ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

حدیث نجد اور تاریخِ نجد و حجاز

:حدیث نجد

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ!  ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔
اس حدیث میں تین متعین خطوں کے نام لئے گئے ہیں لیکن کچھ احباب شام اور یمن کو تو علاقائی طورپر لیتے ہیں لیکن جب نجد کی باری آتی ہے تو یہ احباب نجد کے لغوی معنی نکال لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نجد ریاض مراد نہیں بلکہ ابھری ہوئی زمین مراد ہے، اور عرب میں بارہ نجد ہیں۔ حالانکہ حدیث کا لب و لباب واضع ہے کہ تین متعین خطے ہیں۔ جب ہم دو خطوں کے لغوی معنی اخذ نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم تیسرے خطے کا لغوی معنی کیونکر اخذ کرسکتے ہیں؟. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو خطہ نجد کے نام سے مشہور تھا دراصل وہی نجد کا خطہ اس حدیث میں مراد ہے.
اس حدیث سے متعلق آئمہ کرام نے جو شرح بیان کی ہے وہ درج ذیل کتاب میں درج ہے۔

شرح حدیث نجد کا ڈاؤن لوڈنگ لنک 


تاریخ نجدوحجاز کا ڈاؤن لوڈنگ لنک

اسلام کی فتح



وہ دور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تھا کہ ہر طرف اسلام سورج کی روشنی کی طرح پھیل رہا تھا, نئے نئے ملک اور شہر فتح ہورہے تھے, یہاں تک کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب عمر اسلام لاے تو اسلام  ظاہر ہوگیا, کیوں کہ عمر وہ واحد شخص ہے جس نے اعلانیہ اسلام قبول کیا, اعلانیہ ہجرت کی,آپ کے اسلام لانے کی وجہ سے اعلانیہ طواف ہونے لگا, لوگ اعلانیہ اسلام قبول کرنے لگے, اسلام کی کھلے عام دعوت دی جانے لگی, یہ ساری عزتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کی وجہ سے اسلام کو ملیں,  اسی لیے دربار رسالت سے آپ کو فاروق کا لقب ملا, کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کی وجہ سے ہی اسلام ظاہر ہوا ہے, اور حق اور باطل میں فرق واضح ہوگیا,
اور کیوں نہ ہو کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلخصوص حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمای تھی, چنانچہ حاکم کی روایت ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
"رب العالمین ! عمر بن خطاب سے اسلام کو غلبہ عطا فرما".
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جس قدر فتوحات ہوئیں,اور جس قدر اسلام کو عروج ملا وہ درحقیقت حضور علیہ السلام کی اس دعا کا ہی ثمرہ تھا, جو اللہ تعالی نے عمر کے زریعے سے اسلام کو دیا, یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا کامل ایمان تھا اور آپکی اپنے نبی کریم علیہ السلام سے سچی محبت تھی کہ آپ نے خلافت کے امور بخوبی انجام دیے, اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچایا, اسلامی احکام نافذ کیے.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بہت سخت تھے, یہ بات کسی نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہہ دی, کہ آپ اللہ کو کیا جواب دینگے کہ آپ ایسے شخص کو خلیفہ بنا کر جارہے ہیں جو بہت سخت ہیں, فرمایا میں اللہ کی بارگاہ میں عرض کرونگا کہ الہی میں نے تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا.
شرعی حدود قائم کرنا نہ ظلم ہے نہ سختی, دشمن اسلام اسے انسانی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہیں,ہم کہتے ہیں کہ یہ ظلم نہیں انصاف ہے, دنیاوی قانون میں بھی مجرموں کو سزا دی جاتی ہے, تو اس بنیاد پر اگر کوئی کہے کہ عمر سخت مزاج تھے تو میں کہونگا کہ یہ درست نہیں ہے, مؤطا امام مالک کی روایت ہے, حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی معافی کو پسند فرماتا ہے سوائے حدود کے, کہ حدود معاف کرنے کو ناپسند فرماتا ہے,
تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شرعی احکام نافذ کرنے میں سخت تھے نہ کہ اخلاقیات کے حوالے سے,
ہم اہلسنت کے نزدیک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق دوسرے خلیفہ مقرر ہوے, اور تمام صحابہ کرام بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی, حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے, اور صحابہ کرام کے اجماع کا انکار ایسے ہی کفر ہے جیسے قرآن کی آیت کا انکار کفر ہے.
سب سے پہلےحضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ہی امیر المؤمنین کا لقب ملا, آپ کے فضائل میں بہت احادیث موجود ہیں, چنانچہ بخاری میں ہے حضور علیہ الصلاة و السلام نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اے عمر جس راستے پر تم چلوگے اس راستے پر شیطان نہیں چلے گا بلکہ دوسرا رستہ اختیار کرےگا.
ہمیں اپنے محبوب کے فرمان پر یقین ہے, آج الحمد للہ ہم عمر کے راستے پر ہیں اور شیطان نے الگ رستہ بنالیا ہے,
واقعی اے عمر, آپ فاروق ہیں, فقط آپ کے نام سے آج بھی حق اور باطل کی پہچان ہوتی ہے,
آخر میں اتنا کہونگا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اسلام کو عروج ملا, اور آپ کے دنیا سے چلے جانے سے فتنوں کے دروازے کھل گے یہاں تک کہ طبرانی سے روایت ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ عمر کی موت پر اسلام رویا ہے, مگر یہ موت تو ایک وعدہ ہے آج بھی مسجد کی اذانوں میں عمر زندہ ہے..

