرت مولانا شاہ عبدالباقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تزکرۃ الکرام میں لکھا ہے:
قصیدہ غوثیہ عالم وجدو کیف کی ایک صدا ہے جس سے دل راحت محسوس کرتے ہیں۔اس قصیدہ میں سرکار غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ارفع و اعلیٰ روحانی مقامات کا زکر بطور تحدیثِ نعمت کیا ہے "فتوح الغیب" کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ جب حضرت غوث الثقلین اس قصیدہ کے بعض اشعار پڑھتے تو آخر میں ارشاد فرماتے 
"ولافخر و ھٰذا من فضل ربّی"
فضائل و برکاتِ قصیدہ غوثیہ
مولانا سیّد بہاءالدین جیلانی المدنی نے "غنیۃ الطالبین" کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ جو سالکینِ طریقت معمولاً اس قصیدہ کو سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں اُن کے روحانی مَراتِب میں حیرت انگیز ترقی ہوتی ہے۔خوف و ہراس کے موقع پر اس قصیدہ کو پڑھنے سے سکونِ دل کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔
اور خوف و ہراس کے بادل بہت جلد دور ہو جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل قصیدہ غوثیہ اُردو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ شئیر کر کے اس کی برکات اپنے دوست احباب تک پہنچائیں


دعا قبول کیوں نہیں ہوتی

دعا قبول کیوں نہیں ہوتی



ایکسکیوز می سر !۔۔۔طالب علم کی آواز نے  مجھے رکنے پر مجبور کر دیا ۔
کچھ فاصلے سے مجھے ایک طالب علم دوڑتا  ہوا نظر آیا شاید یہ ہی وہ طالب علم ہے جس نے مجھے آواز دی  اتنی دیر میں طالب علم قریب آگیا ۔۔۔۔۔
سر ! سر! آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا  طالب علم کا سانس پھول رہا تھا ۔
پوچھو بیٹا ! لیکن پہلے سانس لے لو  میں آپ کی بات سننے سے پہلے کہیں نہیں جا رہا  ۔میں نے  مسکراتے ہوئے جواب دیا 
سر ! یہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ  القرآن ۴۰ :۶۰
مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا
لیکن دعا قبول نہیں ہوئی میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں سر ! پر میری  دعا قبول نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔اگر کوئی خدا ہوتا تو دُعا ضرور قبول کرتا  خدا نہیں ہے سر ! خدا نہیں ہے سر ! 
۱۷ سال کا نوجوان مایوسی کے گرداب میں ہچکولے کھا رہا تھا  میں نے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا   اور اسے لے کر اپنے   روم کی طرف بڑھ گیا ۔
آج تمہیں ایک قصہ سُناتا ہوں   میں بھی تمہاری عمر میں تھا  جذباتی عمر، مسجد پاپندی سے جاتا تھا  اور بالکل ایسے ہی سوچتا تھا  جیسے آج کا نوجوان سوچتا ہے ۔ بس ادھر ہم دعا کریں اور ادھر پوری ہو نی چاہیے ۔۔۔۔۔لیکن ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا ،کبھی ہو بھی جاتا ہے ۔۔۔۔۔
میں اپنے بابا جی کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج تم میرے پاس آئے ہو ۔
میں نے بھی بابا جی سے وہی شکایت یا شکوہ کیا جو تم نے مجھ سے سوال کیا ہے۔
بابا جی  مسکرا دئیے  بالکل ویسے ہی جیسے تمہارے سوال کے جواب میں،میں مسکرایا  ،مجھ سے کہنے لگے سب کو چھوڑ پتر ! یہ بتا یہ سوال کا جواب میں تجھے دوں یا امام غزالی سے  پوچھے گا۔
میں نے کہا بابا جی ! امام غزالی کا تو انتقال ہوئے صدیا ں بیت گئیں کیا  عالم ِ مراقبہ میں ملاقات ممکن ہے ۔
بابا جی نے کہا : پتر ! رات عشاء بعد میرے پاس آنا  آج تجھے امام غزالی کی بارگاہ میں لے کر چلیں گے ان کے درس کی محفل میں بیٹھیں گے ان کا درس سُنیں گے۔
میں اپنا سوال بھول گیا اور خوشی خوشی گھر واپس چلا آیا کہ آج بابا جی امام  غزالی سے ملاقات کرائیں گے ۔۔۔۔
رات عشاء بعد جب باباجی کے پاس پہنچا تو  بابا جی نے کہا :آؤ پتر آؤ !
میں اور بابا جی بالکل اکیلے تھے میرے سامنے ڈیسک پر امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم موجود تھی ۔
بابا جی  نے مجھ سے کہا : اب تم اپنا سوال دہراؤ
میں نے سوال دہرا دیا  دعائیں قبول کیوں  نہیں ہوتیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ  القرآن ۴۰ :۶۰
مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا
مجھے ایسا لگاکہ میں امام غزالی کی مجلس میں موجود ہوں   امام غزالی فرما رہے تھے  حضرت ابراہیم بن ادھم سے بھی یہ ہی سوال ہوا تھا 
حضرت ابراہیم بن ادہم  نے فرمایا : تمہارے دل مردہ ہو گئے ہیں 
سوال کیا : دل کس چیز سے مردہ  ہو گئے ؟
حضرت ابراہیم بن ادہم نے فرمایا :آٹھ باتوں سے 
سوال کیا وہ آٹھ باتیں کیا ہیں ؟
تم نے اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانا لیکن اس کا حق ادا نہیں کیا 
تم نے قرآن کی تلاوت کی مگر اس کی حدود پر عمل نہ کیا
تم نے اللہ و رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل نہیں کیا 
تم نے کہا ہم موت سے ڈرتے ہیں لیکن اس کی تیاری نہیں کی ۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو تمہارا دشمن قرار دیا لیکن تم نے اس سے موافقت کی 
تم نے کہا ہمیں جہنم سے ڈر لگتا ہے  لیکن اپنے جسم کو اس  میں ڈالنے سے نہیں بچایا 
. تم نے کہا ہمیں جنت پسند ہے مگر اس کے لیے نیک عمل نہیں کیے 
جب تم صبح بیدار ہوتے ہو تو اپنے عیبوں کو پس پشت ڈال کر   دوسروں کے عیب نکالنا شروع کر دیتے ہو 
اب تم خود ہی بتاؤ  تم اپنے رب کو ناراض بھی کرو اور دعا کی قبولیت کی تمنا بھی کرو ؟
احیاء العلوم کے اوراق میرے سامنے  کھلے  ہوئے تھے بابا جی کے ساتھ ساتھ میری بھی آنکھیں نم تھیں تو بیٹا ! جب ہمارے اعمال ایسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔جب ہم اپنے رب کو ناراض کر دیتے ہیں تو پھر  دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
کبھی کبھی اسی طرح بزرگوں کی کتب کھول کر (پڑھنے کے لیے ) بیٹھ جایا کرو اور تصور کرو وہ درس دے رہے ہیں تم سُن رہے ہو  تمہاری رہنمائی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔بس تب سے عادت بنا لی ۔ اکثر مطالعہ یہ سوچ کر کرتا ہوں صاحبِ کتاب میرے سامنے ہیں اور مجھے درس دے رہے ہیں ۔
میں نے  اس نوجوان کو دیکھا پہلے اس کی آنکھیں شدت ِ مایوسی کے سبب نم تھیں اور اب اس کی آنکھوں میں ندامت کے 
موتی چمک رہے تھے ۔۔۔۔۔میرے نوجوان! اپنے رب کے ہو جاؤ کائنات تمہاری ہو جائے گی ۔

محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم



 محبت مصطفٰی ﷺ کی جب بات آتی ہے تو یہ بہت آسان لگتا ہے کہ بیان کردیا جائے.. کیونکہ ایک مومن کا گمان ِ حسن ِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یہی ہوتا ہے.... لیکن جب بیان کرنے لگیں تو معلوم ہوتا ہے ارے.... ہم 

جس اعلی و ارفع ذات مبارکہ کی محبت  بیان کرنا چاہتے ہیں وہ لفظوں میں، وہ جذبوں میں،  وہ صدیوں میں، بیان کی ہی نہیں جاسکتی..... یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس ذات ِ مقدس، نشان ِ ایمان،  شافع ِ مومن کی تعریف بیان کی جسکے 

کیونکہ محبت مصطفٰی ﷺ وہ محبت ہے 

جس کی وجہ سے  کائنات وجود میں لائی گی.. 

