ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

یزید کا پوسٹ مارٹم


نہایت علمی حوالہ جات ملاحظہ کیجیے......
کیا یزید بے قصور اور جنتی ہے؟
موجودہ دور نفسا نفسی اور فتنوں کا دور ہے۔ روز بروز ایک نیا فتنہ اسلام کا نام لے کر کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے۔ موجودہ دور میں ماڈرن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ماڈرن لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ وہ ماڈرن مذہبی اسکالرز کی بات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا پر خشخشی داڑھی والے غامدی‘ کوٹ پینٹ ٹائی والے ذاکر نائیک اور ہاتھوں میں بینڈ باجے لئے بابر چوہدری اور نجم شیراز جیسے لوگ جو نہ سند یافتہ عالم ہیں اور نہ ہی شکل اور حلیے سے مذہبی معلوم ہوتے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ میڈیا پر ایک نیا شوشہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فسادی اور فرقہ پرست نہیں کہتا۔

آج کل انہی جیسے لوگوں نے یہ بات مشہور کردی ہے کہ یزید بے قصور آدمی تھا۔ یزید کے لئے تو جنت کی بشارت دی گئی ہے وہ قتل حسین پر راضی نہ تھا۔ ان کے اس میٹھے زہر کا مقابلہ ہم آج اس مضمون میں کریں گے اور احادیث‘ جید تابعین اور علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے جس یزید کو ناصبی اپنی آنکھ کا تارا تصور کرتے ہیں وہ دین اسلام کی اصل شکل کو مسخ کرنے کے ارادے سے حکمرانی کررہا تھا۔

یزید کا مختصر تعارف

 حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یزید بیٹا معاویہ بن ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے ‘کنیت اس کی ابو خالد ہے۔ یزید حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوا (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی جلد 11 ص  360)

یزید احادیث کی روشنی میں

حدیث شریف: حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا (مسند ابو یعلیٰ حدیث نمبر 872ص 199‘ مجمع الزوائد جلد 5ص 241‘ تاریخ الخلفاء ص 159‘ الصواعق المحرقہ ص 221)

حدیث شریف: محدث امام رئویانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺکو فرماتے سنا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ پہلا وہ شخص جو میرے طریقے کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔

(جامع الصغیر جلد اول ص 115‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ماثبت من السنہ ص 12)

حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ‘ سن ساٹھ کے آغاز سے تم لوگ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اس وقت دنیا (حکومت) احمق اور بدعادت کے لئے ہوگی۔ (بحوالہ: خصائص کبریٰ جلد دوم ص 139)

فائدہ: علامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چھوکروں اور احمقوں کی حکومت سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے (تفسیر مظہری جلد اول ص 139)

یزید جید تابعین کی نظر میں

1۔ حضرت عبداﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا (تاریخ الخلفاء ص 207‘ الصواعق المحرقہ ص 134‘ طبقات ابن سعد جلد 5ص 66)

2۔ حضرت منذر بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سنائوں۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہوجاتا ہے کہ وہ نماز ترک کردیتا ہے (ابن اثیر جلد چہارم ص 42‘ وفاء الوفاء جلد اول ص 189)

3۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے (ابن اثیر جلد چہارم ص 40)

4۔ نوفل بن ابو انضرت نے فرمایا میں پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ کے پاس تھا۔ پس ایک شخص نے آکر یزید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو یوں کہا۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ‘‘ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ غضبناک ہوئے۔ آپ نے فرمایا تو یزید کو امیرالمومنین کہتا ہے۔ پھر آپ کے حکم پر اس کو بیس کوڑے مارے گئے (الکامل جلد سوم ص 277‘ تہذیب التہذیب جلد 11‘ ص 361‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ماثبت من السنہ ص 13)

یزید علمائے اسلام اور محدثین کی نظر میں

1۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ متوفی 241ھ نے اپنے فرزند کو فرمایا: کیوں لعنت نہ کی جائے اس یزید پر جس پر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لعنت کی ہے۔ آپ کے بیٹے نے عرض کیا اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہاں یزید پر لعنت کی ہے؟ آپ نے فرمایا سورہ محمد کی ان آیات میں:

ترجمہ: تو کیا تمہارے لچھن (کردار) نظرآتے ہیں اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلائو اور ایسے رشتے دار کاٹ دو۔ یہ ہیں وہ لوگ جن پر اﷲ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں (سورہ محمد آیت 23-22)

2۔ اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270ھ فرماتے ہیں۔ یعنی سورہ محمد کی ان آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے اور میں یزید جیسے فاسق‘ فاجر پر لعنت شخص کی طرف جاتا ہوں کیونکہ یزید کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور یزید کے ساتھ ابن زیاد‘ ابن سعد اور یزید کی ساری جماعت شریک ہے۔ پس اﷲ کی لعنت ہو‘ ان سب پر اور ان کے مددگاروں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے گروہ پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو‘ ان سب پر اﷲ کی لعنت ہو (تفسیر روح المعانی جلد 26ص 72)

3۔ علامہ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774ھ نے لکھا ہے۔ یعنی یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ جب تو کوفہ پہنچ جائے تو مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کو تلاش کرکے قتل کردینا۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 152)

ابن زیاد نے (یزید کے حکم کے مطابق) حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کو قتل کرایا‘ ابن زیاد نے حضرت ہانی کو سوق الغنم میں شہید کرایا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 157)

یزید نے ان بزرگوں کو قتل کردینے پر ابن زیاد کا شکریہ ادا کیا (شہید کربلا از مفتی شفیع دیوبندی)

4۔ گیارہویں صدی کے مجدد محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1052ھ فرماتے ہیں۔

ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ قتل حسین دراصل گناہ کبیرہ ہے کیونکہ ناحق مومن کا قتل کرنا گناہ کبیرہ میں آتا ہے‘ کفر میں نہیں آتا مگر لعنت تو کافروں کے لئے مخصوص ہے ایسی رائے کا اظہار کرنے والوں پر افسوس ہے۔ وہ نبیﷺ کے کلام سے بھی بے خبر ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور اس کی اولاد سے بغض و عداوت اور انہیں تکلیف دینا توہین کرناباعث ایذا و عداوت نبی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ حضرات‘ یزید کے متعلق کیا فیصلہ کریں گے؟ کیا اہانت رسول اور عداوت رسول کفر اور لعنت کا سبب نہیں ہے؟ اور یہ بات جہنم کی آگ میں پہنچانے کے لئے کافی نہیں؟ (بحوالہ: تکمیل الایمان ص 178)

5۔ امام جلال الدین سیوطی متوفی 911ھ فرماتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل ابن زیاد اور یزید پر امام حسین رضی اﷲ عنہ کربلا میںشہید ہوئے اور آپ کی شہادت کا قصہ طویل ہے۔ دل اس ذکر کا متحمل نہیں ہوسکتا (تاریخ الخلفاء ص 80)

6۔ امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ متوفی 1043ھ فرماتے ہیں: یزید بے دولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکر اسخن کارے کہ آں بدبخت کردہ ہیچ کا فرفرنگ نہ کند… یعنی یزید بے دولت صحابہ کرام میں سے نہیں۔ اس کی بدبختی میں کس کو کلام ہے جو کام اس نے کئے ہیں کوئی کافر فرنگی بھی نہ کرے گا (مکتوبات امام ربانی جلد اول ص 54)

7۔ امام المحدثین حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1239ھ فرماتے ہیں۔

پس انکار کیا امام حسین رضی اﷲ عنہ نے یزید کی بیعت سے کیونکہ وہ فاسق‘ شرابی اور ظالم تھا اور امام حسین رضی اﷲ عنہ مکہ شریف تشریف لے گئے (بحوالہ : سر الشہادتیں ص 12)

8۔ امام طاہر بن احمد بن عبدالرشید بخاری متوفی 542ھ فرماتے ہیں۔

یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں امام علامہ قوام الدین الصنعاری علیہ الرحمہ اپنے والد سے حکایت بیان کرتے ہیں کہ یزید پر لعنت کرناجائز ہے اور فرماتے ہیں یزید پلید پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (بحوالہ : خلاصتہ الفتاویٰ جلد چہارم  390)

9۔ امام حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ متوفی 898ھ فرماتے ہیں۔ یعنی یزید پر سو لعنتیں ہوں اور بھی (بحوالہ: تذکرہ مولانا عبدالرحمن جامی ص66)

10۔ چودھویں صدی کے مجدد امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ یزید کو اگر کوئی کافر کہے تو ہم منع نہیں کریں گے اور خود نہ کہیں گے (بحوالہ : الملفوظ حصہ اول ص114)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہلسنت کے تین اقوال ہیں۔ امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی علیہ الرحمہ وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو‘ بالاخر بخشش ضرور ہوگی اور ہمارے امام‘ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ سکوت (خاموشی) فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر (رحمتہ اﷲ علیہ) بھی نہ کہیں لہذا یہاں بھی سکوت کریں گے (بحوالہ: احکام شریعت ص88)

حضرات محترم! ہم نے آپ کے سامنے احادیث‘ اقوال صحابہ کرام اور علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں یزید پلید کی شدید مذمت بیان کی۔ اب فیصلہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان خود کرے‘ ہم اکابر محدثین کی بات مانیں یا موجودہ دور کے نام نہاد مذہبی اسکالر اور وہ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس فیشن ایبل آدمی کی؟ ہرگز نہیں… ہرگز نہیں… ہم تو اکابرین اورمحدثین کی بات مانیں گے۔

یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ 2008ء کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کربلا کی جنگ سیاسی جنگ تھی‘‘ اس کے بعد یزید کو رحمتہ اﷲ علیہ کہا (اس کی ویڈیو سی ڈی مکتبہ فیضان اشرف شہید مسجد کھارادر کراچی پر موجود ہے)

ذاکر نائیک کے ان الفاظ پر پوری دنیا کے علماء کرام اورمفتیان کرام نے ذاکر نائیک کو گمراہ اور بے دین قرار دیا۔

پہلے تو ذاکر نائیک نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی مگر جب پوری دنیا سے اس کے جواب کی مذمت کی گئی تو فورا اس نے یہ کہا کہ جو فتویٰ مجھ پر لگاتے ہو‘ وہی فتویٰ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر بھی لگائو۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ یزید کے متعلق صحیح پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے لہذا امام غزالی علیہ الرحمہ کا یزید کے متعلق فتویٰ ملاحظہ ہو۔

حجتہ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ

اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو‘ کہنا جائز ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کا قاتل اگر توبہ کرکے مرا ہے تو اس پر خدا کی لعنت نہ ہو کیونکہ یہ ایک احتمال ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 ص 122 مطبوعہ مصر)

امام غزالی علیہ الرحمہ کے فتوے سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔

1۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا قتل ناحق تھا (لہذا ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنے والے یزید اور یزیدی ظالم اور قاتل تھے ورنہ قاتل پر خدا کی لعنت جائز نہ ہوتی۔

2۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ توبہ کی قید لگانا امام غزالی علیہ الرحمہ کے کمال تقویٰ کی دلیل ہے۔

3۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار نہیں دیا۔

4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح یزید کو ’’رحمتہ اﷲ علیہ‘‘ نہیں کہا۔

5۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یزید اور قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ کی توبہ کہیں سے بھی ثابت نہیں لہذا امام غزالی کے فتوے کے مطابق امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

یزید کو نادم اور بے قصور کہنے والوں سے ہمارے سوالات

سوال: یزید اگر ظالم نہ تھا تو اس نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ کو معزول کرکے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر کیوں بنایا؟

سوال: اگر اس کے کہنے پر سب کچھ نہیں ہوا تو اس نے معرکہ کربلا کے بعد ابن زیاد‘ ابن سعد اور شمر کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟

سوال: معرکہ کربلا کے بعد اہلبیت کی خواتین کو قیدیوں کی طرح کیوں رکھا گیا؟

سوال: حضرت سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کے سامنے اپنی فتح کا خطبہ کیوں پڑھا؟

سوال: جب اس کے دربار میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سر انور لایا گیا تو اس پر اس نے چھڑی کیوں ماری؟

سوال: اگر یزید بے قصور تھا تو اس نے گھرانہ اہلبیت سے معافی کیوں نہیں مانگی؟

سوال: معرکہ کربلا کے بعد مسجد نبوی کی بے حرمتی کیوں کی گئی؟ اور امام جلال الدین سیوطی  علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا کہ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔

سوال: بیت اﷲ پر یزید نے سنگ باری کیوں کروائی؟ امام سیوطی علیہ الرحمہ کے مطابق بیت اﷲ میں آگ لگی اور غلاف کعبہ جل گیا۔

کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فاتح قسطنطنیہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور یزید بھی اس لشکر میں شامل تھا لہذا وہ جنتی ہوا۔

حدیث قسطنطنیہ ملاحظہ ہو:

حدیث شریف: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میری امت کا وہ لشکر بخش دیا جائے گا جو قیصر کے شہر پر سب سے پہلے حملہ کرے گا (صحیح بخاری‘ جلد اول‘ کتاب الجہاد‘ باب ماقیل فی قاتل الروم ص 410)

قیصر کے شہر سے مراد کون سا شہرہے؟

قیصر کے شہر سے مراد وہ شہر ہے جو حضرت نبی کریمﷺ کے ارشاد کے وقت قیصر کا دارالمملکت تھا اور وہ حمص تھا (بحوالہ: فتح الباری جلد ششم ص 128)

قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا؟

البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 31پرہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43ھ میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 31)

قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔

ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی (بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)

نتیجہ: اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادل نخواستہ شریک ہوا۔

اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے؟

اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں۔ اس اصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں۔

یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضورﷺ کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر    فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکر قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں (فتح الباری جلد 11ص 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان)

محدثین اور حفاظ کے فیصلے کی مزید توفیق

حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ انسان زبان سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہہ دے وہ جنتی ہے۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ کافر کیوں؟

حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے۔ یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام فرقے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے ہوں گے لیکن پھر بہتر (72) جہنمی کیوں؟

بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اور مرتے دم تک مرتد (بے ایمان) نہ ہو‘ وہ جنتی ہے۔

ہم نے آپ کے سامنے تابعین اور علمائے امت کے یزید کے متعلق تاثرات پیش کردیئے ہیں۔ اگر اب بھی کوئی زبردستی یزید کو رحمتہ اﷲ علیہ‘ امیر المومنین اور جنتی کہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا کرے کہ :

’’اے اﷲ تعالیٰ! میرا حشر قیامت کے دن یزید کے ساتھ فرما‘‘   
               

منقبت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ

منقبت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ

از: حضور تاج الشریعه مفتی محمّد اختر رضا خان قادری ازہری دام ظله علینا

شجاعت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے
وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے

صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے

شہ خوباں پہ ہر خوبی و خصلت ناز کرتی ہے
کریم ایسے ہیں وہ ان پر کرامت ناز کرتی ہے

جہانِ حسن میں بھی کچھ نرالی شان ہے ان کی
نبی کے گل پہ گلزاروں کی زینت ناز کرتی ہے

شہنشاہِ شہیداں ہو ، انوکھی شان والے ہو
حسین ابن علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے

بٹھا کر شانۂ اقدس پہ کردی شان دوبالا
نبی کے لاڈلوں پر ہر فضیلت ناز کرتی ہے

جبین ناز ان کی جلوہ گاہِ حسن ہے کس کی
رخِ زیبا پہ حضرت کی ملاحت ناز کرتی ہے

نگاہِ ناز سے نقشہ بدل دیتے ہیں عالم کا
ادائے سرورِ خوباں پہ ندرت ناز کرتی ہے

فدائی ہوں تو کس کا ہوں کوئی دیکھے مری قسمت
قدم پر جس حسیں کی جانِ طلعت ناز کرتی ہے

خدا کے فضل سے اختر میں ان کا نام لیوا ہوں
میں ہوں قسمت پہ نازاں مجھ پہ قسمت ناز کرتی ہے​

یوں بیاں کرتے ہیں سنّی داستانِ اہلبیت

داستانِ اہلبیت

باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلبیت 
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت 

کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلبیت 
مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلبیت 

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں 
آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت 

مصطفے عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں 
ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلبیت 

ان کے گھر بے اجازت جبریل آتے نہیں 
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلبیت 

مصطفٰے بائع خریدار اس کا اللہ اشتری 
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلبیت 

رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق 
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلبیت 

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے 
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلبیت 

حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار 
خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلبیت 

ہو گئی تحقیقِ عید، دیدِ آبِ تیغ سے 
اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلبیت 

جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج 
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلبیت 

اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا 
کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلبیت 

کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے 
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت 

خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات 
خاک تجھ پر دیکھ تو سوکھی زبانِ اہلبیت 

خاک پر عباس و عثمانِ علمبردار ہیں 
بیکسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلبیت 

تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں 
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلبیت 

قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر 
وارثِ بے وارثوں کو کاروانِ اہلبیت 

فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے 
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلبیت

وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ 
لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلبیت 

ابرِ فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے 
فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہلبیت 

کس مزے کی لذ تیں ہیں آبِ تیغِ یار میں 
خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلبیت 

باغ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا 
اے زہے قسمت تمھاری کشتگانِ اہلبیت 

حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے 
آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلبیت 

کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بیکسی 
آج کیسا ہے مریض نیم جانِ اہلبیت 

گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے 
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت 

سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند 
اور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلبیت 

دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر 
کربلا مین خوب ہی چمکی دوکانِ اہلبیت 

زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا 
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلبیت 

اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے 
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہلبیت 

اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں 
لعنۃ اللہ علیکم دشمنانِ اہلبیت 

بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن 
یوں بیاں کرتے ہیں سنی داستانِ اہلبیت​

محرم الحرام کے حوالے سے اہم باتیں


📚سوال:تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟

📚جواب:اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن 

 📚سوال:تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟

📚جواب:اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 📚سوال:محرم الحرام میں ناجائز رسومات کیا ہیں

📚جواب:اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں

(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

 📚عاشورہ کا میلہ

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔

(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 📚دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 📚کڑے، چھلے اور ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی مرد کو پہننا جائز ہے اور دو انگوٹھیاں یا کئی نگ کی ایک انگوٹھی یا ساڑھے چار ماشہ خواہ زائد چاندی کی (پہننا ناجائز ہے) اور سونے، کانسی، پیتل، لوہے اور تانبے (کی انگوٹھی، چھلے، کڑے) مطلقاً ناجائز ہیں۔ (احکامِ شریعت حصہ دوم، ص 80)

 📚یزید کو ’’رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ کہنا ناصبی ہونے کی علامت ہے

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یزید بے شک پلید تھا۔ اسے پلید کہنا اور لکھنا جائز ہے اور اسے ’’رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ نہ کہے گا مگر ناصبی کہ اہلبیت رسالت کا دشمن ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 14، ص 603، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

حضرت سید شاہ تراب الحق قادری رحمة الله تعالى کی زندگی پر ایک نظر

پیر طریقت رہبر شریعت مرد مومن مرد حق 

حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری نوری جیلانی رحمة الله تعالى

  کی زندگی پر ایک نظر


کراچی،علامہ شاہ سید تراب الحق قادرى علیہ رحمہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو بھارتی شهر حیدرآباد دکن کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری علیہ رحمہ جبکہ والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا۔ علامہ شاہ سید تراب الحق قادرى علیہ رحمہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔آپ کا خاندان تقسیم ہند سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیے۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد سسر ع پیر طریقت رہبر شریعت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمة الله تعالى کے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے دینی تعلیم حاصل کی۔آپ کا نکاح 1966ء میں علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمة الله تعالى کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے اﷲ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطاکیں۔
تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔1968ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمة الله تعالى(متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاحب رحمة الله تعالى کے ہاتھ پر بیعت کی۔
تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیﷺ میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ علامہ شاہ سید تراب الحق قادرى علیہ رحمہ نے سیاست میں بھرپورکردار ادا کیا۔جماعت اہلسنت کی خدمت کے حوالے سے آپ متعدد عہدوں پر فائز ہوئے جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں
1: کونسلر، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن
2 چیئرمین، تعلیمی کمیٹی کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن،
3 رکن،لاء کمیٹی کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن
4 رکن ، انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی
5 رکن قومی اسمبلی 1985ء میں حلقہ NA-190 کراچی سائوتھ، جماعت اسلامی کراچی کے محمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی میں نظام مصطفی گروپ بنایا،
6 چیئرمین، انسداد جرائم کمیٹی کراچی،
7 ڈائریکٹر، جاویداں سیمنٹ فیکٹری (سرکاری نامزدگی)
8 رکن ، مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان
9 چیئرمین، مدرسہ انور القرآن قادریہ رضویہ کراچی،
10چیئرمین، جامعہ انوار القرآن قادریہ رضویہ گلشن اقبال کراچی
11چیئرمین، مصلح الدین ویلفیئر سوسائٹی کراچی
چیئرمین، المسلم ویلفیئر سوسائٹی کراچی،
13: ٹرسٹی / ناظم تعلیمات، دارالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی
،14: امیر، جماعت اہلسنت پاکستان کراچی،
15: ناظم، جماعت اہلسنت ورلڈ
،16: رکن، کمیٹی برائے سنی سیکریٹریٹ لاہور
،17: پہلے رکن سنی تحریک علماء بورڈ،
18: سرپرست اعلیٰ تحریک عوام اہلسنت،
19: سرپرست اعلیٰ تحریک اتحاد اہلسنت
20: سرپرست اعلیٰ بزمِ رضا،
21: سرپرست اعلیٰ دارالعلوم مصلح الدین
،22: سرپرست اعلیٰ جمعیت اشاعت اہلسنت
23: رکن سنی رہبر کونسل
24: رکن سنی اتحاد کونسل
25: سرپرست انجمن اشاعت اسلام،(جو 1986ء میں تقریبا ختم ہوگئی، پھر 1991ء میں حضرت علامہ مولانا عرفان صاحب ضیائی نے جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کے نام سے حضرت شاہ صاحب کی سرپرستی میں قائمکی جو اب تک کام کررہی ہے)۔
علامہ شاہ سید تراب الحق قادرى علیہ رحمہ نے تفسیر، حدیث شریف، فقہ حنفی، عقائد، تصوف اور فضائل وغیرہ کے موضوعات پر مندرجہ ذیل کتب لکھ کر علمی خدمات سرانجام دیں
1: تصوف و طریقت
2: خواتین اور دینی مسائل
3: ضیاء الحدیث
4: جمال مصطفیﷺ
5: امام اعظم ابوحنیفہ رح
6: مزارات اولیاء اور توسل
7: فلاح دارین
8: رسول خدا کی نماز
9: مبلغ بنانے والی کتاب
10: حضورﷺ کی بچوں سے محبت
11: دینی تعلیم
12: تفسیر سورۂ فاتحہ
13: مبارک راتیں
14: اسلامی عقائد
15: تفسیر سورۂ والضحیٰ تا سورۂ الناس
16: جنتی لوگ کون؟
17: مسنون دعائیں
18: فضائل شعبان المعظم
19: فضائل صحابہ و اہلبیت
ان کی اور بھی بے شمار سیاسی و دینی خدمات ہیں ۔ جو یہاں مختصر تحریر میں جمع کرنا ممکن نہیں۔

