ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

چکنائی سے جگر کےامراض ،،،ضرور پڑھیں


چکنائی سے جگر کے امراض

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ چکنائی سے بھرپور کھانے جگر کو متاثر کرتے ہیں لیکن اب ماہرین نے مضر چکنائیوں کے صرف ایک کھانے کے جگر پر اثرات کو بھی نوٹ کیا ہے اور بتایا ہے کہ چکنائیاں صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں

غذائی ماہرین کے مطابق اگر آپ کے معمول میں چکنائیوں بھرے مرغن کھانے زیادہ ہوتے ہیں تو اس سے الکوحل کے بغیر بھی جگر پر چکنائی اور دیگر امراض کے شکار ہونے کا خدشہ بہت بڑھ جاتا ہے، اس مرض کو نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز کہا جاتا ہے جس میں شراب نہ پینے والوں کے جگر میں بھی چربی جمع ہوتی رہتی ہے

یہ بیماری عام طور پر چالیس یا پچاس سال کی عمر میں پیدا ہوتی ہے اور خصوصاً موٹے لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے لیکن یہ مرض جگر کو خراب کر کے اسے ناکارہ بنا دیتا ہے یہ مرض جگر میں چکنائیوں کے بھرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور ذیابیطس اور امراض قلب کی وجہ بن سکتا ہے

ماہرین کے مطابق مختلف چکنائی والے کھانوں سے ہی نہیں بلکہ چکنائیوں سے بھرا صرف ایک کھانا بھی جگر پر اثرانداز ہو کر اس میں انسولین کی حساسیت اور میٹابولزم کو تبدیل کر دیتا ہے اور جگر کے امراض کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے خوراک میں چکنائی کی مقدار ہمیشہ کم رکھنے کی ضرورت ہے

مزید اچھے اچھے مضامین کے لیے ہماری بلاگ سائٹ ویزٹ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔شکریہ

🌍... *کیا ایسا زمانہ لوٹے گا....؟؟* ...🌍


اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ....!!
 یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے .....!!
 بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی.......!!۔
لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ” *میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا* ،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔......!!
 اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں۔......!!
 کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ” مہمانوں “ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںلبے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ، مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی.....!!
 جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا ، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔۔.......!!
 شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا، جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے، محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔.......!!
 کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دُکھ ایک جیسے تھے ......!!
 سب غریب تھے، سب خوشحال تھے، کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔دوکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا ۔‬
 ....کاش پھر وہ دن لوٹ آئیں.....؟؟
__________________________________
وہ دن آئیں گے نھیں ان کو لانا پڑیگا
دلوں کی چھپی نفرتوں کو مٹاناپڑیگا
کچے گھر باپ کا ڈر وہ قلم دوات
ہم کو بس تھوڑا پیچھے جانا پڑیگا