زمیں کی چہل، آسماں کی پہل، ستاروں کی چمک، سورج کی دھنک، سمندروں کا شور، دریاؤں کا موڑ، بارشوں کی کِن مِن، اشجار کی چِھن چِھن 

 یہ سب ربِّ باری تعالٰی نے پیدا فرمایا کیوں کس لئے؟؟؟؟؟ 

:فرمادیا حقّ نے پھر 



اے محبوب(ﷺ) اگر میں تمہیں پیدا نہ فرماتا تو یہ کائنات بھی پیدا نہ فرماتا  (حدیث قدسی) 

یا جب میں نے بیان کرنا چاہا محبت رسول ﷺ تو

 چودہ سو سال پہلے  وہ (حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ) جو اپنے بھائی کا گریبان سرِ بازار محبت ِ رسول ﷺ میں پکڑ لیا کرتے تھے..... اور للکارا کرتے تھے  

یا وہ محبت جو حضرت ابو طالب کو یہ کہنے پر مجبور کرتی تھی 

"خدا کی قسم تم لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند رکھ دو تب بھی میں اپنے بھتیجے کی  مخالفت نہ کروں گا

یا وہ محبت جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہلواتی تھی 

"گھر والو کے لیے الله اور اس کا رسول ﷺ کافی ہے"

یا وہ محبت جو صدیقِ اکبر یارِ  غار سانپ کا ڈنگ سہتے رہے اور نیند خراب نہ ہونے کے ڈر سے جنبش نہ کی..... تکلیف ہوئی پر زبان سے آہ نہ نکلی

یا وہ محبت جس کا فیصلہ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ تلوار سے سر قلم کر کہ کیا کرتے تھے اور فرمان ہوتا تھا

جو اللہ کے رسول ﷺ کے فیصلے سے راضی نہیں اس کا فیصلہ میرے نزدیک یہ ہے 

یا وہ محبت محبت ِ مصطفٰی ﷺ جو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو منبر پر قیام کرواکے بیان کرنے پر مجبور کردیتی 


وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشا

اور پھر یہ اشعار رکتے نہ تھے بلکہ، "قصیدہ ِ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بن جاتا تھا 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ  جو حضرت انس کو سخت سرد رات میں بستر سے نکل کر حضور 
ﷺ کی خدمت بجا لانے پر خوشی خوشی تیار کرتی تھی

یا وہ محبت ِ رسول  ﷺ جوحضرت  حنظلة کو ایک رات کی دلہن چھوڑ کر حضور ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے پر مجبور کرتی تھی 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ  کو  شوقِ دیدار رسول ﷺمیلوں کا سفر کروایا کرتا تھا
یا وہ محبت جو شجر ہو یا منبر فراق ِ رسول میں آنسو بہایا کرتی تھی 

یا وہ محبت رسول ﷺ جو امام بخاری علیہ الرحمہ کو بچھو کا ڈنگ برداشت کرنے پر مجبور کرتی  درد کا احساس  کے احساس پر محبت غالب آجاتی.. اور جنبش نہ ہوتی  کہ درسِ حدیث میں مشغول ہوتے تھے 

یا وہ محبت رسول ﷺ جو حضرت امام بو صیری علیہ الرحمہ سے  قصیدہ بردہ شریف لکھواتی تھے اور پھر مبارک ہاتھوں سے بردہ(چادر) عطا فرمائیں 

یا وہ محبت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  جو ترکوں سے پر شوق، وارفتگی عشق سے تعمیر ِِ مکہ و مدینہ کرواتی اور لبوں پر صرف مسکان ہوتی.... کہ ان فضاؤں میں بھی عقیدت گھل جاتی صرف یہ سوچ کر ان مقامات پر ان جگہوں پر میرے نبی ﷺ نے کلام فرمایا، 

یا وہ محبتِ رسول ﷺ جو کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سننے کے لیے میلوں کا سفر سہتے.... اور پھر بھی  پیشانی پر شکن نہیں آنکھوں میں تھکن نہیں ہوتی بلکہ وفورِِ شوق سے پیشانی اور آنکھیں جگمگارہی ہوتیں

یا وہ محبت..جو علامہ اقبال کے  قلم کو وجد میں لے آتا اور  قلم لکھتا جاتا......لکھتا جاتا

کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں 

یا وہ محبت  مصطفٰی ﷺ جسے دیکھ کر آج بھی بنی اسرائیل خوف کھاتے ہیں... 

یا وہ محبت مصطفٰی ﷺ جو عیسائیوں کو سر اٹھانے نہیں دیتی

یا وہ محبت مصطفٰی ﷺ جو ترکھانوں کے، لوہاروں کے، ملکوں کے بیٹوں کو ناموس رسالت ﷺ کا پہرے دار بنادیتی ہے 

یا وہ محبت مصطفی ﷺ جس کے بیدار ہونے سے  دشمنان ِ اسلام  خوفزدہ رہتے ہیں 

یہ تو چند ان طویل طویل احادیث و واقعات کو اختصار سے بیان کیا ہے وگرنہ 

محبت مصطفٰی ﷺ کی مثالوں سے تو اسلام کا دامن بھرا ہوا جو ناممکنِ  بیان ہے لیکن کیا ہم اس محبت مصطفٰی ﷺ کا حق ادا کررہے ہیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا؟؟؟؟ 

جس کے بارے میں خود رب تعالی نے فرمایا 

مَا کَانَ لِاَھلِ الْمدِینَتهِ وَ مَنْ حَوْلھُمْ مِّن الَْعرابِ أَنْ یَّتَخَلَّفوْا عَنْ رَسُوْلِ اللهِ وَ لَا یَرْ غَبُوا بأنفسهم عن نفسهِ

مدینہ والوں اور ان کے گرد دیہات والو کو لائق نہ تھا کہ رسول (ﷺ)  سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں (التوبہ ١٢٠)

یہی نہیں صاف اور صریح حکم ہے کہ 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا 

"تم میں کوئی مومن نہیں ہوگا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ و اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں  ( صحیح بخاری) 

یہاں اختصار کے پیشِ نظر ایک آیت و حدیث سے استفادہ کیا ہے پر سوال تو وہی ہے 

کیا ہم اس تقاضے کو پورا کرہے ہیں یا نہیں؟؟؟ 

سوچنا خود ہے...... آج ہم لوگوں کی ایمانی غیرت و حمیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن افسوس آج ہم اپنی زندگیوں میں اس قدرمصروف ہوگئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر افسوس اور چند لائنوں کے اظہار کے علاوہ کوئی عملی ثبوت نہیں رہا دینے کے لیے..... اور نہ ہی حکومت کے پاس وقت کہ مومنوں کی جان، مومنوں کے ایمان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کے خلاف کچھ کریں.... یا تعلیم مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں حکومت و عوام ہو... 