اسلام نے عورت کو کیا دیا

اسلام نے عورت کو کیا دیا

اسلام سے پہلے ماں کا مقام 
ماں وہ پاکیزہ رشتہ ہے کہ جس کا خیال آتے ہی ایثار، قُربانی، وفاداری اور شفقت و مہربانی کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے لیکن افسوس اِسلام سے پہلے محبّت و رَحمت کی پَیکر ماں  کو  زمانَۂ جاہلیت نے اذیّتوں اور دُکھوں کے سوا کچھ نہ دیا۔اپنا ہی بیٹا باپ کے مرنے کے بعد ماں کو مہر کے بدلے فروخت کر دیت ا،کبھی اسی ماں کو جائیداد کی طرح بانٹ لیتا توکبھی باپ کی بیوہ کو (مَعَاذَ اللہ) بیوی بنا لیتا۔ اسلام نےان جاہِلانہ رُسومات کایوں خاتمہ فرمایا:
ترجمۂ کنزالایمان
(اے ایمان والو تمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کے وارث بن جاؤ زبردستی    (پارہ #4/ النساء19
دوسرے مقام پرفرمایا

(اور باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو.    (پارہ # 4/ النساء:22

اسلام سے پہلے ماں کو نہ صرف وراثت سے محروم کر دیا جاتا بلکہ اس کی اپنی  دولت چھین کر اُسے”مال و متاع“ کی طرح آج اِدھر تو کل اُدھر  رہنے پر مجبور کردیا جاتا جبکہ اسلام نے ماں کو وراثت میں سے کبھی  چھٹے توکبھی  تیسرے  حصّے کا حق دار قرار دیا۔    پارہ #4/ النساء 11

اسلام نے ماں کو عظمت دی
اسلامی تعلیمات سے دور، غیراِسلامی مُعاشَروں میں آج بھی ماں کی حالت دورِجاہلیت کے رَوَیّوں سے زیادہ مختلف نہیں ۔جس  ماں نے  نو (9) مہینے تک خونِ جگر سے بچے کی پرورش کی، اس کی ولادت کی تکلیفوں کو برداشت کیا، ولادت کے بعد اس کی راحت کے لئے اپنا آرام و سکون  نچھاور کیا اُس ماں کو گھر میں عزّت  کا مقام دینے کی بجائے نہ صرف اس کی خدمت سے  جی چرایا بلکہ کُتّوں کو اپنے ساتھ بستر پر جگہ دے کر ماں کو اولڈ ہاؤس(Old House) کے سپرد کر دیا ہے جبکہ اِسلام میں عورت بحیثیت ماں ایک مُقدّس مقام رکھتی ہے۔ ماں کے قدموں تَلے جنّت، اس کی ناراضی میں رب عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی اور اس کی رضا میں رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا پَوشیدہ ہے۔ اسلام اولاد کو ماں  کی خدمت  اور اس کے ساتھ حُسنِ سُلوک کا پابند بناتا ہے۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہا  کے آنے پر اُن کےلئے اپنی مُبارَک چادر بچھادی۔
(ابوداؤد # جلد: 4/ صفحہ :434/ حدیث: 5144)

 ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ کے تین بار یہ پوچھنے پر کہ میرے حُسنِ سُلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ تین بار فرمایا: تیری ماں، چوتھی بار اسی سوال کے جواب میں فرمایا :تیرا باپ۔
 (بخاری #جلد : 4 /صفحہ :93 / حدیث: 5971)

ماں کی خدمت کا درس:
اسلام ماں کی خدمت  کا درس دیتا اور اطاعت گزار اولادکے لیے محبت و شفقت سے ماں یا باپ  کے چہرے پر ڈالی جانے والی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کی بشارت عطا فرماتا ہے۔
 (شعب الایمان # جلد :6 /صفحہ :186/ حدیث:7856)
یہ اسلام ہی ہے جس نے والدہ کو جنّت کا درمیانی دروازہ قرار دیا۔ (مسنداحمد # جلد: 8/ صفحہ :169 /حدیث: 21785)

ماں کی خدمت نے ہی ایک قصّاب (گوشت کا کام کرنے والے) کو جنّت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا پڑوسی بنا دیا۔ (درّۃُ الناصحین #صفحہ :52)

بزرگانِ دین کا اپنی ماؤں کے ساتھ رویہ:
جن ماؤں نے اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دی انہوں نے اپنےاَقوال واَفعال سے ماں کی عظمت کو یوں ظاہر فرمایا: حضرت عبداللہ بن عَون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے والدہ کے سامنے آواز اُونچی ہو جانے پر دوغلام آزاد کئے ۔
(حلیۃ الاولیاء # جلد: 3/ صفحہ :45/ رقم:3103)

مشہور تابعی بزرگ حضرت طَلْقْ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُس مکان کی چھت پر تعظیماً نہ چلتے جس کے نیچے ان کی والدہ ہوتیں۔
(برالوالدین #صفحہ :78)

اسلام کے ان احسانات  کی قدر کرتے ہوئے ہر ”ماں“ کو چاہئے کہ خود بھی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرے اور اپنی اولاد کو بھی علم ِ دین کے زیور سے آراستہ کرے۔
اسلام نے ماں کو کتنی عظمت سے نوازا

محرم کے حوالے سے اہم باتیں

تعزیہ بنانا کیسا ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے.
(فتاویٰ رضویہ جدید # جلد : 24 / صفحه :501 / مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے.
(ملفوظات شریف # صفحه : 286)

تعزیہ پر منت ماننا کیسا ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے.
(فتاویٰ رضویہ جدید #جلد : 24 / صفحه : 501 / مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(فتاویٰ رضویہ # جلد : 21 / صفحه : 246 / مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

محرم الحرام میں ناجائز رسومات

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی ﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں

(فتاویٰ رضویہ جدید # صفحه : 488 ة جلد :24 و مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مجلس علماءاهلسنت شاه فیصل ٹاؤن کراچی

