ویب سائٹ زیر تعمیر ہے کسی بھی پریشانی کی صورت میں معزرت
Welcome to The Best Islamic Education Website by Thareek e Tahaffuz e Ahlesunnat Pakistan | Spreading The teachings of Qur'an O Sunnah in Social Media |.....Thanks for Visit..... Please help to spread The light of education....Do you want to Publish Your Article?? in This Website if you want to write your Articles??? Write your full name and please send us....Help me to make this website better with your support Jazak'Allah All Post & Articles are copyright © thareeketahaffuzeahlesunnat.blogspot.com

مچھیرے کی عبرتناک کہانی



ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک مچھیرا تھا- اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔

ايک دن كی بات ہے، مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو چھیل كاٹ رہی تھی كہ، اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا- ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ سے نمودار ہوا سبحان اللہ!!

سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔ بیوی نے مچھیرے کو مخاطب کیا-
كيا ملا ہے؟ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی۔ كہا سے ملا ہے؟ مچھلی کے پيٹ سے۔ لاؤ مجھے دکهاو، لگتا ہے، آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔

!مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔ اسلام عليكم! و عليكم اسلام
.جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كے پيٹ سے موتی ملا ہے۔ جی بتائیں مجھے، ميں ديكھتا ہوں
اوہ!! يہ تو بہت عظيم الشان موتی ہے۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں- میں چاہے اپنا گھر، دكان اور سارا مال و اسباب كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کرسكتا- تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔ ہوسكتا ہے كہ وہ اس کی قيمت ادا كرسكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔

مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔ مجھے دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔ بھائی، ميرے پاس اس كو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔ ليكن ميرے پاس اس كا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اس كے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔  مچھیرا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے چل پڑا

مچھیرا شہر کے والی کے پاس جا پہنچا- اور فرمایا : ميرے  آقا، يہ ہے ميرا قصہ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔ سبحان اللہ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہوپائے گی۔ آقا، 6 گھنٹے!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كے لئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں- نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔

مچھیرا والی شہر كے خزانے ميں داخل ہوكر دنگ ہی رہ گيا، بہت بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔

مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا، 6 گھنٹے؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كے لئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟ خير!! كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔

مچھیرا خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔ اور وہ بھی محض كھانا، كھاتے ہوئے۔

اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كرليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا- مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا چلا گيا۔

اُٹھ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہوچكی ہے۔ ہائيں، وہ كيسے؟ جی!! تو نے ٹھيک سنا ہے- نكل ادھر سے اب باہر۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔ اچھا!! تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔ اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كے لئے كافی وقت ديا گيا تھا۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد سکتا،  اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنوا سکتا- ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑگيا۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔ نكالو باہر اس كو۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔ مچھیرا منتیں کرتا رہ گیا لیکن کسی نے اس کی ایک نہیں سنی

!وہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے
ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا آپ لوگوں نے؟
!وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جاسكتا
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔
اس كی عظمت كو ديكھ دیکھ اس كے حصول كے لئے ہم كيسے مگن ہيں؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات، وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر 
وہ تيری غفلت ہيں۔
!اور وہ كھانا پينا
وہ شہوات ہيں۔
!اور اب اے! مچھلی كا شكار كرنے والے دوستوں 
!اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جائیں
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔
اور جمع كرنا شروع كردے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہوجائے۔
تجھے محض حسرت ہی رہ جائے گی۔
خزانے پر مامور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی مہلت نہیں دینی- اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے
اب بھی وقت ہے سنبھل جاو کہی دیر نہ ہو جائے 

اللہ رب العزت سبھی کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے 

Manqabat Mai gada e Khawaja e chisht hu

Ya Khawaja Ya Khawaja Ya Khawaja
Mai gada e Khawaja e chisht hu
Muje is gadai pe naaz hai
Mera naaz Khawaja pe kyu na ho
Mera Khawaja banda navaz hai