صرف اتنا کہوں گی فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ 
محبت مصطفی ﷺ
کا عملی ثبوت دیتے ہوئے نظام مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو نافذکریں اپنی زندگیوں میں تعلیم مصطفی  ﷺ کو لازم کریں کہ کل روز ِ آخرت کو شفاعت مصطفیﷺ بھی حاصل ہو 

آخر میں صرف اتنا ہی 

میری تحریر میں الفاظ شایان شان ِ جان عالم  رحمت اللعالمین  ﷺنہیں

میں محبت بیان نہیں کرپائی...... مگر میری تحریر کی عظمت اس نامِ اعلی و بالا سے ہی 

 "محمدﷺ"

قرطاس کے چہرے پر اک لفظ لکھا میں نے
اس لفظ کی خوشبو۔۔۔ سے ہر چیز معطر ہے
اس لفظ کی کرنوں ۔۔۔۔ سے ہر چیز منور ہے
وہ لفظ مکمل ہے ۔۔۔۔ وہ لفظ محمد ﷺ ہے

صلی اللہ علیہ وسلم

ازقلم:      درصدف الایمان  

کلچر،ثقافت،رسم و رواج شریعت كی نظر میں


ثقافت،کلچر،رسم و رواج اگر اسلام مخالف نا ہوں تو جائز ہیں

:حدیث مبارک میں ہے کہ

حلال وہ ہے جسکو اللہ نے(قرآن و حدیث کے ذریعے) حلال فرمایا اور حرام وہ جسکو حرام قرار دیا،اور جس کے متعلق حلال یا حرام کا حکم نہیں وہ معاف ہے) جائز.و.مباح ہے.......ترمذی حدیث 1726)
لٰہذا کلچر ڈے کے معاملات،نظریات و مقاصد رسم و رواجات سب کو اسلامی اصولوں پے پرکھا جائے گا.. جو اسلام.مخالف  ہوگا مردود کہلائے گا ورنہ جائزہے

:آیات اور اس قسم کی احادیث کی بنیاد پر علماء کرام فرماتے ہیں کہ
رسم کا اعتبار جب تک کسی فساد عقیدہ پر مشتمل نہ ہو اصل رسم کے حکم میں رہتا ہے،اگر رسم محمود ہے محمود ہے، مذموم ہو مذموم ہے،مباح ہو مباح ہے
(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ119)

جس ثقافت جن رسم و رواج میں اسلامی اصولوں کی پاسداری نا ہو وہ ٹھیک نہیں، ایسے رسم و رواج ایسی ثقافت کہ محض اس لیے ادا کی جائے کہ یہ تو ہمارے آباء و اجداد کرتے آ رہے ہیں یہ تو ہماری قومی شناخت ہے، اسلام کی حدودوتعلیمات کا لحاظ نا رکھا جائے تو ایسی ثقافت ایسے رسم و رواج کی اسلام میں شدید مذمت ہے

:القرآن..ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ ان(عقائد و اعمال اور احکامات) کی طرف جو اللہ نے نازل کیے اور آؤ رسول کی(ہدایات و تعلیمات کی) طرف تو کہتے ہیں "ہمیں تو وہ(نظریات، وہ اعمال، وہ ثقافت، وہ رسم و رواج) کافی ہیں جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہےاگرچے ان کے آباء و اجداد کچھ علم نا رکھتے ہوں اور ہدایت والے نا ہوں(پھر بھی اپنے باپ دادا کے نظریات ثقافت اعمال کی پیروی کرنے کا کہتے ہیں)
(سورہ مائدہ آیت104)

یہ تو ہوئی رسم و رواج ثقافت کے متعلق اصولی بات....اب آئیے غور کریں کہ کیا موجودہ مروجہ کلچر ڈے منانے میں اسلامی حدود و تعلیمات کا لحاظ رکھا جاتا ہے.....؟؟
میڈیا میں ، خبروں میں جو سنتے ہیں پڑھتے ہیں اس کے مطابق تو اسلامی حدود و تعلیمات کا لحاظ نظر نہیں آتا بلکہ ناچ گانے ڈھول ڈھماکے بے پردگی وغیرہ مختلف غیراسلامی کام ہوتے ہیں... لٰہذا اس طرح کلچر ڈے منانا تو ہرگز جائز نہیں...جو کلچر جو رسم و رواج اسلام کے اصولوں کے مطابق نا ہوں انہیں رد کر دینا ضروری ہے، انہیں بدلنا ضروری ہے، انہیں اسلامی اصول و تعلیمات کے مطابق و موافق کرنا ضروری ہے۔

تحریر: علامہ عنایت اللہ حصیر

کلچر ڈے اگر شرعی تقاضوں کر مد نظر رکھتے ہوے منایا جاے تو شرعا اس میں حرج نہیں, لیکن ہم نے دیکھا کہ کچھ تہواروں میں ہندو بھی ہوتے ہیں جو اس تہوار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں, اور مل جل کر یہ تہوار مناتے ہیں, تو ایسا تہوار کہ جو فقط قومیت کے نام پر منایا جائے اور جس میں مزھب کی تمیز ختم ہوجائے ممنوع قرار پاے گا۔
(ادارہ)

معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار کون۔۔۔۔؟

معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار کون۔۔۔۔؟

تحریر: درصدف الایمان 



بیٹا تمہارا رشتہ تمہاری پھپو کے یہاں کرنے کا سوچا ہے، فیصل کی والدہ نے فیصل کو بتایا ٹھیک ہے امی تابعداری سے سر جھکالیا، دونوں طرف سے بات چیت ہوگئ، رشتہ طے پاگیا شادی دو سال بعد ہونا قرار پائی اس عرصے میں، فیصل جو کہ اچھی جاب تو کرتا تھا ہی پر گھر کرائے کا تھا، ارادہ امید تھی کہ شادی سے پہلے کرائے کے گھر سے جان چھوٹ جائے.... اور اپنی کوشش میں بفضل اللہ کامیاب بھی ہوگیا، سسرال سے شادی کے لیے دباؤ بڑھنے لگا ، بہرحال شادی کی تاریخ طے ہوگئ، ایک طرف گھربنانے کی مد میں لیا گیا قرض تھا دوسری طرف دور حاضر کے مطابق شادی دھوم دھام سے ہونے کا تقاضہ، فیصل چاہتا تھا خیریت و سادگی کے ساتھ سنت پر عمل ہوجائے،  فیصل کی یہ سوچ کہ سادگی سے نکاح ہوجائے بنا کچھ جہیز میں لیے.....سسرال کے تقاضوں ، آنے بہانوں سے یہ بتانا  بارات کیسی اور کتنی شاندار آئے، بری میں کیا کیا ہو، شادی و ولیمہ کے دلہن کے جوڑے کسی بوتیک سے ہی لیے جائیں ایک طرف ہوگئ ..... 

تب غور کیا..... جہیز تو یوں ہی بدنام ہے بری کے نام پر بھی اچھا خاصا سودا کیا جاتا ہے، لڑکیوں کو ہر دور میں مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے  اصل مظلوم تو بے چارہ لڑکا ہے کبھی یہ سوچا ہے  کہ 25، 30 ہزار کی سیلری لینے والا لڑکا، گھر بنائے، اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کرے، اپنی بہنوں کی شادیاں کرے، 
، اور بات میری وہی پرانی بہنیں بھی ایک سے لے کر آٹھ، نو تک ہوسکتی ہیں....... 
اپنے ارمان تھوڑے کم کریں، سوچ بنانے والے ہم ہی ہوتے ہیں، ایک ایسا شخص پھر ایسی سوچ کیوں  نہ رکھے کہ بیوی کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پلس بہنوں کے جہیز میں بھی مدد مل جائے... اس میں اس سے زیادہ ہمارا خود کا ہی قصور ہے،... اور یہ سوچ لڑکوں سے زیادہ لڑکوں کی ماؤں کی ہوتی ہے. نہ آج کی ماں بیٹی کو جہیز کم دینا چاہتی نہ بہو کے جہیز میں کمی چاہتی سب کی بات نہیں کروں تب بھی اسی فیصد معاملہ ایسا ہی ہے.... 
معاشرے میں شادی کو مشکل آج کے دور میں مشکل بنانے والے لڑکے لڑکی سے زیادہ والدین ہیں... 
وہ غریب ہے، نوکری پکی نہیں، گھر اپنا نہیں، اور کچھ نہیں تو  ہماری برادری کا نہیں اور ٹھیک ایسا ہی لڑکی کے معاملے میں، خوبصورت نہیں، لمبی نہیں، لمبی بہت ہے، ہنستی برے طریقے سے ہے، نخرے بہت ہیں، 