جہاد سے دہشت گردی تک



سپہ سالا ر  اس فتنے کے خاتمے کے لیے روانہ ہو چکا تھا نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج سے وادیاں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔
شیخ الجبال حسن بن صباح کو اس لشکر کے آنے کی خبر مل چکی تھی ۔۔۔۔ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر  جذبہ جہاد سے سرشار تھا اس سے مقابلہ آسان نہیں تھا اس کی  ساری فدائی فوج کم پڑ جاتی اگر دوبدو مقابلہ ہوتا ۔۔۔۔
شیخ الجبال  حسن بن صباح نے اپنے ایک خاص آدمی کو طلب کیا اور اس کو حشیش کا نشہ دے کر کہا اس لشکر کو گمراہ بھی کردو اور انہیں یہ نشہ  پلا دو تاکہ کچھ ہی دیر میں بھٹک کر تھک جائیں ۔۔۔۔۔ان کا زادِ راہ برباد ہو جائے ۔۔۔۔ان کی ہمت ختم ہو جائے ۔۔۔۔پر یہ اگر جرأت کر بھی بیٹھیں تو فدائیوں کے لیے ترنوالہ ثابت ہوں ۔۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب حج سے قافلے واپس لوٹ رہے تھے شیخ الجبال کے خاص آدمی نے حاجی کا روپ دھارا اور جا کر  اس لشکر سے مل گیا  لشکر کے ایک امیر نے اس سے کہا : تم نے  شیخ الجبال حسن بن صباح  کا نام سُنا ہے
حاجی نے جواب دیا  اس  راندہ ردگاہ بد بخت ابلیس کا نام کس نے نہیں سُنا  حجاز سے لے کر یہاں تک   اسی کا نام سنتا آرہا ہوں لوگ تو اسے اللہ ، نبی ، ولی اور امام نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔
کیا تم ہمیں اس کا قلعہ الموت کا راستہ بتا سکتے ہو ؟ امیر نے سوال کیا
کیوں نہیں اس نیک کام میں  ،میں آپ کے ساتھ ہوں  اگر میرے ساتھ میری  بیوی نہ ہوتی تو آپ کو وہاں تک پہنچا کر آتا  ۔
آپ سے دعا کی درخواست ہے امیر نے  حاجی سے درخواست کی
آپ یہ مدینے کی کھجور کھائیے اور بلکہ یہ سارے لشکر میں  ایک ایک ،سب سپاہیوں  کو کھلا دیجیے اس کے ساتھ ہی یہ آب ِ زم زم ہے  اگر آپ کے پاس پانی موجود ہو تو  میں اس میں ملا دیتا ہوں تاکہ سارا لشکر اس بابرکت  پانی کو پی لے اور اس کی برکت سے فتح آپ کے قدموں کو چومے ۔۔۔۔۔۔
ذرا سی دیر میں  بھنگ پورے  لشکر میں پھیل گئی ۔
اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا نہیں اور اس میں گٹھلی بھی نہیں ہے ۔۔۔امیر نے سوال کیا
یہ وہاں کی خا ص کھجور ہے   امیر محترم !  حاجی نے ادب سے کہا
اس کے بعد یہ قافلہ اپنی منزل سے بھٹک گیا  جب کچھ ہوش آیا تو آدھے سے زیادہ لشکر غائب تھا کچھ تو راستے سے واپس چلے گئے سامان زادِ راہ برباد ہو گیا ۔۔۔حاجی نے جو راستہ بتایا تھا  وہ ایک اونچی جگہ جا کر بند ہو جاتا   لشکر جب واپس پلٹا تو کئی گھوڑے اور سپاہی اس بلند چوٹی سے  گہری کھائی میں جا گرے ۔
تھکا ماندہ سپہ سالار جب  حسن بن صباح کے سامنے پہنچا تو  حسن بن صباح نے اس سے پوچھا تم کیوں آئے ہو ؟
حاجی کا دیاہواآب  زم   زم  اپنا اثر دکھا رہا تھا سپہ سالار بھول چکا تھا وہ یہاں کس مقصد کے لیے آیا ہے ۔۔۔۔
حسن بن صباح نے  بازو اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف د یکھتے ہوئے  کہا
فرشتے اتر آئے ہیں ۔۔۔۔۔دشمن شکست کھا چکا۔
تیر اندازوں کو اشارہ کیا اور سپہ سالار کے ساتھ آئے دونوں سپاہی مار دئیے گئے تم بھی چلے جاؤ سلجوقی  سپاہی ورنہ قہر خداوندی کا شکار ہو جاؤ گے ۔۔۔۔ایک سپاہی بھی زندہ لوٹ کر نہیں جا سکے گا ۔
بد  حواس سپہ سالار واپس  پلٹا اور چل دیا
قلعے کے نیچے ایک شور بپا تھا امام کا معجزہ دیکھو ۔۔۔۔ واہ واہ کا شور بپا تھا
مجھے ایسا لگا جیسے تاریخ مجھے یہاں کچھ سکھانا چاہتی ہے ۔۔۔۔
تمام  سوالات میرے سامنے  سراپا احتجاج تھے ۔۔۔۔۔
کیا پہلے جہاد نہیں کیا ہم نے ؟ ۔۔۔۔۔انجام معلوم ہے ؟۔۔۔۔۔بارود اپنے ہی گھر میں پھٹنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر بندوق تانے ہوئے تھا ۔۔۔۔مرنے والا بھی مسلمان مارنے والا بھی مسلمان ۔۔۔۔ہمارے اپنے کندھوں پر ہمارا اپنا ہی لاشہ تھا۔۔۔۔۔اب تم ہی بتا ؤ یہ’’ جہاد سے دہشت گردی تک ‘‘ سفر پر تم کیا کہو گے ؟۔۔۔۔الحاد و سیکولر ازم کی راہ کون ہموار کررہا تھا؟۔۔۔۔