Us ke karam ke sab hai bhikari
Kya raaja maharaja hai
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera khvaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Haidar ka ladala hai
Vo zahra ka laal hai
Beshak mera moeen
Muhammad ki aal hai
Deewanon ko kis baat ka
Akhir manal hai
Khawaja ko apni praja ka
Pura khayal hai
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khawaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Har ankh chahti hai
Ziyarat mueen ki
Har dil mai bas gai hai
Muhabbat mueen ki
Is sarzamin e hind ke
Shahon ne keh diya
Mehshar tak rahegi
Chahat mueen ki
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khvaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Ham garibon ki sadaon
Ne bulaya hai tuje
Hind ka shah Muhammad ne
Banaya hai tuje
Kaise aaye ga koi
Harf hukumat pe teri
Panjatan paak ne kursi par
Bithaya hai tuje
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khvaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Pyara hai Hasanain ka
Beshak nabi ki aal hai
Sanjar vala peer mera
Saiyeeda ka laal hai
Mast mastan hai
Har haal mai khush hal
Chishti e daman ko jo pakda
Vo maalamaal hai
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khawaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Tu bardabar ki thokaren
Ik baar khake dekh
Milta hai kya kisise
Zara aazmake dekh
Tu jin se mil raha hai
Ye saare gulam hai
Raja ko dekhna hai
To ajmer jaake dekh
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khawaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja
Dar e Khawaja pe savali ko
Khada rehne do
Sar nadamat se juka hai
To juka rehne do
Mujko mil jaaye ga sadka
Mai chala jaunga
Kasa e dil mera kadmon me
Pada rehne do
Khud hi farmaenge mujrim pe
Vo rehmat ki nazar
Mujko Khawaja ki adalat mai
Pada rehne do
Mueenuddin...
Kursi par koi bhi baithe
Raja to mera Khawaja hai
Sare hind ka hai raja
Mera Khawaja Maharaja

قوم مذہب سے ہے, مذہب جونہیں,تم بھی نہیں


قوم مذہب سے ہے,مذہب جو نہیں,تم بھی نہیں

قوم عام گروہ اور جماعت کو کہتے ہیں اور ایک نسب اور وطن کے لوگوں کو بھی کہتے ہیں جن کو پیغمبروں سے تعلق تھا...لیکن ہماری زبان میں قوم کا اطلاق اُس جماعت پر ہوتا ہے جس کا تعلق کسی ایک دین یا مذہب سے ہو- چناچہ پاکستان خود ہندو اور مسلم دو قوموں کی تفریق سے وجود میں آیا-ملّت کا تعلق بھی پیغمبروں سے ہے جن کے ذریعے دستورِ الٰہی کا نفاذ ہوا...

(مِلّٙةٙ اٙ بِیْکُمْ اِ بْرٰ ھِیْمٙ  (ط

ترجمہ: یہ تمھارے باپ ابراھیم کی ملت ہے.

سورة الحج آیت نمبر 78

چناچہ ملت و قوم وطن سے نہیں بلکہ دین سے بنتی ہے....
اسی لیے مفکرِ ملت علامہ اقبال فرماتے ہیں

قوم مذہب سے ہے, مذہب جونہیں,تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں,محفلِ انجم بھی نہیں

اسی لیے مسلمانوں اپنے دین سے آشنا رہو اور ملک و ملت کے دشموں کو پہچانو اسلام اور اہل اسلام کی سر بلندی و عروج کے لیے کوششیں کرتے رہو.
----------------------------------------------
💠💠💠از ✍💠💠💠
خادمِ اہلسنت خاک پائے علماءِ حق
💠💠💠💠💠💠💠💠💠💠💠💠

کلمہ سے فتح ہونے والا شھر___بہترین واقعہ ضرور پڑھیں


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے کسی ایسے شہر کو سنا کہ جس کا ایک کنارہ خشکی پر ہے اور ایک کنارہ سمندر میں ہے؟ تو لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ ستر ہزار کا لشکر حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوگا اس شہر پر جہاد کرے گا اور جب اس شہر کے پاس وہ لشکر پہنچے گا نہ تلوار سے جنگ کرے گا نہ کوئی تیر چلائے گا بلکہ صرف لا الٰہ الااللہ کہے دے گا تو شہر کا ایک کنارہ جو سمندر کی جانب ہوگا گر پڑے گا پھر دوسری مرتبہ لا الٰہ الااللہ کہے گا تو شہر کا دوسرا کنارہ گر پڑے گا پھر تیسری مرتبہ لا الٰہ الااللہ کہے گا تو شہر فتح ہوجائے گا اور یہ لشکر شہر میں داخل ہو کر مالِ غنیمت حاصل کرے گا اور یہ لوگ اس مالِ غنیمت کو تقسیم کر رہے ہوں گے کہ اچانک کوئی شور مچانے والا یہ کہے گا دجال نکل پڑا تو یہ لشکر سب کچھ چھوڑ کر شہر سے واپس ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
(مشکوٰة ،ج 2،ص 468بحوالہ مسلم)