امریکہ کے ایک ملحد ڈاکٹر نے اسلام کیوں قبول کیا ؟ ایمان ا فروز

اس کا نام ڈاکٹر لارنس براؤن تھا وہ ایک کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ھوا تھا 
 مگر بقول اس کے وہ ھوش سنبھالنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی عیسائی نہیں رھا تھا وہ ملحد ھو گیا تھا ، وہ کسی خدا کا قائل نہیں تھا ،،، 
 وہ نہ صرف امریکہ کا بہترین ھارٹ اسپیشلسٹ تھا بلکہ پورے بر اعظم امریکہ میں شاید اس کے مقابلے کا کوئی ڈاکٹر نہیں تھا ، وہ دنیا بھر میں لیکچر دیتا پھرتا تھا ، اس کی ڈیوٹی امریکہ کے بہترین اسپتال میں تھی جہاں رونالڈ ریگن کو گولی لگنے کے بعد فوری طور پہ شفٹ کیا گیا تھا ، اس سے اس اسپتال کی اھمیت اور سہولیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔
 مگر یہی اھم ترین اسپتال اور اس کی سہولیات ایک دن اس کے سامنے بے بس و لاچار سر جھکائے کھڑی تھیں ،،
یہ سال تھا 1990 جب اس کے گھر اس کی دوسری بیٹی حنا Henna پیدا ھوئی ،، 
 بچی کو لیبر روم سے سیدھا آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا کیونکہ وہ ابنارمل پیدا ھوئی تھی ، اس کی ایک آرٹری میں نقص تھا جس کی وجہ سے اس کے بدن کو آکسیجن ملا خون نہیں مل پا رھا تھا اور وہ سر سے پاؤں کے انگوٹھے تک " Gun Metal Blue" پیدا ھوئی تھی ،، 
 بقول ڈاکٹر صاحب میں خود ڈاکٹر تھا اور مجھے پتہ تھا کہ میری بچی کے ساتھ کیا مسئلہ ھے ، اس کا بدن مر رھا تھا کیوں کہ اسے آکسیجن ملا خون نہیں مل پا رھا تھا ،، اس کا علاج یہ تھا کہ اس کی چیر پھاڑ کر کے آرٹری کی گرافٹنگ کر کے اسے ری پلیس کیا جائے ،، مگر پہلی بات یہ کہ اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں تھی ، دوسری بات یہ کہ اگر یہ گرافٹنگ کامیاب بھی ھو جائے تو بھی سال دو سال بعد پھر گرافٹنگ کرنی ھو گی یوں زیادہ سے زیادہ دو سال کی زندگی لے کر میری بیٹی آئی تھی اور اس وقت اس کی جو حالت تھی اس میں ،،، میں بطور باپ تو اس کو چیر پھاڑ نہیں سکتا تھا اس کے لئے ایک نہایت لائق ڈاکٹر کی سربراھی میں ایک ٹیم بنا دی گئ جو اپنا ساز و سامان اکٹھا کرنے میں لگ گئ اور میں آپریشن تھیٹر کے ساتھ ملحق " کمرہ استغاثہ " یا Prayer Hall" میں چلا گیا !! 
 کمرہ فریاد میں کسی مذھب کی کوئی نشانی یا مونو گرام نہیں تھا ،، نہ کعبہ ، نہ کلیسا ،نہ مریم و عیسی کی تصویرنہ یہود کا ڈیوڈ اسٹار نہ ھندو کا ترشول الغرض وہ ھر مذھب کے ماننے والوں کے لئے بنایا گیا کمرہ تھا ۔ جہاں وہ آپریشن کے دوران اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعا مانگتے تھے ،جب تک کہ ان کا مریض آپریشن تھیئٹر سے منتقل کیا جاتا ،، 
اس سے قبل ڈاکٹرلارنس کے لئے یہ کمرہ ایک "Psychological Dosee " کے سوا کچھ نہیں تھا مگر آج اس کی اپنی جان پر بن گئ تھی ،، 
بقول ڈاکٹر لارنس ،، 
 میں نے آج تک جو چاھا تھا اسے ھر قیمت پر حاصل کر لیا تھا ،، چاھے وہ پیسے سے ملے یا اثر و رسوخ سے " نہ اور ناممکن " جیسے الفاظ میری ڈکشنری میں ھی نہیں تھے مگر آج میں بےبس ھو گیا تھا نہ تو سائنسی آلات و وسائل کچھ کر سکتے تھے اورنہ ھی میرا پیسہ میری بچی کی جان بچا سکتا تھا ،، 
میں نے ھاتھ اٹھائے اور اس نادیدہ ھستی کو پکارا جس کے وجود کا میں آج تک منکر تھا ۔