محبتِ وطن کی شرعی حیثیت

سوال: محبتِ وطن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا وطن سے محبت کرنا جائز ہے؟



 قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلّل حکم درکار ہے۔ نیز اس حوالے سے پائے جانے والے اِشکالات کا اِزالہ بھی مطلوب ہے۔
جواب: انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ چرند، پرند، درند حتیٰ کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجئے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میںاس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالے سے چند نظائر پیش کرتے ہیں تاکہ نفسِ مسئلہ بخوبی واضح ہوسکے۔
محبتِ وطن: قرآن کی روشنی میں:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
يٰـقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَo
(المائدة، 5: 21)
اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo
(إبراهيم، 14: 35)
اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
3۔ اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاهِ اِلٰہ میں عرض کیا:
رَبَّنَآ اِنِّيْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْيُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّيُمْ يَشْکُرُوْنَo
(إبراهيم، 14: 37)
اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔
4۔ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ اﷲُ بِاَمْرِهِط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo
(التوبة، 9: 24)
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔
اﷲ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔
5۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اﷲَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُo نِالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يََّقُوْلُوْا رَبُّنَا اﷲُ.
(الحج، 22: 39-40)
ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔
6۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے:
مَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَـآئِنَاط فَلَمَّا کُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَ لَّوْا اِلَّا قَلِيْلاً مِّنْهُمْط وَاﷲُ عَلِيْمٌم بِالظّٰلِمِيْنَo
(البقرة، 2: 246)
ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔
7۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
(الأنفال، 8: 26)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔
درج بالا میں مذکور سات آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔
محبتِ وطن: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
1۔ حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:
آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی
آپ کو اذیت دی جائے گی اور
آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔
اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امام سہیلی نے الروض الأنف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے: حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا:
أَوَ مُخْرِجِيَّ؟
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟
یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ.
اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔
(الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185)
اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اﷲ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کے لیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی۔
امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب (4: 185)‘ میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ.
(سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709، المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633)
تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔
یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔
3۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا.
(صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644، سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔
اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ.
(فتح الباری، 3: 621)
یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
4۔ ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ.
یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:
اللّٰهُمَّ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا کَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَکَّةَ. اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا.
(صحيح البخاري، 3: 1058، رقم: 2732، صحيح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)
اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔
یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔
5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے:
اللّٰهُمَّّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُکَ، وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ.
(صحيح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)
اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔
6۔ وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرمa نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ: بِسْمِ اﷲِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.
(صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413، صحيح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے: اﷲ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔
7۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ آنسؤوں سے تر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ.
اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔
جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا:
دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ.
(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السيرة الحلبية، 2: 283)
دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو)۔
اِزالۂ اِشکال
وطن سے محبت کے حوالے سے ایک اِشکال کا اِزالہ بھی اَز حد ضروری ہے۔ اِس ضمن میں بالعموم ایک روایت quote کی جاتی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ.
وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔
حالاں کہ یہ حدیثِ نبوی نہیں ہے بلکہ من گھڑت (موضوع) روایت ہے۔
1۔ امام صغانی نے اسے ’الموضوعات (ص:53، رقم:81)‘ میں درج کیا ہے۔
2۔ امام سخاوی نے ’المقاصد الحسنۃ (ص:297)‘ میں لکھا ہے:
لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ، وَمَعْنَاهُ صَحِيْحٌ.
میں نے اس پر کوئی اطلاع نہیں پائی اگرچہ معناً یہ کلام درست ہے (کہ وطن سے محبت رکھنا جائز ہے)۔
3۔ ملا علی القاری نے ’المصنوع (ص:91، رقم:106)‘ میں لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کے ہاں اِس قول کی کوئی اَصل نہیں ہے۔
4۔ ملا علی القاری نے ہی اپنی دوسری کتاب ’الأسرار المرفوعۃ في أخبار الموضوعۃ (ص:180، رقم:164)‘ میں لکھا ہے:
قَالَ الزَّرْکَشِيُّ: لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ.
امام زرکشی کہتے ہیں: میں نے اِس پر کوئی اِطلاع نہیں پائی ہے۔
وَقَالَ السَّيِّدُ مُعِيْنُ الدِّيْنِ الصَّفَوِيُّ: لَيْسَ بِثَابِتٍ.
سید معین الدین صفوی کہتے ہیں: یہ ثابت نہیں ہے (یعنی بے بنیاد ہے)۔
وَقِيْلَ: إِنَّهُ مِنْ کَلَامِ بَعْضِ السَّلَفِ.
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلف صالحین میں سے بعضوں کا قول ہے۔
5۔ اِسی لیے ملا علی القاری نے لکھا ہے:
إِنَّ حُُبُّ الْوَطَنِ لَا يُنَافِيَ الْإِيْمَانَ.
(الأسرار المرفوعة في أخبار الموضوعة:181، رقم:164)
وطن سے محبت ایمان کی نفی نہیں کرتی (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا)۔
6۔ علامہ زرقانی ’الموطا‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَأَخْرَجَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: أَصَابَتِ الْحُمَّی الصَّحَابَةَ حَتّٰی جَهِدُوا مَرَضًا.
ابن اِسحاق نے الزہری سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ بخار نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دبوچ لیا یہاں تک کہ وہ بیماری کے سبب بہت لاغر ہوگئے۔
اس قول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی رقم طراز ہیں:
قَالَ السُّهَيْلِيُّ: وَفِي هٰذَا الْخَبَرِ وَمَا ذُکِرَ مِنْ حَنِينِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ مَا جُبِلَتْ عَلَيْهِ النُّفُوسُ مِنْ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ.
(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 287-288)
امام سہیلی فرماتے ہیں: اِس بیان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت اور اشتیاق کی خبر ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی جانب اِشتیاق اِنسانی طبائع اور فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے (اور اِسی جدائی کے سبب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیمار ہوئے تھے)۔
7۔ قرآن حکیم کی سب سے معروف اور مسنتد لغت یعنی المفرادت کے مصنف امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’محاضرات الأدباء (2:652)‘ میں وطن کی محبت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی گفت گو کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
لَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوْء. وَقِيْلَ: بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ.
اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہوجاتے (کہ لوگ انہیں چھوڑ کر دیگر اچھے ممالک میں جابستے، اور نتیجتاً وہ ممالک ویرانیوں کی تصویر بن جاتے)۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطنوں کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔
8۔ اس کے بعد امام راغب اصفہانی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ایک شخص نے اپنا رزق کم ہونے کی شکایت کی تو حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے فرمایا:
لَوْ قَنَعَ النَّاسُ بِأَرْزَاقِهِمْ قُنُوْعَيُمْ بِأَوْطَانِهِمْ.
کاش! لوگ اپنے رِزق پر بھی ایسے ہی قانع ہوتے جیسے اپنے اَوطان (یعنی آبائی ملکوں) پر قناعت اختیار کیے رکھتے ہیں۔
9۔ اِسی طرح جب ایک دیہاتی شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح دیہات کی سخت کوش اور جفاکشی و رِزق کی تنگی والی زندگی پر صبر کرلیتے ہیں تو اس نے جواب دیا:
لَولَا أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی أَقْنَعَ بَعْضَ الْعِبَادِ بِشَرِّ الْبِلَادِ، مَا وَسِعَ خَيْرُ الْبِلَادِ جَمِيْعَ الْعِبَادِ.
اگر اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کو پسماندہ مقامات پر قائل نہ فرمائے تو ترقی یافتہ مقامات تمام لوگوں کے لیے تنگ پڑ جائیں۔
یعنی اگر سارے مقامی باشندے اپنے آبائی علاقوں کی پسماندگی و جہالت اور غربت و محرومیوں کے باعث ترقی یافتہ علاقوں کی طر ف ہجرت کرتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ ترقی یافتہ علاقے بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہوجائیں گے اور اپنے رہائشیوں کے لیے تنگ پڑ جائیں گے۔
10۔ اِس کے بعد امام راغب اصفہانی نے فَضْلُ مَحَبَّۃِ الْوَطَنِ (وطن سے محبت کی فضیلت) کے عنوان سے ایک الگ فصل قائم کرتے ہوئے لکھا ہے:
حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِيْبِ الْمَوْلِدِ.
وطن کی محبت اچھی فطرت و جبلت کی نشانی ہے۔
مراد یہ ہے کہ عمدہ فطرت والے لوگ ہی اپنے وطن سے محبت کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے وطن کی نیک نامی اور اَقوامِ عالم میں عروج و ترقی کا باعث بنتے ہیں نہ کہ ملک کے لیے بدنامی خرید کر اس پر دھبہ لگاتے ہیں۔
11۔ ابو عمرو بن العلاء نے کہا ہے:
مِمَّا يَدُلُّ عَلٰی کَرَمِ الرَّجُلِ وَطِيْبِ غَرِيْزَتِهِ حَنِيْنُهُ إِلٰی أَوْطَانِهِ وَحُبُّهُ مُتَقَدِّمِي إِخْوَانِهِ وَبُکَاؤُهُ عَلٰی مَا مَضٰی مِنْ زَمَانِهِ.
(محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652)
آدمی کے معزز ہونے اور اس کی جبلت کے پاکیزہ ہونے پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ اس کا اپنے وطن کے لیے مشتاق ہونا اور اپنے دیرینہ تعلق داروں (یعنی اعزاء و اقربا، رفقاء و دوست احباب اور پڑوسی وغیرہ) سے محبت کرنا اور اپنے سابقہ زمانے (کے گناہوں اور معصیات) پر آہ زاری کرنا (اور ان کی مغفرت طلب کرنا) ہے۔
12۔ اِسی لیے بعض فلاسفہ کا کہنا ہے:
فِطْرَةُ الرَّجُلِ مَعْجُوْنَةٌ بِحُبِّ الْوَطَنِ.
(محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652)
فطرتِ اِنسان کو وطن کی محبت سے گوندھا گیا ہے (یعنی وطن کی محبت انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے)۔
13۔ ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں لکھا ہے کہ دوسری تیسری صدی ہجری کے معروف امام ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ (159-255ھ) نے وطن کی محبت پر ایک مکمل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ہے: کتاب حب الوطن۔ ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں اس رسالے کی پوری سند کو بیان کیا ہے۔ 1982ھ میں یہ رسالہ لبنان کے دار الکتاب العربی سے الحنین إلی الأوطان کے عنوان سے طبع ہوچکا ہے۔ گویا مسلم محققین اوائل اِسلام سے ہی وطن سے محبت کے موضوع پر لکھتے آرہے ہیں۔
خلاصہ کلام
قرآن و حدیث اور تاریخ اِسلام کے درج بالا صریح دلائل سے معلوم ہوا کہ وطن سے محبت ایک مشروع اور جائز عمل ہے کیونکہ یہ ایک فطری اور لازم امر ہے۔
سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 24 کی شرح
اس آیت مبارکہ میں چھ طرح کی دنیاوی محبتوں کا بیان ہے: (1) اولاد کی والدین سے محبت (2) والدین کی اولاد سے محبت (3) بیوی کی محبت (4) رشتہ داروں کی محبت (5) نوکری، کاروبار اور تجارت کی محبت (6) گھروں اور وطن کی محبت۔ اگر یہ ساری محبتیں مل کر یعنی ان محبتوں کا total aggregate اور سب شدتیں مل کر اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد کی محبت سے بڑھ جائیں، اﷲ کے دین کی محبت سے بڑھ جائیں تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ایک categorical declaration ہے۔ لیکن اگر یہ تمام دنیاوی محبتیں اپنی limit میں ہیں اور غالب محبت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی ہے تو یہ ساری محبتیں بھی اُسی لافانی محبت کے تابع ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا ہمیں جان لینا چاہیے کہ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے نہ اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے، کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان نے کیا خوب فرمایا ہے:
جہانِ تازہ کی اَفکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے بھی چھٹکارے کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے جو وطنِ عزیز کو لوٹنے کے درپے ہیں اور آئے روز اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے نجات دلانے کی سرگرمِ عمل ہونا چاہیے جو اپنے وطن سے زیادہ دوسروں کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے درپے رہتے ہیں۔ معاشرے کے اَمن کو غارت کرنے والے عناصر کو ناسور سمجھ کر کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا بھرپور قومی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن کا وقار، تحفظ، سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں۔ وطن کی ترقی اور خوش حالی اسی میں ہے کہ ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے اور ہر سطح پر ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کیا جائے۔ معاشرے میں امن و امان کا راج ہو۔ ہر طرح کی ظلم و زیادتی سے خود کو بچائیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔ آج 2017ء میں آزادی کے ستر سال پورے ہونے پر پاکستان کے اِکہترویں (71st) یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں خود اِحتسابی کی اَشد ضرورت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے اب تک اپنے وطنِ عزیز کے لیے کیا کیا ہے؟ اس کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے؟ قوم کے لیے کیا کیا ہے؟ عوامی بہبود اور خدمتِ اِنسانیت کے لیے کیا کیا ہے؟ وطنِ عزیز کے غیر مسلم شہریوں کی خاطر کیا کام کیا ہے؟ ان کے تحفظ اور ترقی کے لیے کون سے اِقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ عوامی بیداری کی مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟ قوم کا شعور بیدار کرنے کی خاطر کیا قربانیاں دی ہیں؟ اِس ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف کس حد تک جد و جہد کی ہے؟ پوری دنیا میں وطنِ عزیز کی جگ ہنسائی کرانے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے خلاف عوام میں کس حد تک شعور بیدار کیا ہے؟ کہاں کہاں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کی خاطر قربان کیا ہے؟
خدا کرے کہ مری اَرضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اَندیشۂ زوال نہ ہو