یہ سب خوبیاں خامیاں بتانے والے خود ماں باپ ہوتے ہیں، اس فرمان سے بے گانہ ہوکر کہ نکاح محبت پیدا کرتا ہے. اور نصیب رب العالمین بناتا ہے، تھوڑی سوچ بدلیں ورنہ چوتھی کلاس سے لیکر آٹھویں کلاس تک کے بچے Love letters لکھنے، میٹرک کے کے بچے خود کشی، کالج کے ڈیٹ پر جانے، اور یونیورسٹییز کے چور راستے ڈھونڈنے تو  لگ گئے ہیں... پھر معاشرے کی اس خرابی کا رونا، رونا بھی چھوڑدیں....
اللہ کرے میری بات دلوں میں اتر جائے آمین

درسِ حدیث شریف

موضوع : فضائل سیدالمرسلین


حدیث پاک


روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی فرمایا جبکہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۱ ؎ 


شرحِ حدیث


۱؎ یعنی جب کہ حضرت آدم کے جسم میں روح پھونکی نہ گئی تھی اس وقت ہم نبی تھے۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ہم علم الٰہی میں نبی تھے کہ اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ ہم نبی ہوں گے کیونکہ اللہ تعالٰی تو تمام انبیاءکرام کی نبوت کو جانتا تھا پھر اس میں حضور کی خصوصیت کیا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کی نبوت کا اعلان اس وقت ہوچکا تھا،فرشتے حضور پر کروڑوں سال سے درود پڑھ رہے تھے،تمام روحوں کے سامنے سارے نبیوں سے حضور پر ایمان لانے،آپ کی نصرت و مدد کرنے کا عہد و پیمان لیا گیا تھا"وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثٰقَ النَّبِیّٖنَ"الخ۔عرش اعظم،آسمان،جنت کے محلوں،دریچوں میں،وہاں کے درختوں کے پتوں پر،حوروں کی پتلیوں میں،فرشتوں کی آنکھوں میں،غلمان کے سینوں پر، طوبیٰ کے غنچہ و گل میں حضور انور کا نام لکھ دیا گیا تھا،ان شاءالله ہم لوگ بھی وہاں جاکر یہ ساری بہار اپنی آنکھوں دیکھیں گے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ عالم ارواح میں حضور سارے نبیوں کے نبی تھے،آپ ان کی روحوں کو تعلیم و تربیت دیتے تھے،سارے نبی حضور کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرکے دنیا میں تشریف لائے اور حضور سے سیکھے ہوئے علوم مخلوق کو سکھائے۔(اشعۃ اللمعات) اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے۔چنانچہ ابن سعد نے اور ابو نعیم نے حلیہ میں،طبرانی نے کبیر میں حضرت ابن عباس سے یوں روایت کی کنت نبیا و آدم بین الروح والجسد،امام احمد نے اور بخاری نے اپنی تاریخ میں اور حاکم نے اور ابونعیم نے دلائل میں حضرت ابوہریرہ سے مرفوعًا روایت کی کنت اول النبی فی الخَلق واخرھم فی البعث ہم پیدائش میں تمام نبیوں سے پہلے ہیں بعثت میں سب کے بعد،دانہ درخت سے پہلے زمین میں جاتا ہے اور آخر میں وہ ہی دانہ نمودار ہوتا ہے،ہم نے عرض کیا ؎باغ رسالت کی ہیں جڑ اور ہیں بہار آخری مبداء جو اس گلشن کے تھے وہ منتہی یہ ہی تو ہیںخیال رہے کہ جسمانی نبوت کے لیے شرط ہے کہ نبی انسان ہوں اور انسانی سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوجاتا ہے، روحانی نبوت کے لیے یہ شرط نہیں۔لہذا اس فرمان عالی پر یہ اعتراض نہیں کہ نبی انسان ہونے چاہئیں،اس وقت حضور صفت انسانیت سے موصوف نہ تھے،یا یوں کہو کہ انسانیت کے لیے اولاد آدم ہونا ضروری حضرت بی بی حوا انسان ہیں مگر اولاد آدم نہیں،یوں ہی جو مخلوق جنت بھرنے کے لیے پیدا کی جاوے گی وہ انسان ہوگی مگر اولاد آدم نہ ہوگی لہذا اس وقت بھی حضور انسانیت کی صفت سے موصوف تھے۔
مرآۃالمناجیح

درسِ حدیث شریف

موضوع : فضائل سیدالمرسلین

حدیث پاک

روایت ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے شاید انہوں نے کچھ سنا تھا ۱؎ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے فرمایا میں کون ہوں۲؎ لوگوں نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں،فرمایا میں محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ہوں اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے اچھوں میں سے بنایا۳؎ پھر ان اچھوں کی دو جماعتیں کیں تو مجھے ان کے اچھے فرقہ میں سے بنایا۴؎ پھر ان اچھوں کے کئی قبیلے کیے تو مجھے اچھے قبیلے میں بنایا۵؎ پھر ان اچھوں کے گھر بنائے تو مجھے اچھے گھر والوں میں بنایا ۶؎ تو میں ان سب میں اچھی ذات والا۷؎ اور اچھے گھر والا ہوں۸؎ 
(ترمزی شریف)

شرح


۱؎ بعض بدباطن منافقوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب و حسب شریف پر کچھ طعنہ کیا تھا جیسے آج عیسائی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جناب ہاجرہ کی نسل سے ہیں اور حضرت ہاجرہ بی بی سارہ یا حضرت ابراہیم کی لونڈی تھیں،اس کی تحقیق ہم پہلے کرچکے ہیں۔حضرت عباس کو یہ طعن سن کر بہت صدمہ ہوا اور حضور انور سے اس کی شکایت کی۔
۲؎ حضور انور نے اس کا جواب صرف حضرت عباس کو نہ بتایا بلکہ مجمع میں کھڑے ہوکر سب کو سنایا تاکہ مسلمان آئندہ ایسے اعتراضات کے جوابات دے سکیں۔اپنے متعلق لوگوں سے سوال فرمایا تاکہ لوگ جواب دیں اور ان کے دل میں یہ بات اتر جائے۔
۳؎ جناب عبد المطلب سارے عرب میں عظمت و عزت و شرافت میں مشہورومعروف تھے۔غالبًا معترضین نے کہا تھا کہ نبوت ہم کو ملنی چاہیے تھی تب حضور نے یہ فرمایا۔عرب تمام جہان سے افضل ہے حضور انور کو عرب میں پیدا فرمایا،یا یہ مطلب ہے کہ ساری مخلوق میں انسان افضل،مجھے انسانوں میں سے بنایا انسانیت کو حضور سے فخر ہوا۔۴؎ یعنی انسان دو قسم کے ہیں: عرب و عجم،ان میں عرب افضل ہیں مجھے عرب میں پیدا فرمایا۔
۵؎ یعنی عرب کے بہت سے قبیلے بنائے سب سے بہتر قریش ہیں مجھے قریش میں پیدا فرمایا۔۶؎ یعنی قریش میں بہت سے خاندان و بطن بنائے سب خاندانوں میں بنی ہاشم افضل ہیں مجھے بنی ہاشم سے پیدا فرمایا۔
۷؎ یعنی اللہ تعالٰی نے مجھے ذاتی شرافت بھی بخشی اور خارجی و بیرونی شرافتیں بھی،بنی ہاشم افضل ہیں مجھے بنی ہاشم سے پیدا فرمایا ہے"لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ"بعض قرأت میں انفسکم میں ف کا فتحہ بمعنی نفیس ترین بہترین،یعنی تم میں وہ رسول تشریف لائے جو تم سب میں سب سے زیادہ نفیس اور شریف ہیں۔
۸؎ خیال رہے کہ عرب میں چھ طبقات ہوتے ہیں: شعب،قبیلہ،عمارہ،بطن،فخذ،فصیلہ،حضور ان چھ طبقات میں سے بہترین میں تشریف لائے۔خیال رہے کہ ہمیشہ انبیاءکرام اعلٰی نسب اونچے خاندان میں تشریف لاتے رہے جیساکہ ہرقل والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔بہترین شکل،بہترین آواز،بہترین اخلاق سے موصوف ہوتے ہیں،کشش والی ہر چیز اللہ انہیں بخشتا ہے۔یہ بھی خیال رہے کہ نبوت محض اللہ تعالٰی کے فضل سے ملتی ہے اس میں کسب کو یا کسی اور شرف کو دخل نہیں،ہاں جسے رب نے نبوت دی اسے ہر طرح اشرف بنایا،رب فرماتاہے:"اَللہُ اَعْلَمُ حَیۡثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ"اور فرماتاہے:"وَاللہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ"حضور انور تو نبیوں کے سردار ہیں بعد خدا تمام مخلوق سے بہتر آپ ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔
مرآۃالمناجیح