اے خالق ، 
 اگر تُو واقعی موجود ھے تو پھر تُویہ بھی جانتا ھو گا کہ میں آج تک تیرے وجود کا منکر رھا ،، مگر آج میری بیٹی مجھے تیرے در پہ لے آئی ھے ، اگر واقعی تیرا وجود ھے تو پلیز میری مدد فرما ،، 
 اسباب نے جواب دے دیا ھے اب میری بچی کو اگر کوئی بچا سکتا ھے تو صرف اس کا بنانے والا ھی بچا سکتا ھے ، وھی اس فالٹ کو درست کر سکتا ھے جس نے یہ بچی تخلیق فرمائی ھے - 
 اے خالق میں صدقِ دل کے ساتھ تجھ سے وعدہ کرتا ھوں کہ اگر تو میری بچی کا فالٹ درست فرما دے تو میں سارے مذاھب کو اسٹڈی کر کے ان میں سے تیرے پسندیدہ مذھب کو اختیار کر لوں گا اور سارے زندگی تیرا غلام بن کر رھوں گا ،، 
یہ میرا اور تیرا عہد ھے ،، 
میں نے صدق نیت سے یہ پیمان کیا اور اٹھ کر آپریشن تھیئیٹر میں آیا،، 
مجھے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ لگے ھونگے ،،
 مگر جب میں آپریشن روم میں آیا تو وھاں کی بدلی ھوئی فضا کو میں نے ایک لمحے میں محسوس کر لیا ،، 
 وھاں افراتفری کی بجائے سکون و اطمینان تھا ، ٹیم کے سربراہ نے سر گھما کر مجھے دیکھا اور بولا بچی کے آپریشن کی اب کوئی ضرورت نہیں خون کا دوران درست ھو گیا ھے اور اس دورانِ خون کے درست ھونے کی جو سائنٹیفک وجوھات وہ بتا رھا تھا ،،،، 
 میں نے سراٹھا کر باقی ٹیم ممبران کی طرف دیکھا میرے سمیت ان میں سے کسی کی آنکھوں یا چہرے پر ان وجوھات پر یقین کا ایک فیصد بھی نہیں تھا ، 
ھمیں معلوم تھا کہ یہ صرف باتیں ھیں ان میں حقیقت نام کو نہیں ،، 
البتہ مجھے پتہ تھا کہ میرا ایگریمنٹ خالق کی طرف سے Endorsee کر لیا گیا ھے اور آرٹری کی خرابی اسی خالق نے جھٹ سے درست کر دی ھے ، اس سے پہلے میری پہلی بیٹی کی بار بھی ایک سگنل مجھےخالق کی طرف سے ملا تھا جو مثبت تھا ،،
 اسی وجہ سے میں نے اسے معمولی سمجھا ،،میری پہلی بیٹی کرسٹینا نے پیدا ھونے کے بعد اسی دن میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی دونوں ٹانگوں پہ کھڑا ھو کر مجھے حیران کر دیا ،، 
ڈاکٹر حضرات اچھی طرح جانتے ھیں کہ ایسا ھونا ناممکن ھے ،،
 مگر میں نے اس نا ممکن میں خالق کو نہ پہچانا تو دوسری بیٹی کے ناممکن نے مجھے باندھ کر خالق کے در پہ لا ڈالا ،،
20144 میں میری بیٹی نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ھے !! مجھے اپنا معاہدہ بڑی اچھی طرح یاد تھا ، میں نے دنیا کے تمام مذاھب کی کتب کو پڑھنا شروع کیا 
 بدھ ازم ، ھندو ازم ،عیسائیت اور یہودیت سمیت تمام کتب بھی پڑھیں اور ان کے علماء سے مزاکرے بھی ھوئے مگر میرے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ،، 
اسلام میرا آخری آپشن تھا ،، 
میں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا اور میرے دل و دماغ کے دریچے کھُلتے چلے گئے ،، 
 میں نے عیسائیوں اور یہودیوں سے بار بار سوال کیا کہ یحی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے ساتھ وہ تیسرا کون ھے جس کی گواھی تورات بھی دیتی ھے اور انجیل بھی دیتی ھے ، مگر وہ آئیں بائیں شائیں کرتے تھے ، 
 قرآن نے مجھے جواب دیا کہ وہ تیسری ھستی محمد رسول اللہ ﷺ کی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
For More Post Click Here