14اگست کی پُکار----یومِ آزادی کی خصوصی تحریر

۱۴ اگست  کی پکار۔۔۔۔۔۔تحریر: محمد اسماعیل بدایونی

کھانس کر دکھائیے ۔۔۔۔لمبی لمبی سانس لیجیے۔ شبانہ نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پلاسٹک کے  stethoscope سے اپنے والد کو چیک کر تے ہوئے  کہا ۔
بابا جانی نے ننھی منی ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق  زبردستی کھانسا بھی اور لمبی لمبی سانسیں بھی لیں 
گھر میں موجود شبانہ کی والدہ اور بھائی  ننھی ڈاکٹر کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے ۔
بابا جانی ! میں بڑے ہو کر ڈاکٹر  بنوں گی  ۔۔۔۔شبانہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا 
ہاں بھئی میں اپنی بٹیا کو ڈاکٹر ضرور بناؤں گا۔بابا جانی نے پیار کرتے ہوئے ننھی شبانہ کو گود میں بٹھا لیا 
لیکن کچھ ہی دنوں بعد شبانہ کے والد ایک موذی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے ۔
شبانہ کے والد کا انتقال ہوئے کئی برس بیت چکے تھے ۔۔۔۔۔باپ کیا ہو تا ہے یہ باپ کے جانے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے 
امی ! میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں  ۔شبانہ نے  انٹر کے  امتحان میں تیسری پوزیشن لینے کے بعد کہا 
بیٹا ! تمہارے بابا آج زندہ ہوتے تو یقینا ً وہ بہت  خوش ہوتے  اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل ہو بھی جاتی  لیکن بیٹا ! تم جانتی ہو  یہاں تو روٹی  ،کپڑا اور مکان  کی تگ ودو ہی ختم نہیں ہو پارہی ہے اور میڈیکل کی پڑھائی  بہت مہنگی ہے ۔۔۔۔ایسا کرو تم بی اے کر لو   کم از کم گریجویشن ہو جائے گا 
نہیں امی نہیں ! اسے میڈیکل میں ایڈمیشن لینے دیں ۔فہد کی نگاہوں میں بچپن کا منظر  گھوم گیا یہ بابا جانی کی بھی خواہش تھی 
لیکن بیٹا ! میڈیکل کی فیس بہت زیادہ ہے ہم ضروریات بمشکل تمام پوری کر پا رہے ہیں  اور تم خواہشات کی بات کر رہے ہو اگر تمہارے والد  حیات ہوتے تودوسری بات تھی ۔
امی ! آپ چھو ڑ دیں  میں پارٹ  ٹائم کوئی جاب کر لوں گا لیکن  اپنی بہن کی خواہش ضرور پوری کروں گا ۔۔۔۔۔
فہد آفس  کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور پھر واپسی میں نامعلوم ڈکیتوں کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ 
بیوہ ماں کا آخری سہارا۔۔۔۔۔  خواہشات کو دفن کرتی  بے بس بہن 
تھانہ کلچر   ۔۔۔۔رشوت ۔۔۔۔آہ وبکا ۔۔۔۔۔جوان لاشہ کیا اٹھا   ماں کا کلیجہ چر گیا ۔۔۔۔۔۔ماں ہوش و حواش کھو بیٹھی  جوان بیٹی ۔۔۔۔۔۔
کوکھ سےجنم لینے کے بعد کیسے جوان ہو تی ہے اولاد کچھ خبر بھی ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔اذیتوں کا  طویل تر ہو تا سلسلہ ۔۔۔۔۔۔