سوالات کی تند و تیز آندھی  نے مجھے ہلا دیا ۔۔۔۔۔مجھے سچائی کا سامنا  تھا
پھر ایسا ہی ہوا تاریخ کے تمام  اوراق تیزی سے  اڑنے لگے  ۔۔۔۔ٹمٹماتا دیا  بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا کہ یکا یک تیز ہوا نے اس کی سانسوں کا گلا گھونٹ دیا ۔۔۔۔۔لیکن تاریخ  کے اوراق بتا رہے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مظلوموں کے لیے جہاد کی بات کرو گے   تو یاد رکھنا! تمہارا دشمن حسن بن صباح سے کہیں زیادہ چالاک و مکار ہے ۔۔۔۔۔۔
آبِ زم زم اور کھجوروں کے تبرک میں کیا موجود ہے ؟۔۔۔۔جبہ و دستار میں کون ہے ؟۔۔۔۔۔قال اللہ و قال  الررسول  ﷺ کی آوازوں کے عقب میں کون چھپا بیٹھا ہے ؟۔۔۔۔
تعاقب کرو!!!!!!!!!!!سوچنے کی باتیں ہیں یہ سب ۔۔۔۔سب مسالک کے لیے ۔۔۔۔۔۔
یاد رکھنا !!!
یہ صباحیت رنگ بدلتی ہے ۔۔۔۔۔۔کسی بھی روپ میں کہیں بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔امام کعبہ کے روپ میں کرنل لارنس آف عربیہ تم سے پوشیدہ تو نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔فقیر کے  بھیس میں مہاجنوں کی کمی  نہیں۔۔۔۔پیر و مرشد ، مفتی صاحب ، اکابر سے لے کر مقابر تک جگہ جگہ صباحیت کے جال بچھے ہوئے ہیں ذرا بچ کر ۔۔۔۔۔
تکبیر جہاد کی گونج سے دشمن کی جگرکانپ اٹھتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر صباحیت چالیں چلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔تیز ہوا نے ایک مرتبہ پھر تاریخ کے صفحات کو بکھیر دیا
کیسی چالیں ؟ میں ان کی ہر چال کو الٹ دوں گا میں نے ایک عزم سے کہا
سنو! اس کی چال سمجھ لو ۔۔۔۔
  تمہاری صفوں میں چھپا ہوا حسن بن صباح  امریکہ مردہ باد کا نعرے لگاتا جاگ اٹھتا ہے اور قلعہ الموت میں بیٹھ کر  اپنے فدائیوں سے کہتا ہے ہمارا اصل ہدف ہندوستان کے بت کدے نہیں ہیں بلکہ ہمارا اصل ہد ف  عبد اللہ شاہ  غازی کا مزار ہے ۔۔۔۔داتا دربار ہے یہ شرک کے اڈے ہیں ہمیں انہیں اڑانا ہے ۔۔۔۔نبی کریم ﷺ کا مزار پر انوار صنم اکبر ہے اس کو جب موقع ملے گا گراد یں گے۔۔۔۔
یہ صباحیت ہے
یہ حسن بن صباح تمہاری صفوں میں موجود  چند نادانوں کی غلطی کی سزا پوری  قوم کو دینا چاہتا ہے ہر وہ شخص  جو اکابر پرستی میں مبتلا بھی نہیں اسے گستاخ قراردے کر  تمہارے مد مقابل کھڑا کر دیتا  ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ صباحیت ہے
یہ حسن بن صباح  فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسلام کے دفاع اور کفر کے خلاف نکلنے والے لشکروں کو آپس  میں لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔یہ وہ صباحیت  ہے اگر تم نے اس سے جان نہیں چھڑائی تو تم کامیاب نہیں ہو سکو گے ۔
تم روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔  مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر تمہاری صفوں میں موجود حسن بن صباح مزارت کو بموں سے اڑوائے گا ۔۔۔۔ایک دوسرے پر کفر و شرک اور گستاخ  کے فتوے لگا کر قتل کروائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد  سے لے کر مزار تک اور محافلِ میلاد سے لے کر  مدارس تک مذبح خانے بن جائیں گے ۔
دوستو! اختلافات کو حل کر لو اور بانجھ بحث کو سمیٹ لو۔
تاریخ سے فرار ممکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے امت ِ مسلمہ جب تمہیں کوئی  انتشار کی ایسی دعوت دے تو سمجھ جانا  تمہاری صفوں میں کوئی حسن بن صباح موجود ہے جو تمہارے خون کے ذریعے صباحیت کا پرچار کررہا ہے ۔۔۔۔۔
اسوۂ رسول ﷺ کو اپنے پیش نظر رکھنا آپ ﷺ نے پہلے تربیت فرمائی تھی  ۔۔۔۔۔
یاد رکھنا !جہاد سے قبل تربیت بہت  ضروری ہے ورنہ کوئی بھی  حسن بن صباح     تبرک سےتقدس تک کا علم بلند کر کے نقب لگا جائے گا ۔