ایصال ثواب کی فضیلت

 طبرانی اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جب کوئی شخص میت کو ایصال ثواب کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام اسے نور کے طباق میں رکھ کر قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں۔ اے قبر والے! یہ ہدیہ تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے۔ قبول کر یہ سن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی پر غمگین ہوتے ہیں"۔
ایصال ثواب (یعنی ثواب پہنچانا اس کےلئے دل میں نیت کرلینا کافی ہے مثلا آپ نے کسی کو ایک روپیہ  خیرات دیا یا ایک بار دورود شریف پڑھایا کسی کو ایک سنت بتائی یا "نیکی کی دعوت" دی یا سنتوں بھرا بیان کیا الغرض کوئی بھی نیکی کا کام کیا۔ آپ دل ہی دل میں نیت کرلیں مثلا "ابھی میں نے جو سنت بیان کی اس کا ثواب سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پہنچے"۔ ان شاء اللہ عزوجل ثواب پہنچ جائے گا مزید جن جن کی نیت کریں گے ان کو بھی پہنچے گا۔ دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے جیسا کہ ابھی حدیث سعد رضی اللہ عنہ میں گزرا کہ انہوں نے کنواں کھدوا کر فرمایا "یہ ام سعد کیلئے ہے"۔
 جتنوں کو ایصال ثواب کریں اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملے گا۔ یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ملے۔ (ردالمختار) فتاوٰی رضویہ جلد نہم مع تخریج ص601
 ایصال ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ امید ہے کہ اس نے جتنوں کو ایصال ثواب کیا ان سب کے مجوعے کے برابر ثواب ملے۔ مثلا کوئی نیک کام کیا جس پر اس کو دس نیکیاں ملیں۔ اب اس نے دس مردوں کو ایصال ثواب کیا تو ہر ایک کو دس دس نیکیاں پہنچیں گی اور ایصال ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ہزار کو ایصال ثواب کیا تو اس کو دس ہزار دس۔ (ملخص ااز فتاوٰی رضویہ) بہار شریعت جلد اول حصہ چہارم ص89
 بلکہ اللہ عزوجل اس سے زیادہ پر بھی قادر ہے۔


حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی دعا


حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اکثر اپنے خطبے کا آغاز اس دعا سے فرمایا کرتے تھے۔
’’اے پروردگار!
 امام اور امت، حاکم اور محکوم دونوں کو صلاحیت نصیب کر ۔۔۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال ۔۔۔ انہیں نیکی کی توفیق دے اور ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رکھ ۔۔۔
اے مولا!
 تو ہمارے مخفی رازوں سے مطلع ہے، ان کی اصلاح کر ۔۔۔ تجھے ہمارے گناہوں کی خبر ہے، انہیں
معاف فرما ۔۔۔ تو ہمارے عیبوں سے آگاہ ہے، اُن کی پردہ پوشی فرما ۔۔۔ تو ہماری ضرورتوں کو جانتا ہے، انہیں پورا فرما ۔۔۔ جن باتوں سے تو نے ہمیں منع کیا ہے، انہیں*کرنے سے ہمیں*محفوظ رکھ ۔۔۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے احکام کے پابند رہیں ۔۔۔ ہمیں اپنی اطاعت و عبادت کی عزت نصیب کر اور گناہوں کی ذلت میں نہ ڈال ۔۔۔ اپنے ماسوا سے ہمیں اپنی طرف کھینچ لے ۔۔۔ جو تجھ سے ہمیں*دور کرے، اسے ہم سے دور کر دے ۔۔۔ ہمیں اپنا ذکر کرنے کا طریقہ سکھا اور صبر و شکر کی توفیق دے ۔۔۔ اور اطاعت و عبادت میں ہمیں خلوص و یقین نصیب کر ۔۔۔
اے پروردگار!
 ہم بھول جائیں یا ہم سے قصداً کوئی خطا ہو جائے تو درگزر فرما اور ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال جتنا کہ تو نے ہم سے پچھلی امتوں پر ڈالا تھا۔
اے مولا!
 جس بات کی ہم میں طاقت نہ ہو اس میں تو ہمیں*مجبور نہ کر ۔۔۔ ہم سے نرمی فرما اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور اپنا فضل و کرم ہمارے شامل حال رکھ۔ تو ہی ہمارا مالک اور حقیقی مددگار ہے ۔۔۔ تو کافروں پر ہماری مدد فرما‘‘.......۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ﻭﮦ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ. ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﻣﯽ ﭘﺮ ﺟﻤﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ. ﺍﺩﮬﺮ ﺍﻣﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﻏﺎﻓﻞ ﮬﻮﺋﯽ. ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﭨﯽ ﻟﭙﭧ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺘﻠﻮﻥ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﻟﯽ. ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺋﯽ. ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ. ﻭﮦ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﯽ .ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ. ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ. ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺧﺒﺮ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺍﭼﮭﻠﺘﯽ ﮐﻮﺩﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ. ﺟﺐ ﻭﮦ ﺳﮑﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ,, ﺩﻋﺎ,,ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ. ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ.
ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﺳﺮﮎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ  ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﻨﮯ ﻟﮕﯽ. ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯿﺎﮞ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ. ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ، ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ. ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﭦ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﮐﺖ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ .ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﯽ .ﺑﺎﻗﯽ ﻭﻗﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ .ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺋﯽ. ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺑﺠﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮬﻮﺍ. ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﭙﮑﮯ. ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ. ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ. ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ .ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ .ﻭﮦ ﺑﭽﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﯽ .ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﻧﮕﺎﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺘﻠﻮﻥ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ. ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﮕﻤﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ .ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺻﺒﺮﯼ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﻟﮯ ﭼﺒﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. ﺑﭽﯽ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ. ﻣﮕﺮ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﺘﮭﺮ ﮬﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ.ﻭﮦ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺯ ﮔﺸﺖ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.
,,ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ,, ﻣﻨﯽ,, ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﮯ,,...
,,ﮐﯿﻮﮞ...ﮐﯿﺎ ﮬﻮﺍ ,,...
 ,,ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮍﮮ ﮬﯿﮟ...ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﮑﻮﻝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ. ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﺳﮯ,,.... ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﮭﯽ.
,,ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ,,...
,,ﮐﯿﻮﮞ...ﮐﯿﺎ ﮬﻮﺍ,,....
,,ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﭨﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ,,.... ﯾﮧ ﮐﻼﺱ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯽ.....
ﻭﮦ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﺍ. ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﺟﮭﮑﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ.
,,ﺍﺑﻮ ﺟﯽ... ﺍﺑﻮ ﺟﯽ,,... ﮐﮩﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﻣﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ.
,,ﮐﭽﮫ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ,,... ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ.
,,ﮬﺎﮞ....ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ. ﺩﺭﺩ ﺩﻝ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﮬﮯ,,..
 ﺍﺑﻮ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﮭﺮ ﺁﯾﺎ. ﻣﻨﯽ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ.

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو             ورنہ اعطاعت کیلیے کم نہ تھے کروبیاں


ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ....

ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻟﻨﺪﻥ ﭘُﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﺯﺍﻧﮧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺍُﻧﮑﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔
 ﻟﻨﺪﻥ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺑﻌﺪ, ﻟﮕﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﮩﯽ ﺭﻭﭦ ﭘﺮ ﺑﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
 ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ, ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
 ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ, ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﮦ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﭺ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ, ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ !!!
 ﭨﺮﺍﻧﺴﭙﻮﺭﭦ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺍﻥ ﺑﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮐﻤﺎﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ, ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ? ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
 ﺑﺲ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺭُﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍُﺗﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ, ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﻣُﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
 ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮨﯿﮟ? ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﺱ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺭﻗﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﯾﮧ ﭘﺮﮐﮫ ﺳﮑﻮﮞ۔
 ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺲ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍُﺗﺮﺍ, ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﻧﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ, ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﻤﺒﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﺎ, ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩُﻋﺎ ﮐﯽ, ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ, ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔
یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔
 اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻛﻨﻮﺍﮞ ﻛﮭﻮﺩﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮔﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ

ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :
 ﯾﺎﺭ ! ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻫﯿﮟ ﻧﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ؟؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭﮞ؟
 ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺟﻠﺪﯼ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ہیں، ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﻟﺠﮭﺎ ﺩﮮ، ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﯿﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﻭﻗﺖ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ .
 ... ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ! ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ. ﻭﮦ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ، ﻭﮦ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮮ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺑﮭﺎﻟﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻛﺘﮯ ﺭﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔... ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺿﻤﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ جھنجھوﮌﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﻨﺎ ﻏﻠﻂ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ؟
ﻧﺪﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺣﻀﺮﺕ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺠﺌﮯ .
ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ؟
 ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ . ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ، ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﯿﮟ . ﺁﭖ ﺟﻠﺪﯼ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ ......
 ... ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﮯ . ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ! ﺑﮍﯼ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﺲ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ؟ ﻧﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﻦ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﮯ ...
 ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ،ﯾﮧ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻧﮑﻼ؟؟ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟ .. ﺟﺐ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ،ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ سے ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
 ﮔﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺌﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺪﮐﺮﺩﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻮﺙ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ" ﺍﻭﺭ ﺳﭽﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﺮﮮ۔ ﻭﺭﻧﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻛﻨﻮﺍﮞ ﻛﮭﻮﺩﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮔﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ۔۔

ﻧﮕﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺩﯾﮑﮭﯽ

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﻏﻮﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺴﻢ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺟﺒﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺟﺒﮧ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﺩﻡ ﻟﻮں گا۔ ﺍﺱ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﭼﻮﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﮔﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ، ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﻏﻮﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﭻ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ- ﭼﻮﺭ ﮐﻮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ- ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮔﯿﺎ ﺟﺒﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﮑﮍﺍ- ﺍﺑﮭﯽ ﭼﻮﺭ ﺩﺍﻣﻦ ﮐﮭﯿﻨﭽﻨﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ  ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﯾﮧ پرﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﻠﻤﮧ ﻧﮑﻼ- ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺗﮭﺎﻣﺎ ﮨﮯ، ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﭘﺎﺋﮯ۔ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﭼﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ- ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻭﻻﯾﺖ ﮐﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭﻻﯾﺖ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔
ﻧﮕﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺩﯾﮑﮭﯽ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺩﯾﮑﮭﯽ
 ﻳﺎ ﺷﻴﺦ ﺳﯿﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﺎﺩﺭﺟﯿﻼﻧﯽ ﺷﯿﺌﺎﻟﻠﮧ

ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
 ﺍﻟﻠﻪ ﻛﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺪﮮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﮧ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﻟﯿﮑﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺗﺒﮯ ﭘﺮ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ،
 ﯾﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﻦ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﻨﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺟﻠﻮﮦ ﮔﺮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ.
ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ 3527 ﺟﻠﺪ 4
 ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ

ایمان پر خاتمہ


جو مسلمان حضرت خضر علیہ السلام کا پورا نام "ابوالعباس بلیا بن ملکان" یاد رکھے گا، ان شاء اللہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا
تفسیر صاوی  3/17

ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﻭﻣﯽ ﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
 ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﻠﺤﺎﺀ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﺘﺎﺭ ﺍﻟﻌﯿﻮﺏ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﯿﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﯿﺐ ﮐﻮﻥ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ
ﮔﺎ؟ ...
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﻭﻣﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
 ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﻨﮑﮭﮍﯼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﮯ ...
ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ نیچے ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ...
 ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﺍﻥ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ، ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﺎﻟﺺ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻧﮧ ﻟﯽ ﮨﻮ ...
 ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﮍﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻮ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ ﺟﮍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ...
 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...