کہاں ہے انصاف۔۔۔۔کہاں ہے کوتوال ؟ سپاہی کہاں ہیں ؟ نظام کہاں ہے ؟ پوچھ رہی ہیں وہ ماں اور بیٹی 
کیا ہر روز ہمارے نوجوان یوں ہی سڑکوں پر مرتے رہیں گے ؟
کیا مائیں یوں ہی سسکتی رہیں گی ؟
کیا ظلم  یوں ہی جاری  رہے گا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں یورپین انسٹی ٹیوٹ لانڈھی  کراچی  میں مہمان خصوصی  کی حیثیت سے مدعو تھا ۔۔۔۔۔۔میٹرک کلاس کے بچوں نے یہ ڈرامہ اسٹیج کیا تھا  ۔۔۔۔اس فرضی ڈرامے نے مجھ سمیت ہال میں موجود تمام لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
معلوم ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
لاشیں کیوں اٹھ رہی ہیں ؟
سہاگ کیوں اجڑ رہے ہیں ؟
مکا ر سیاست دان لاشوں کی سیاست  کیوں کررہے ہیں ؟
سنو ! میرے دوستو! ہم برائی کو ہوتا دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں یہ ہمارا مسئلہ تھوڑی ہے  یہ تو  ہمارے پڑوسی کا دردِ سر ہے وہ جانے  اور اس کاکام جانے 
یہ وہ بیماری ہے جس میں ہم بحیثیتِ قوم مبتلا ہو چکے ہیں ۔
سوچیے !
 ایک پانی کے دومنزلہ جہاز  کی پہلی منزل پر سمجھدار ، ذہین  افراد موجود ہوں اور اچانک وہ جہاز  کے عرشے پر ایک شور سنیں کہ وہاں موجود بے وقوف اور احمق  لوگ جہاز میں پانی ختم ہوجانے کے باعث    جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے  جارہے ہیں 
اب آپ ہی بتائیے اگر پہلی منزل  میں موجود مسافر انہیں نہیں روکیں گے تو  کیا وہ محض غیر جانب دار ہو نے کی وجہ سے بچ جائیں گے ؟
کیا وہ نہیں ڈوبیں گے ؟
یقینا ً وہ سب بی ڈوبیں گے ۔
باری سب ہی کی آئے گی  بچے گا کوئی نہیں اگر تم چاہتے ہو  یہ خون کی حدت تمہارے گھر تک نہ پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے دل  سے یہ دعا نکلتی ہے اے اللہ میرے بیٹے کو زندہ گر واپس لانا ۔۔۔۔۔
اگر تمہارے سینے میں ایک حساس دل ہے تو یاد رکھنا !!!!!!!
تمہیں ان درندوں سے لڑنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔جو ہر سیٹ پر بیٹھے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔۔۔۔جو مختلف محکموں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں ان سے پاکستان بچانا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔اپنی ذمہ داری ادا کر نا ہو گی ۔۔۔۔۔۔اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ بچے گا کوئی نہیں ۔
 یورپین انسٹی ٹیوٹ کے  نوجوان آنر  شہروز صاحب  کا بہت شکریہ آپ نے  نسلِ نو کے اذہان میں  فکر کے دیپ روشن کیے ۔۔۔۔۔۔وہ تمام ادارے جنہوں نے ۱۴ اگست کو شور شرابے سے ہٹ کر فکری انداز میں منایا اپنی  آنے والی نسل کی فکری آبیاری کا سامان کیا آپ سب کا بہت شکریہ ۔