: تبصرہ

<1>
 شارحین حدیث نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ روم کا ایک شہر ہے اور بعض علماء کا بیان ہے کہ یہ شہر قُسطنطُنیہ ہے. اور یہ لشکر ملک شام کا ہوگا جو حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد ہیں اور قرب قیامت میں یہ شہر فتح ہوگا... اور اس کے بعد ہی دجال نکلے گا چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جنگ عظیم اور قسطنطنیہ کا فتح ہونااور دجال کا نکلنا یہ تینوں واقعات سات مہینے کے اندر اندر رونماہوں گے
(مشکٰوة ,ج2,ص: 468, بحوالہ ترمذی و ابو داود)
<2>
یہ واقعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ہے کہ آپ نے غیب کی خبر دی اور ستر ہزار شامی لشکر کی کرامت بھی ہے کہ ان کے صرف کلمہ پڑھ دینے سے شہر فتح ہو جائے گا...
<3>
اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت تک ہر دور میں صاحبانِ کرامت ہوتے رہیں گے...

پیشکش: تحریک تحفظ اھلسنت پاکستان

بچوں کی نماز ۔۔۔۔۔ والدین کے لیے بہترین اصلاحی تحریر

 بچوں کی نماز 

یقینا بچے قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں, اور افکار کا تسلسل انہیں سے قائم ہوتا ہے, جو فکر, سوچ, میشن آج ہم اپنی اولاد کو دینگے کل اسی کا سورج طلوع ہوگا,
آج ہمارے معاشرے میں جہاں انٹر نیٹ, میڈیا وغیرہ نے ہمارا مستقبل برباد کیا, وہاں قطب الدین بختیار کاکی جیسے بچے بھی بستے ہیں, یہ وہ بچے ہوتے ہیں کہ جن میں دین سے لگاو بڑوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے, میں یہاں ایک فقہی مسئلہ زیر بحث لانا چاہتا ہوں, وہ یہ کہ ہم نے دیکھا اکثر مساجد میں ایسے بچوں کے دینی جزبات کو مجروح کیا جاتا یے, ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے جب امام صاحب اقامت کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں, کہ پندرہ سال سے چھوٹے بچوں کو پیچھے کی طرف نکال دیں, انہیں کونے میں بھی کھڑا نہ کریں.
نا بالغ بچے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت چھوٹے اور شرارتی ہوتے ہیں, مسجد میں شور کرتے ہیں, بھاگتے پھرتے ہیں, ان بچوں کے بارے میں حدیث میں فرمایا کہ اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچا کر رکھو,
(مکمل حدیث دیکھیں, ابن ماجہ,ج3,ص750)

ہم نے دیکھا کچھ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو نماز سکھانے اپنے ساتھ مسجد لاتے ہیں, اور اپنے ساتھ جماعت میں کھڑا کرتے ہیں, اس کے کئ نقصانات ہیں, ایک یہ کہ ایسے بچوں کو مسجد میں لانا منع ہے, اور زمہ دار لانے والا ہوگا, دوسرا یہ کہ وہ بچے دوسروں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں, آپکا تربیت کا جزبہ اللہ سلامت رکھے, مگر ایسے بچوں کو گھر پر نماز سیکھانی چاہئے.
دوسرے وہ بچے جو نابالغ ہوتے ہیں, لیکن باشعور ہوتے ہیں
فقہی اعتبار سے ایسے بچوں کی صف مردوں کے بعد بنائ جاے گی, لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب بچے زیادہ ہوں, اگر ایک دو ہوں تو صف کے درمیان ہی کھڑا کیا جاے گا
جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ایک بچے نے حضور علیہ السلام کی اقتداء کی
چنانچہ اگر صف نامکمل ہو تو ایسے بچوں کو صفوں میں کھڑا کرنا چاہیۓ, بعد میں آنے والے حضرات ان کے پیچھے صف بنائیں, انہیں صف سے نکال کر بحالت نماز پیچھے بھیجنا, مروت و شفقت اور مصلحت کے خلاف ہے
خلاصہ یہ کہ نابالغ سمجھ دار بچوں کو صفوں میں کھڑا کیا جاے, اور سب سے آخر میں ان بچوں کی صف بنای جاے جو ناسمجھ ہوں
اس طرح ان کا دین سے لگاو بڑھے گا, اور انکو سیکھنے کا موقع ملے گا
قصہ مختصر کہ یہ بچے ہماری فکر ہیں, اور اپنی فکر کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیۓ ضروری ہے کہ بچوں کے اندر دین سے لگاؤ پیدا کیا جاے, کیونکہ آج کا بچہ کل کا باپ ہوگا