کربلاِ ثانی سے بنتِ حوا کی پُکار

دلوں کو جھنجھو
دلو
برما کی مظلوم  مسلمان بیٹی   
جلد ا ز جلد اس پیغام کو مسلمانوں تک پہنچائیں

Share🌐شئیر

بستی  میں خوف و ہراس پھیل چکا تھا ، خوف کے سبب کلیجے منہ کو آگئے  ۔۔۔۔چاروں طرف سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے ۔
مائیں اپنے بیٹوں کو دیکھ رہی تھی  جو کچھ ہی دیر بعد بے رحمی سے ذبح کر دئیے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔خوف زدہ نگاہوں نے بیٹیوں  کے وجود کا طواف کیا ہزار ضبط کے باجود ماؤں کی  چیخیں نکل گئیں ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سفاک درندے بستی میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔مکروہ چہروں سے چھلکتی سفاکی  بے بس نوجوانوں کو ذبح کرنے کے بعد  مسلم دوشیزاؤں کے جسم کو اپنی درندگی  کا شکار  بنانے کو تیار تھی ۔۔۔۔۔۔
نومولود بچوں کو جلتی ہوئی آگ میں پھینکا جا رہا تھا ۔۔۔۔
 تم کیوں میر ی جان لینا چاہتے ہو ؟ بے بس  مسلمان بہن جس نے  ابھی ابھی اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے باپ اور بھائی کو ان درندوں کے ہاتھوں ذبح ہوتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔برما کی مظلوم مسلمان بیٹی ،ان ظالموں سے پوچھ رہی تھی ۔
تم محمد(ﷺ) کا کلمہ پڑھتی ہو ۔۔۔۔تم مسلمان ہو ۔۔۔تم یہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے ۔۔۔۔۔۔
یہ دین تو مجھے جان سے بھی زیادہ پیار ا ہے اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ہم نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔تمہارے مذہب پر انگلی بھی نہیں اٹھائی پھر تم کیوں ہمیں  زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے؟ ۔۔۔۔۔کیوں ہم مظلوموں کو مارتے ہو  ؟۔۔۔۔۔ کیا بگاڑا ہے ہم نے تمہار ا؟
اتنی حق گوئی ۔۔۔۔اتنی جرأت  وہ بھی  بدھ مت کے سفاک   پیروکارو ں کے سامنے ؟
اس عورت کی عزت کو تار تار نہیں کیا گیا بلکہ اس کی وڈیو بھی بنائی گئی ۔۔۔۔۔۔اس نے روتی ہوئی آ نکھوں ،درد و الم سے  چور چور  وجود کے ساتھ کہا: تم نے میرے باپ بھائی اور ماں کو میرے سامنے قتل کیا  لیکن تمہاری درندگی کی آگ نہیں بجھی  ،پھر تم نے میری عفت و عصمت کو تار تار کر دیا اب کم از کم اس کی وڈیو تو مت بناؤ ۔۔۔۔۔۔
درندوں کے قہقہوں سے بستی گونج اٹھی ارے   او  بنتِ اسلام  ! اس  وڈیو کو سوشیل میڈیا پر ڈالیں گے پھر ساری دنیا میں موجود تیرے مسلمان بھائی اس کو دیکھ کر تڑپیں گے اس لذت   کااپنا مزہ ہے ۔۔۔۔ مسلمانوں  کی تڑپتی لاشوں  کو دیکھنے میں جومزہ ہے وہ رقصِ طوائف اور سرورِ شراب میں بھی نہیں ۔۔
اب محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی جیسی غیرت کسی مسلمان میں نہیں رہی ،یہ کہہ کر ان درندوں نے    تیز دھار برچھی اس لڑکی شرمگاہ میں ڈال دی اور بنت ِ اسلام کی فلک شگاف چیخوں پر قہقہے لگانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزم لگانے والو؟
کہاں ہیں وہ سیکولر ولبرل دانشور جو ہمہ وقت اسلام کے خلاف بکواس کرتے  رہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔کچھ منافقت ہی سہی ان مظلوم مسلمانوں کے لیے تم بھی لکھ دو ۔۔۔۔آسیہ ملعو نہ  کی حمایت میں   تو تمہارا قلم خوب گرجتا اور برستا ہے بنات ِ اسلام کی چیخوں پر تمہارا قلم کی  رفتار مدھم کیوں ہو جاتی ہے ؟۔۔۔پیرس کے اخبار پر  حملہ خوب ہائی لائیٹ کیا جاتاہے روہنگیا کے   مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر   تمہارے لب کیوں سل جاتے ہیں ؟
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
ایک انسان کی جان کی حرمت کعبے کی حرمت سے زیادہ ہے۔
  تو اے غلافِ کعبہ سے آنکھیں مس کرنے والے مسلمانو!
اے حجراسود کے عاشقو ! ۔۔۔۔۔اپنے لبوں سے  کعبے کو چومنے والے مسلمانو!
سوشیل میڈیا پر موجود سینکڑوں وڈیو ز موجود ہیں میانمار میں مسلمان بچوں کا گوشت کاٹ کر بدھسٹ کھا رہے ہیں ۔۔۔۔۔خواتین کی عفت و عصمت کو تار تار کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔سفاکی ودرندگی کی انتہا ہو چکی ہے  مگر اقوامِ متحدہ خاموش ۔۔۔۔یورپین ممالک خاموش ۔۔۔۔مسلم ممالک بزدلی ،کم ہمتی کی چادر سے منہ ڈھانپے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔
احبابِ من ! میری آواز کو طاقت دے دیجیے ۔۔۔۔۔اس آواز کو آپ میرے ساتھ مل کر بلندکریں...ہر مسلمان مقرر,مدرس,مفکر,صحافی,عالم تک اس تحریر کو ضرور پہنچا دیجیے ۔
ہم سب مسلمان!!!!!!!!!! آواز بن جائیے روہنگیا  کے مسلمانوں کی ۔۔۔۔۔پوری ہمت  جرأت اور قوت کے ساتھ ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کیجیے اسلامی ممالک کی قیادت کو برانگیختہ کیجیے  کہ وہ  اپنی فوج کو   برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے بھیجیں ۔۔۔۔عالمی سطح پر ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی جائے اور مسلمانوں کے لیے  اندھی بہری اقوام متحدہ  کو  جھنجھوڑا جائے یا  پھر عام مسلمانوں کو جہاد کی  عام اجازت دی جائے  کیونکہ قرآن کا یہ ہی حکم ہے ۔
وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚ ۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا 75:04
اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں  اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئیے آواز بنیے ! برما کے مظلوم مسلمانوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سمت مچلتی کرنوں نے افسوںِ شبِ غم توڑ دیا
اب جاگ اٹھے ہیں دیوانے دنیا کو جگا کر دم لیں گے
ہم امن و سکوں کے داعی ہیں سب ظلم مٹا کر دم لیں گے
ہم حق کا نشاں ہیں دنیا میں باطل کو مٹا کر دم لیں گے
یہ بات عیاں ہے دنیا پر  ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں
یا بزم جہاں مہکائیں گے یا جامِ شہادت پی لیں گے