Ludo Starکھیلنے والے حضرات ضرور با ضرور پڑھیں

لُڈّو کھیلنے کے بارے میں اہم تحقیق

بہت سے دوست پوچھ رہے تھے اور آجکل گتّے والی کے علاوہ آن لائن لڈو کا بھی کافی چرچہ ہے، لڈو کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ لڈو کھیلنا، چاہے جوا لگایا جائے یا نہیں، مکروہ تحریمی ہے یعنی حرام سے ایک درجہ کم۔ یہ ناجائز و گناہ ہے۔ اگر کوئی دوست یہ سوال اٹھائے کہ آخر لڈو میں ایسی کیا برائی ہے تو اسکا جواب محض اتنا ہے کہ دین میں عقل کو نقل یعنی روایت کے تابع رکھا جاتا ہے اس لئے عقلی پیمانے کو ایک طرف رکھ کرسرکار دوعالم ﷺ کے فرامین پر توجہ فرمائیں۔  چَوْسَر (لڈو) کھیلنا
(۱)چوسر کھیلنے کا حکم:(۲)

{1}…حضرت سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے چوسر کھیلا تحقیق اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی کی۔‘‘ (۳)

{2}…اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب، حبیبِ لبیب صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے خون سے رنگا۔‘‘ (۴)

{3}… ایک روایت میں ہے: ’’گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈالا۔‘‘ (۵)

{4}… شہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جو چوسر کھیلتا پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو پیپ اور خنزیر کے خون کے ساتھ وضو کرکے نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔‘‘ (۶)

📖حوالہ جات📖
 1…چوسر ایک گھریلو کھیل ہے جو چوسر کی بساط(یعنی بِچھی ہوئی چادر) پر کَوڑیوں کے پانسے(یعنی شش پہلو ٹکڑے جسے بار ی باری کھلاڑی پھینکتے ہیں ) سے کھیلا جاتا ہے اور 4 فریق 4 مختلف رنگ کی گوٹیوں سے کھیل سکتے ہیں۔ (فرہنگ تلفُّظ، ص۴۲۹)

2…’’بہارِشریعت‘‘جلدسوم صَفْحہ 511پر ہے: ’’گنجفہ،
 چوسر(یعنی نرد شیر) کھیلنا ناجائز ہے، شطرنج کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح لہو ولعب کی جتنی قسمیں ہیں سب باطل ہیں۔گنجفہ ایک کھیل کا نام ہے جو تاش کی طرح کھیلا جاتا ہے اس میں 96 پتے اورآٹھ رنگ ہوتے ہیں اور تین کھلاڑی کھیلتے ہیں۔
3…سنن ابی داود،کتاب الادب، باب فی النھی عن اللعب بالنرد، الحدیث:۴۹۳۸،ص۱۵۸۵۔
4…صحیح مسلم،کتاب الشِعْر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، الحدیث:۵۸۹۶،ص۱۰۷۸۔
5…سنن ابی داود،کتاب الادب، باب فی النھی عن اللعب بالنرد، الحدیث:۴۹۳۹،ص۱۵۸۵۔
6…المسند للامام احمد بن حنبل، احادیث رجال من اصحاب النبی، الحدیث:۲۳۱۹۹،ج۹،ص۵۰۔


منجانب : تحریک تحفظ اہلسنت پاکستان


Website
thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

Facebook
http://m.facebook.com/TTASP021/

Twitter
http://www.twitter.com/TTASP021/

FOR SMS ALERT
Type Follow @TTASP021 & Send 40404