لبرل ازم کا ہولناک انجام

لبرل ازم کا ہولناک انجام

تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

شاہ زیب عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا  ۔
گرل فرینڈ سے شادی نہیں کرنی اور جس سے شادی کرنی ہے اسے گرل فرینڈ نہیں بنانا ۔لڑکے عموما یہ ہی سوچتے ہیں ۔
شاہ زیب سے کالج ہی کے زمانے میں ہی مجھے محبت ہو گئی تھی  ۔۔۔۔ اس نے مجھ ہی کو گرل فرینڈ بنایا اور مجھ ہی سے شادی بھی کی ۔۔۔۔میں بھی شاہ زیب کی طرح براڈ مائینڈ ،روشن خیال اور لبرل تھی ۔۔۔۔۔دقیانیوسیت اور مولویوں سے مجھے اللہ واسطے بیر تھا ۔۔۔
ہم نے جو خواب دیکھے انہیں پانا اس زمانے میں مشکل ہی ناممکن بھی  تھا اور آج تو شاید نا پید ہو چکے مگر شاہ زیب  جتنا اچھا شادی سے پہلے تھا شادی کے بعد بھی اتنا اچھا ہی ثابت ہوا ۔۔۔۔۔وہ مجھے ہر جگہ گھمانے لے جاتا اپنے دوستوں سے بھی ملواتا ۔۔۔۔میں نے کہا نا ! ہم روشن خیال ، براڈ مائنڈ اور لبرل تھے ۔۔۔۔
میری زندگی کو برباد اسی روشن خیالی ، براڈ مائنڈ اور لبرل سوچ  نے کیا۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب میں شاہ زیب کے نکاح میں آئی تھی ۔۔۔۔ہر رات شبِ براءت اور ہر دن یوم ِعید تھا ایک دن شاہ زیب مجھے اپنے باس سے ملوانے اپنے آفس لے گئے   گر چہ وہ مجھ سے میری شادی میں بھی مل چکے تھے ۔شاہ زیب کے باس مجھ سے بہت اچھے انداز میں ملے میری خوبصورتی اور میک اپ نے انہیں گھائل کر دیا تھا ۔۔۔۔آپ کی خوبصورتی سے کوئی شخص گھائل ہو کر آپ کے قدموں میں  گر جائے ۔۔۔۔۔
شاہ زیب کے باس نے کہا :شاہ زیب !میری سیکریٹری کی پوسٹ تو خالی ہے میم اگر راضی ہو ں تو انہی کو رکھ لیا جائے ۔۔۔ 
لیکن میں نے معذرت کر لی ۔
شاہ زیب نے انہیں گھر آنے کی بھی دعوت دی  بلکہ یوں کہیے گھر پر  کھانے کی دعوت دے ڈالی  جو شاہ زیب کے باس نے بخوشی و رغبت قبول کر لی ۔
شاہ زیب کے باس    جب گھر آئے  تو ان کی نگاہوں میں موجود پیغام مجھے  سمجھ آرہا تھا عورت کو اللہ تعالیٰ نے یہ کمال کی حس دی ہے وہ مرد کی  خبیث نگاہوں کو با آسانی سمجھ لیتی ہے ۔۔۔۔
پھر رفتہ رفتہ انہوں نے مجھ سے مراسم بڑھانے کی کوشش کی ایک دن صاف صاف لفظوں میں کہا : شاہ زیب کی ترقی ،تنخواہ میں اضافہ ، گاڑی اور فلیٹ لینے میں اگر میں ان کی مدد کروں تو  اگلے دن ہی یہ سب چیزیں شاہ زیب کے پاس ہوں گی ۔۔۔۔
لیکن یہ میں کیسے کر سکتی تھی ۔۔۔مجھے اس دن اس شخص ے بہت گھن آئی اور میں صاف انکار کرکے گھر آگئی ۔
ایک ہفتہ ساتھ خیریت کے گزرا اور اس کے بعد شاہ زیب کو غبن کے الزم میں آفس سے نہ صرف نکال دیا گیا بلکہ اس کی ایف آئی آر بھی کٹوا دی گئی ۔۔۔۔مقدمہ بازی آپ جانتے ہیں نا ! غریبوں کے بس کی بات کہاں ؟ آہستہ آہستہ زیور بکا چیزیں بکیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہو ا آخر میں باس نے پھر آفر کی اور  شاہ زیب کی امی شاید ممتا سے مجبور تھیں کہنے لگیں اپنے شوہر کو بچانے کے لیے یہ قربانی دے دو ۔۔۔۔۔۔
میں سوچنے لگی کیا  شوہروں کی ترقی کے دروازے قیمتِ عصمت پر کھلیں گے ؟
لبرل ازم کی  اس غلاظت نے مجھے یہ کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔شاہ زیب گھر آگئے لیکن شاید میں دربدر ہو گئی ۔۔۔۔باس کی فرمائشوں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ان کے دوستوں تک طویل ہو گیا اور جب شاہ زیب کو یہ ساری خبر ہوئی تو شاہ زیب نے مجھے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔قصور وار کون ؟
شاہ زیب ؟میں ؟یا پھر باس 
آج جب  بہت دنوں کے بعد قرآن کی تلاوت کی تو مجھے اپنے سوال کا جواب مل   گیا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  احزاب  59
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں  اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
 میری پیاری بہنو!
میں نے اپنے رب کی بات کو ٹال دیا تھا میں ستائی گئی اور اس حد تک ستائی گئی کہ زندگی ایک روگ بن چکی ہے۔۔۔۔۔تم ایسا مت کرنا ،یہ پردہ تمہاری حفاظت کا ضامن ہے ۔۔۔۔جب حفاظت کی شیٹ یا جیکٹ آپ خود اتار کر پھینک دیں گی تو پھر زخم بھی لگے گا اور شاید موت بھی ہو جائے ۔۔۔۔۔لبرل ازم اور روشن خیالی کی بیماری بہت عام ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔
خدارا  ! اسے مولوی  کا مسئلہ نہ سمجھیے یہ آپ خواتین  کی حفاظت پر مبنی اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کا نظام ہے ۔۔۔۔۔

اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے | از: نادر رضا حسنی نوری

اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے 
دیسی لبرل ملحدین کے زاتِ باری پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر مبنی ایک بہترین تحریر


(تحریر "اللہ خالق کل شئ"  کے موضوعات)

1. خلائی مخلوق کی شرعی اور سائنسی حیثیت.
2. کائنات کی وسعت اور حقائق.
3. زمین کی خصوصیت.
4. سیارہ مریخ پر نماز روزے کی ادائگی.
5 پانی پینے کے اداب اور سائنس.
6. بارش اور سائنسی.
7. سیاروں کی حرکت.
8. پوری کائنات اور علم مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.