Click Here For More Post

امیر خسرو کا خوبصورت واقعہ

حضرت امیر خسرو حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام لدّین کے مرید تھے
ایک بار حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ اے خسرو ہر جمعرات کے دن حضرت بو علی قلندر کے ہاں محفل ہوتی ہے آپ اس محفل میں شرکت کیا کیجئے پیرومرشد کا حکم تھا حضرت امیر خسرو نے جانا شروع کر دیا ایک جمعرات کی محفل میں حضرت بو علی قلندر نے فرمایا اے خسرو ہم نے کبھِی اللہ کے نبی کی کچہری میں تمہارے شیخ محبوبِ الٰہی کو نہیں دیکھا یہ بات سن کر حضرت امیر خسرو بہت پریشا ن ہوگئے
۔آپکو اپنے شیخ سے بے حد محبت تھی اور جیسا کہ ہر مرید کو اپنے شیخ پر بے حد مان ہوتا ہے امیر خسرو کو بھی تھا آپ کافی پریشان رہنے لگے ایک دن حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا اے خسرو پریشان دکھتے ہو عرض کی ۔نہیں سیّدی ایسی کوئی بات نہیں مگر شیخ نے مرید کے بے چین دل کا حال جان لیا تھا پھر پوچھنے پر سارا ماجرا بتا دیا تو اس پر حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کے اگلی بار جب حضرت بو علی قلندر ایسا کچھ فرمائیں تو ان سے عرض کرنا کہ آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی کچہری میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لو٘ں گا حضرت امیر خسرو بہت خوش ہو گئے کچھ دن بعد پھر حضرت بوعلی قلندر نے ایسا ہی فرمایا تو آپ نے کہا حضرت آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی کچہری میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لوں گا توحضرت بو علی قلندر مسکراۓ اور آپکے سینے پر ہاتھ رکھا تو جب آنکھِ بند کی تو دل کی آنکھ کھل گئی اور امیر خسرو بارگاہِ محبوبیت یعنی بارگاہِ رسالت میں پہنچ گئے ۔اور پہںچ کر ہر ولی اللہ کا چہرا دیکھنے لگے مگر حضرت محبوبِ الٰہی نظر نہ آئے اتنے میں اللہ کے حبیب علیہ سلام نے فرمایا اے خسرو کس کو تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں ۔قربان جائیں آقاعلیہ سلام نے فرمایا اس سے اوپر والی کچہری میں جاؤ تو آپ اس سے اوپر والی کچہری میں چلے گئے وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے حضرت امیر خسرو پھر ہر اللہ کے ولی کا چہرہ دیکھنے لگے مگر آپ کو آپ کے شیخ نظر نہ آئےپھر اللہ کے حبیب نے فرمایا خسرو کسے تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں فرمایا اس سے اوپر والی کچہری میں جاو ۔اسطرح کرتے کرتے امیر خسرو ساتویں کچہری جوکہ آخری کچہری ہے تک پہنچ گئے اور ہر ولی کا چہرا دیکھنے لگے ہر منزل کے ساتھ ساتھ اتنے دن کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی۔وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے اور آپکے بلکل قریب ایک بزرگ تھے اور انکے بلکل پیچھے ایک اور بزرگ تھے آقاعلیہ سلام نے ان سے فرمایا۔کہ کبھِی پیچھے بھِی دیکھ لیا کیجیۓ تو جیسے ہی انہوں نے پیچھے دیکھا تو وہ حضرت محبوبِ الٰہی تھے اور انکے بلکل آگے جو بزرگ تھے جب انہیں نے پیچھے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ولیوں کے سردار حضور غوثِ پاک تھَے جب حضرت امیر خسرو نے اتنے دنوں کی پریشانی کے بعد اپنے شیخ کا یہ مقام دیکھا تو ولیوں کے درمیان میں سے اپنے شیخ تک پہنچنے کی کو شیش کی توساتھ ہی حضرت بو علی قلندر نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور آپ ساتھ ہی پھر اس دنیائے فانی میں آگئے لیکن آپ وجد میں تھے
جھومتےجھومتے اپنے شیخ کے آستانے تک آئَے اور یہ کلام لکھا نمی دانم کہ آخر چوں منم دیدار ۔۔۔!!
اس سارے واقع میں کچھ باتیں بہت اہم ہیں
ایک یہ کہ جس طرح آقا علیہ سلام ہر کچہری میں  موجود ہیں اسی طرح آپ ہر جگہ موجود ہیں اور اپنے ہرامتّی کا احوال اور نام تک جانتے ہیں جبھِی تو امیر خسرو کا نام لے کر مخاطب ہوئے.دوسری یہ کے حضرت بو علی قلندر حضرت امیر خسرو کو انکے شیخ کا مقام دکھانا چاہتے تھے
 اس سب واقع میں حضرت امیر خسرو کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ جو اس نا چیز کو بے حد کے عزیز ہے وہ یہ کہ سیدّی علیہ سلام آپ سے سات بار مخاطب ہوئے۔۔
اللہ اکبر اس سے بڑھ کرایک امتی کے لئے خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے....!
 مالک ہمیں بھِی اپنے حبیب علیہ سلام کی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین یا کریم

ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﻭﻟﯽ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ


 ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﺎﺩﺭ ﺟﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﺍﻟﻨﻮﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﮯ“ :ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﺨﻠﻮﻕ، ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ، ﻧﻔﺲ، ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻭ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭﺅﮞ ﺳﮯ ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻭ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﺏ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﺎ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻓﻀﻞ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﻓﮕﻦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺳﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺪﺑﺮ ﺳﮯ ﺗﺪﺑﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻓﺘﻮﺡ ﺍﻟﻐﯿﺐ ﻣﻊ ﻭﻗﻼﺋﺪ ﺍﻟﺠﻮﺍﮨﺮ، ﺍﻟﻤﻘﺎﻟﮧ ﺍﻟﺴﺎﺩﺳﺘﮧ ﻭ ﺍﻟﺨﻤﺴﻮﻥ،
ﺹ  100

وراثت

مادی وراثت میں اولاد ماں باپ کے چھوڑے ہوئے ترکہ کی وارث ہوتی ہے ترکہ کی تقسیم کا نصاب مقرر ہے - اولاد کو اپنا حق وصول کرنے کے لئے کوئی محنت نہیں کرنا ہوتی - پھر یہ اس پر ہے کہ وہ حاصل کردہ مال و دولت کو کس طرح استعمال کرے ... روحانی وراثت میں مریدین اپنے مرشد کے حاصل کردہ روحانی علوم کے وارث ہوتے ہیں ترکہ چونکہ نور ہے اسلئے اولاد کو اپنے دل سے ذاتی حرص ،لالچ ، ذاتی خواہشات کو مقدم رکھنے کی عادت کو نکال باہر کرنا پڑتا ہے - اس قربانی کے بعد مرشد نور کا ایک بیج مرید کے دل میں منتقل کر دیتے ہیں - یہ بیج مرشد کے علم کا ہے- اب یہ مرید پر ہے کہ وہ اس بیج کو کتنا اور کب پروان چڑھاتا ہے - اس حسا ب سے اسپر علم کے اس خزانے کے در کھلتے رہتے ہیں - یہی اسکی وراثت ہے - " الف الله چنبے دی بوٹی ، مرشد من وچ لائی ہو اندر بوٹی مشک مچایا ، اتے جان لباں تے آئ ہو .." نور کے بیج کو چنبے کی بوٹی بننے اورمشک مچانے کیلئے جگہ اور رزق چاہئے ...