دنیا میں سب سے زیادہ جس مزھب کے خلاف سازشوں کے جال بچھاے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف مزھب اسلام ہے, کہ اگر اس قدر اندرونی اور بیرونی سازشیں کسی اور مزھب کے خلافت کی جاتیں تو یقینا وہ مزھب دنیا سے مٹ جاتا, مگر اسلام چونکہ اسے اللہ نے قیامت تک باقی رکھنا ہے, ان تمام تر فتنوں کے باوجود آج تک اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا, جس طرح اسلام کو اندرونی فتنے, اور سازشیں لاحق ہیں,جیسے باطل فرقے, اسی طرح بیرونی خطرات بھی ہیں, جیسے باطل مزاھب, ان میں سب سے عروج پر جو فتنہ ہے وہ الحاد کا ہے,الحاد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں, عام طور پر یہ لوگ اللہ تعالی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے, اور جب انسان خدا کا ہی منکر ہوجاے تو پھر نبی, مزھب, اور آسمانی کتابوں کو محض انسانی خیالات شمار کرتا ہے, کیونکہ عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کا رد کیا جاے, چونکہ ملحدین کتاب و سنت کو نہیں مانتے اس لیے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انکا رد کریں, اس لیے فقیر کی یہ خواہش ہے کہ اہل علم حضرات کی توجہ اس طرف مبزول کرائ جاۓ, ان شاء اللہ ہماری یہ تحریر بچوں کے لیے کہانی ہے طلباء کے لیے معلومات ہے, اور اہل علم حضرات کے لیے دعوت فکر ہے...
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن  و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے,  جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)

اب سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں کوئ بھی چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ؟ یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟ 
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئی؟
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟ 
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا؟ 
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ
 اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود  وجود میں نہیں آسکتا؟ 

ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو  انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کیں, جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ,پھر زمین پر مناسب کشش ثقل رکھی,اگر کشش ثقل بڑھ جاے تو انسان قدم بھی نہ اٹھا سکے گا,جیسے کہ سورج کی کشش ثقک زیادہ ہے,زمین پر اگر کسی کا وزن ایک کلو ہے تو سورج پر اس کا وزن 28 کلو ہوگا,  اور اگر کشش ثقل کم ہوجاے تو انسان کا چلنا پھرنا مشکل ہوجاے,اور وہ اڑتا رہے جیسے چاند پر,مختصر یہ کہ زمین پر انسانی زندگی کے واسطے ہر ضرورت مہا کی اور اسے اعتدال میں رکھا,جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے؟ 
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائی مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ﴿۱﴾
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائی مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے؟ تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائی مخلوق اگر جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں,اور جانوروں جیسی کوی مخلوق ہوی تو مکلف نہیں, اس سے آگے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:

يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ 
(النور,45)

اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے  ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائی ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائی مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ 
"اللہ ہر چیز کا خالق ہے"

چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ  یہ دھماکے کا نتیجہ ہے, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, یہاں ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجائےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جائے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے؟ 
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیچرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,دور حاضر میں اس سیارے کو نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا.
یہ نو سیارے سورج کہ گرد گردش کررہے ہیں, زمین سورج کے گرد تیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتی ہے,اور ایک چکر 365 دن میں مکمل کرتی ہے,  ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف  آٹھ منٹس انیس سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے؟ کیا یہ خود چلتی ہے؟ جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی...
یہ ہمارا شمس نظام کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy)  بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے (سورج) ہیں, یہ اللہ تعالی کی کامل قدرت ہے کہ یہ تمام سیارے اور ستارے آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں, ادھر سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینکڑوں سالوں تک سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں ہے, کیا یہ محض اتفاق ہے؟ 
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,اور ملکی وے سے پچیس لاکھ (25,00,000) نوری سال کے فاصلے ہر ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"

" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".

خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...

دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا سے مٹ جاۓ, اس مقصد کے لیے انھوں نے مخصوص افراد کو خرید کر اسلام میں اندرونی اور بیرونی سازشوں, اور فتنوں کا جال بچھایا ہوا ہے, روز نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں, دوسری طرف عوام ہے جو دنیاوی فکروں میں گم ہے, ایسے وقت میں اہل علم حضرات پر تمام زمہ داریاں آجاتی ہیں, اور وہ انھیں پورا بھی کررہے ہیں, مگر ہم نے اندازہ لگایا کہ بہت سے طلبہ اور کافی اہل علم حضرات رفع الیدین جیسے مسئلوں میں الجھے ہوے ہیں, یقینا اس قسم کے لوگوں کی تعداد کافی پھیلتی جارہی ہے, اور یہ ایک بڑا فتنہ بھی ہے, لیکن ہمیں یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیۓ, ہمارے نزدیک اہل بدعت کے بعد سب سے بڑا فتنہ لبرل ازم ہے, کہ جس نے بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے, ہم اصاغر اور اماثل اہل علم حضرات کو یہ فکر دینا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام میں نئے عقیدے اور نئے مسئلے وضح کیۓ آپ ضرور ان کا رد کریں مگر اس پچھلے راستے سے بے خبر نہ رہیں, یہ راستہ الحاد کا راستہ ہے, اور الحاد کو شکست دینے کے لیۓ آپ کو کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ سائنس کی دنیا میں بھی قدم رکھنا ہوگا.
کیوں؟ 
 اس لیے کہ الحاد کے رد کے لیۓ آپ کے پاس کتاب و سنت کے ساتھ عقلی دلائل اور سائنسی نولج ہونا بھی ضروری ہے, پچھلے حصوں میں ہم نے کائنات کی وسعتیں بیان کی تھیں, اور یہ بیان کیا تھا کہ صرف زمین پر ہی مکمل طور پر زندگی ممکن ہے, کیونکہ زمین ان اربوں کھربوں سیاروں میں وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں زندگی کی تمام ضروریات اور ایک مناسب ماحول موجود ہے, جو کہ دوسرے معلوم سیاروں پر اب تک نہیں پایا گیا, یقینا یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے, اور زمین میں موجود تمام اشیاء میں جو ربط ہے وہ یقینا اپنے خالق کی طرف اشارہ کرتا ہے, ہم یہاں پانی اور بارش سے متعلق چند حقائق بیان کرینگے, اور یہ ثات کرینگے کہ بارش وجود الہی کی قرآنی اور عقلی دلیل ہے، پہلے ہم پانی کو لے لیتے ہیں, کسی بھی سیارے کی تحقیق میں سب سے پہلے اس سیارے پر ہوا اور پانی تلاش کیا جاتا ہے, چاند کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہاں ہوا اور پانی موجود نہیں, سیاروں کے اپنے چاند ہوتے ہیں,انھیں سیارچہ بھی کہا جاتا ہے, ہماری زمین کا ایک چاند ہے جو عام طور پر آسمان میں نظر آتا ہے, جب کہ مرکری اور وینس کے کوی چاند نہیں.مارس کے دو چاند ہیں, کہا گیا ہے کہ زمین کا دوسرا چاند دریافت ہوا ہے جو 300 فٹ چوڑا ہے, واللہ اعلم, جوپیٹر کے 63 چاند ہیں, سیچرن کے 62 چاند ہیں, یورینس کے 27 چاند ہیں, نیپچون کے 13 چاند ہیں اور پلوٹو کے 2 چاند ہیں, یہ فقط نظام شمسی میں موجود 9 سیاروں کے چاند ہیں, جبکہ صرف ملکی وے میں  سترا ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں, ان کے چاندوں کی تعداد وہی جانے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے, زمین کے چاند میں دن میں سخت گرمی اور رات میں سخت سردی ہوتی ہے,چنانچہ دن میں چاند کی سطح کا درجہ حرارت 104 سینٹی گریڈ ہوتا ہے, اور رات میں منفی 121, لھزہ وہاں زندگی ممکن نہیں, تحقیق کے مطابق چاند کی روشنی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین پر آتی ہے,جو کہ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ 1:15 میں زمین تک پہنچ جاتی ہے,  حیرت ہے آسمان پر چمکتے چاند اور سورج کو دیکھ کر ملحدین کو خدا یاد نہیں آتا, جب کہ 100 volts کے بلب کے بارے میں کہتے ہیں اس کا موجد ایڈیسن تھا...  زمین میں کثرت سے پانی پایا جاتا ہے, اور ہوا بھی, پانی دو حصے ہائٹروجن اور ایک حصہ آکسجن سے مل کر بنتا ہے, اور زندگی کی بنیادی ضرورت ہے, نا صرف انسان بلکہ جانوروں اور پودوں کی بھی ضرورت ہے, اسلام وہ واحد مزھب ہے جس نے پانی پینے تک کہ آداب بیان فرماۓ ہیں, جسے نبی کریم علیہ السلام کی سنت کہا جاتا ہے, اور یوں ہی نہیں بلکہ آج سائنس نے تسلیم کیا کہ پانی پینے کے وہ آداب عبث نہیں بلکہ حکمت سے بھرے ہیں, چنانچہ بیٹھ کر  تین سانسوں میں پانی پینا سنت ہے, اور آج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے گردے خراب ہونے کا اندیشہ ہے,اور ایک ہی سانس میں پینے سے معدہ اور آنتیں کمزور ہوجاتی ہیں,  جب ہم پانی پیتے ہیں تو ہماری سانس کی نالی خود بخود بند ہوجاتی ہے, جس سے خون تک آکسیجن پہنچنا بند ہوجاتی ہے, اگر ایک ہی سانس میں پانی پیا جاۓ تو خون میں خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں, اور جب ہم سنت کے مطابق تین سانسوں میں پانی پیئنگے تو آکسیجن میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی, یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یہ تمام تحقیقات موجود نہیں تھیں, مگر کتاب و سنت نے وہ حقائق بیان فرما دیے تھے جسے آج سائنس تحقیق کے بعد تسلیم کررہی ہے, تو ثابت ہوا کہ حق وہی ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے.
فلسفہ کائنات کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں ہم نے کائنات کے چند حقائق بیان کر کے اللہ تعالی کے خالق ہونے کو ثابت کیا تھا, اور زمین کی ایک مخصوص شے پانی کے حوالے سے اسلام کے مقرر کردہ اصول بیان کر کے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا تھا, اب ہم بارش سے متعلق وہ حقائق بیان کرینگے کہ ملحدین کے لیے کوئی راہ باقی نہ رہے گی, یہ بارش اللہ تعالی کے وجود, قدرت اور خالق ہونے کی ایک دلیل ہے, آج جب بارش ہوتی ہے, تو دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھر جاتی ہیں, بچے بڑے تقریبا سب ہی بارش میں نہانے کا شوق رکھتے ہیں, اور انسانوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی سر سبز و شاداب ہوکر لہلہارہے ہوتے ہیں, اور مومن و کافر, موحد و ملحد سب خوش نظر آتے ہیں, مگر منکر غور نہیں کرتے کہ یہ ان کے رب کی ایک نشانی ہے, فرماتا ہے :

پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ''.
(الروم ، 30:48)

گویا کہ ملحد کا بارش میں دلی خوشی محسوس کرنا خود اس پر ہی حجت ہے....

اب یہ دیکھتے ہیں کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟ 
تو جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق سمندر سے کروڑوں ٹن پانی بخارات کی صورت میں جمع ہوجاتا ہے, ہوا ان بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے,  یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں, انہی بدلوں کی رگڑ سے بجلی پیدا ہوتی ہے, جو ہمیں آسمان کی طرف فورا دیکھای دیتی ہے لیکن اس کی آواز کچھ دیر سے سنای دیتی ہے,اس کی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے, چنانچہ روشنی کی رفتار 300,000 کلو میٹر, یا 1,86000 میل فی سیکنڈ ہے, جبکہ آواز کی رفتار 343 میل فی سیکنڈ ہے. پھر ایک اور ہوا ان بادلوں کو ہر طرف پھیلا دیتی ہے, اسے مونسون کہا جاتا ہے, سائنس نے آج بعد از تحقیق بتایا کہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات کو ہوا اوپر لے کر جاتی ہے, اور اللہ تعالی نے اس مرحلے کو قرآن میں اس وقت بیان فرمایا کہ جب سائنس غلبا ماں کے پیٹ میں تھی, اللہ تعالی نے فرمایا:

وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (1فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (2فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (3فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (4)
" قسم انکی جو بکھیر کر اڑانے والیاں, پھر بوجھ اٹھانے والیاں, پھر نرم چلنے والیاں, پھر حکم سے بانٹنے والیاں.
(سورة الذریت, پارہ 26) 

 یہاں حملت وقرا سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں, یہی بادل اگر زیادہ بلندی پر چلے جائیں تو ٹھنڈ سے جم جاتے ہیں اور زمین پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں گرنے لگتے ہیں جسے ہم برف باری کہتے ہیں, اور یہی بادل اگر بلندی کے بجاے زمین پر آجائیں تو اسے دھند کہا جاتا ہے, آگے فرمایا کہ نرمی سے چلنے والیاں یعنی وہ ہوائیں جو بادلوں کو لیے پھرتی ہیں, یا وہ کشتیاں کہ جسے تم صرف اور صرف اپنے رب کے سہارے سمندر میں چھوڑتے ہو فرمایا نرمی سے چلتی ہیں,
آگے فرمایا حکم سے باٹنے والیاں.

سائنس نے بارش پر تحقیقات کر کے بارش کے مختلف مراحل کو معلوم کیا, لیکن ایک مرحلے میں اب تک سائنس بے بس ہے کہ بادل تو ہر جگہ آتے ہیں مگر بارش کہیں ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی, قادر مطلق اللہ رب العلمین نے فرمایا فالمقسمت امر کہ یہ تو تمہارے رب کا حکم ہے جہاں چاہتا ہے برساتا ہے.
اور یہ اللہ تعالی کی کمال قدرت ہے کہ سمندر سے بھاپ بن کر اٹھنے والا کھاری پانی جب برستا ہے تو میٹھا ہوتا ہے, برسنے والے بادل زمین سے تقریبا  بارہ سو 1200 میٹر بلندی پر ہوتے ہیں, اور زمین کی طرف آتے ہوے بارش کے قطروں کی رفتار پانچ سو اٹھاون (558) کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے, اگر برش اسی رفتار سے برسے تو بستیاں, کھیتیاں سب برباد ہوجاے لیکن قادر مطلق کی قدرت دیکھیۓ اس نے ایسا نظام بنایا کہ بارش کے قطروں کی مخصوص بناوٹ اور ہوا سے لگنے والی رگڑ کے سبب ان کی رفتار انتہای کم اور مناسب ہو جاتی ہے, تو جب برستی ہے تو نرم اور خوش گوار محسوس ہوتی ہے.

 رب عالمین خالق کائنات فرماتا ہے :

"کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس  کے برسانے والے ہم ہیں ؟
(واقعہ,68-70)

حاصل کلام یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت قبول کر لینی چاییے, اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بندہ ہے...
ملحدین دنیا کے تمام باطل مزاھب کو چھوڑ کر آج فقط اسلام پر سوالات کی برسات کررہے ہیں, اب ان کے سوالات جیسے بھی ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات دینا اہل علم کی زمہ داری ہے, اور ان اعتراضات اور سوالات کو صرف گستاخی کہہ کر چھوڑ دینا آنے والی نسلوں کے ایمان خطرے میں ڈالنا ہے,اور یقین رکھو کہ اسلام پر اٹھنے والے جس اعتراض اور سوال کا جواب آج تم نہیں دوگے کل وہی سوال تمہاری آنے والی اولاد سے کیا جاے گا, تو اہل علم حضرات کی اس طرف توجہ دلانے کے واسطے فقیر نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے, گزشتہ دنوں ملحدین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ 2024 میں 100 افراد کا ایک گروپ سیارہ مریخ (Mars) پر جاے گا, جس کی واپسی کا امکان نہیں ہے, ان سو افراد میں ایک مسلمان بھی ہے تو بتاو وہ مسلمان سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کیسے کرے گا کیا اسلام میں اسکا کوی حل موجود ہے؟ 

تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں اسلام میں اسکا حل موجود ہے, لیکن اس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیارہ مریخ ( Mars) کیسا ہے اور کہاں ہے؟ 
ہمارا سورج جو آسمان پر دکھائی دیتا ہے اس کے نو سیارے ہیں, جو مختلف رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں, اسے نظام شمسی کہا جاتا ہے,تاہم نویں سیارے کو اب نظام شمسی میں شمار نہیں کیا جاتا. سورج سے سب سے قریب جو سیارہ ہے وہ عطارد (Mercury) ہے, جو کہ سورج سے پانچ کروڑ اناسی لاکھ (5,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور اڑتالیس (48) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہا ہے, اس کے بعد سیارہ زہرہ (Venus) ہے جو سورج سے دس کروڑ بیاسی لاکھ (10,82,00,000) کلو میٹر دور ہے, اور پینتیس (35) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے,اس کے بعد نیلا سیارہ ہے جیسے زمین کہا جاتا ہے, یہ سورج سے پندرہ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھانوے ہزار (15,95,98,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور تیس (30) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے,قرآن میں ہے:

 إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ
ترجمہ: " بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے"
(الفاطر41)

اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ زمین ساکن ہے, بلکہ مطلب یہ ہے زمین اپنے محور سے باہر نہیں جاسکتی...
 زمین کا ایک دن عام طور پر بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (365) دنوں کا, اس کے بعد سیارہ مریخ (Mars) ہے, جسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے, یہ سورج سے بائیس کروڑ اناسی لاکھ (22,79,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اور چوبیس (24) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے, اور سورج اہنے نو سیاروں کو لے کر ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے, جس کا ایک چکر پچیس لاکھ 
(25000,000) سال میں پورا ہوتا ہے, قرآن میں ہے:

وَهُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِىْ فَلَكٍ يَسْبَحُوْنَ
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے بناے رات اور دن اور سورج اور چاند, ہر ایک ایک گھیرے میں تیر رہا ہے".

(الانبیاء,33)

ان مزکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کے یہ چاند سورج وغیرہ ایک دائرے میں گردش کررہے ہیں, اور اس سے باہر نہیں نکل سکتے...
 سیارہ مارس کا ایک دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے, اور ایک سال (687) دنوں کا ہوتا ہے, عام طور پر اس کی سطح کا درجہ حرارت منفی 55 c ہوتا ہے, اور دوپہر میں 20 c تک ہوسکتا ہے,مارس زمین سے تقریبا سات کروڑ اٹھتر (7,78,00,000) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے, اب تک کی تحقیق کے مطابق مارس پر پانی کے امکانات موجود ہیں, اللہ تعالی نے فقط زمین کو انسانی زندگی کے لیے بنایا, اور زندگی کے تمام لوازمات یہاں پیدا کیے, ہماری کائنات میں زمین جیسے اربوں کھربوں سیارے ہیں مگر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد ہوا :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ 
" اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں".
(سورہ بقرہ)

تو تمام سیاروں کو چھوڑ کر فرمایا فی الارض,معلوم ہوا زمین کو زندگی کے واسطے بنایا گیا ہے,اور انسان صرف زمین پر موجود ہے, اب کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کرنا اور وہاں دنیا آباد کرنے کی سوچنا محض ایک سائنسی خواہش ہے...
 آج سائنس عروج پر جارہی ہے, اور سائنس دانوں کے مارس پر جانے کے ارادے ہیں,  وہاں جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے, بہر حال ہم اپنے جواب کی طرف پلٹتے ہیں, مارس پر اگر بلفرض انسان پہنچ جاتا ہے, اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو وہیں نماز ادا کرنی ہوگی,  پس اگر زمین نظر آجاتی ہے تو نماز پڑتے وقت زمین کی طرف منہ کیا جاے گا کہ خانہ کعبہ زمین پر ہے,بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان اگر ملکی وے سے باہر کسی کہکشاں کے کسی سیارے پر چلاجاے تو اس وقت بھی نماز پڑھتے وقت ملکی وے کہکشاں کی طرف منہ کرےگا کہ زمین اسی میں ہے, اور اصل قبلہ کہ جو فضا ہے اسکا تعین وہاں مشکل ہے, پھر اگر زمین نظر نہ آے تو اس کا حکم زمین پر اس جگہ کی مثل ہے کہ جہاں قبلے کا تعین نہ ہوسکے اور کوی بتانے والا نہ ہو, اسی طرح جب مارس پر زمین نظر نہ آے اور کوی ایسا آلہ بھی نہ ہو جو کعبہ کی سمت بتا سکے تو چاہیے کہ تحری کرے, یعنی غور و فکر کرے اور جس طرف غالب گمان ہو کہ زمین اس طرف ہے تو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھے, پھر اگر زمین کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوی سوار ہو اور قبلہ رخ نہ ہوسکے تو اسکا حکم یہ ہے کہ جہاں ہوسکے منہ کر کے نماز پڑھ لے کہ مشرق و مغرب سب اسی کے ہیں...
مارس کا ایک دن 24 گھنٹے 37 منٹس کا ہوتا ہے, تو وہاں روزہ رکھا جا سکتا ہے..
ملحدین نے کہا مارس سے واپس آنا ناممکن ہے تو حج کیسے ہوگا,ہم کہتے ہیں کہ حج صاحب نصاب پر دیگر تمام شرائط کی موجودگی میں زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے,جو پہلے ہی زمین پر ادا کیا جاسکتا ہے, رہی زکوة تو مارس پر تمام افراد ضرورت کی اشیاء ہی لے کر جائیں گے,لھزہ زکوة فرض نہ ہوی.اس کے علاوہ اس میں مزید تفصیل بھی ہے جو ہم وقت پڑنے پر بیان کرینگے..
یہ تمام وضاحت ہم نے صرف اس لیے بیان کی تاکہ ملحدین پر واضح ہوجاے کہ تنگی ان کی فکر میں ہے اسلام میں بڑی وسعت ہے..

پچھلے صفحات میں ہم نے سیارہ مارس پر نماز روزے کی ادائگی کے بارے میں بتایا تھا, جو کہ فقط ملحدین کے اعتراض کا جواب تھا ورنہ ہماری تحقیق کے مطابق سائنس دان ابھی تک چاند پر بھی نہ جاسکے ہیں, جو کہ زمین سے (3,84,400) کلو میٹر دور ہے, جبکہ سیارہ مارس (7,78,00,000) کلو میٹر دور ہے, تو وہاں کیوں کر جاسکتے ہیں؟ 
اب ہم اپنے اس موضوع کو سمیٹے ہیں, اور اپنی دیگر تحقیقاتی تحاریر کو مختلف عنوان اور مختلف نام کے ساتھ منظر عام پر لائنگے...آخر میں ہم اپنی تحریر اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ یہ کائنات بہت وسیع ہے اس میں اربوں کھروں سیارے اور ستارے ہیں, جیسا کہ پہلے گزرا کہ ملکی وے کہکشاں میں سترا ارب سیارے اور ایک کھرب ستارے (سورج) ہیں, اور پھر کہکشائیں لاکھوں کروڑوں ہیں, اس مقام پر مجھے مشکاة کی وہ حدیث یاد آتی ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ کیا آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمر کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں, سوچنے کی بات ہے آج 2017 کے جدید دور میں بھی سائنس مکمل ستاروں کی تعداد معلوم نہ کرسکی, تو جس عمر کی نیکیوں تک ہماری رسای نہیں اس کے مقام تک کون پہنچ سکتا ہے؟ 
عرض کی کہ پھر ابو بکر؟ 
فرمایاعمرکی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابرہے,معلوم ہوا  پوری کائنات بھی ابو بکرکی نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتی,اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک جتنے لوگ آے اور آئنگے حضور سب کے اعمال سے واقف ہیں,اور کائنات میں کتنے ستارےہیں حضور جانتے ہیں,  اور منکرین نے کہا نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں, بخاری نے کہا نبی نظر اٹھاے تو اپنے حوض کوثر کو دیکھ لیتے ہیں, اب حوض تو ساتوں آسمان سے اوپر ہے, معلوم ہوا اللہ کے نبی اگر توجہ فرمائیں تو کائنات تو رہی محدود آسمانوں سے اوپر بھی دیکھ لیتے ہیں یہی حاضر ناظر کا معنی ہے.....

ازقلم : نادر رضا حسنی نوری