سوال : کیا عورت کا اعتکاف گھر میں نہیں ہوسکتا?
جواب : خواتین کے اعتکاف کے حوالے سے اہلسنت کا موقف یہ ہے کہ عورت کا مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنا درست ہے, جبکہ وہاں مکمل اہتمام ہو, اور گھر میں بھی اعتکاف درست ہے..
پہلے ہم بات کرتے ہیں عورت کے مسجد جانے پر...
حدیث میں فرمایا:
لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ.
(مؤطا امام مالک,کتاب قبلہ. سنن ابی داؤد,کتاب الصلوة)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کے دور مبارک میں خواتین مسجد میں جاتی تھی, اور اس دور میں بھی علماء فرماتے ہیں کہ عیدین, نماز تراویح, اعتکاف, اور درس و تدریس کے لیے خواتین کا مسجد جانا درست ہے جبکہ پردے کا لحاظ رکھا جاے.
اب یہ دیکھتے ہیں کہ گھروں کو مسجد بنانے کے بارے میں ہمیں اسلام کیا حکم دیتا ہے?
حدیث میں ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ گھروں میں (نماز کی جگہ) مسجد بنای جاے اور ان کو پاک صاف رکھا جاے اور خشبوں لگای جاے.
(سنن ابی داؤد,کتاب الصلوة)
یہ حکم مرد و عورت دونوں کو محیط ہے.
یہاں تک کی تحریر سے یہ بات واضح ہو گئ کہ عورت کا مسجد میں جانا بھی درست ہے اور گھر میں تمام عبادات بجا لانا بھی جائز ہے, اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے لیے اپنی تمام عبادات کو بجالانے کے لیے مسجد بہتر ہے یا گھر بہتر ہے ?
اس پورے مسئلے کو اس حدیث پاک میں حل فرمادیا گیا ہے.
نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا:
"لا تمنعوا نسأکم المساجد و بیوتھن خیر لھن".
ترجمہ: اپنی عورتوں کو مساجد سے نہ روکو اور ان عورتوں کے لیے ان کے گھر بہتر ہیں.
(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة)
سنن ابی داؤد کی ہم جو جو احادیث بیان کرریے ہیں, ان پر امام ابو داؤد رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائ ہے, اور آپ خود فرماتے ہیں کہ جس حدیث پر میں خاموشی اختیار کروں وہ قابل استدلال ہے.
اس حدیث سے مسئلہ سورج سے زیادہ واضح ہوگیا کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت ہے, وہ مسجد میں, نماز عید, نماز تراویح پڑھ سکتی ہے, اعتکاف کر سکتی ہے, مگر فرمایا و بیوتھن خیر لھن ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں.
تو ثابت ہوا کہ عورت کا گھر میں اعتکاف میں بیٹھنا مسجد میں بیٹھنے سے افضل ہے..
اب مسئلہ رہ جاتا ہے پانچ وقت کی نماز کا کہ آیا خواتین پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کریں یا گھر میں?
اول تو یہ حدیث تمام عبادات کو محیط ہے کی ہر عبادت عورت کی گھر میں بہتر ہے.
اس پر ہم ایک اور حدیث دیتے ہیں.
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا :
عورت کا گھر میں نماز پڑھنا حجرے (حویلی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے, اور گھر کے اندر چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے.
(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا شریعت کو زیادہ محبوب و مطلوب ہے.
شریعت کی اس پسندیدگی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے سمجھ لیا تھا اسی لیے فرمایا:
" لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المساجد کما منعہ نساء بنی اسرائیل".
(سنن ابی داؤد, کتاب الصلوة).
ترجمہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی اس حالت کو پاتے جو انھوں نے اب پیدا کیں ہیں تو ضرور انھیں منع فرمادیتے.
امام ابو داؤد نے یہاں اس نام سے باب باندھا ہے, باب تشدید فی ذالک, اس سلسلے میں سخت حکم...
اور مسجد جانے کی روایات بیان فرمانے کے بعد امام ابو داؤد اب سخت حکم بیان فرمارہے ہیں, گویا آپ امام ابو داؤد اس طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ پہلے اجازت تھی بعد میں فتنے کے خوف سے سخت حکم لگایا گیا.
حیرت ہے لوگ ٹی وی پر سخت حکم چھپا جاتے ہیں.
لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول ہے, مگر ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک کو ہم زیادہ سمجھ سکتے ہیں یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بہتر سمجھ سکتی ہیں?
اماں حضور مزاج رسالت سے واقف تھی اسی لیے تو تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حضور علیہ السلام اگر اس حالت کو پاتے جو عورتوں نے اب پیدا کی ہے تو ضرور ان کو مسجد سے روکتے,
اماں حضور یہاں صیغہ " منع"بھی فرماسکتی تھی مگر کیوں کہ آپ کو مزاج رسالت کی کامل معرفت حاصل تھی اس لیے فرمایا لمنعھن آپ نے لام تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حضور علیہ السلام ضرور منع فرماتے...
اب یہاں یہ کہنا کہ روک دیتے مگر حضور نے روکا تو نہیں, ہم کہتے ہیں پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ بیوتھن خیر لھن? وہ دور تو خود حضور علیہ الصلوة و السلام کا دور تھا اس وقت کسی فتنے کا امکان نہ تھا, لیکن حضور جانتے تھے کہ آنے والے دور میں عورتوں کی کیا حالت ہوگی اسی لیے فرمایا کہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں...
الترغیب والترہیب کی حدیث ہے کہ حضرت ام حمید خدمت اقدس میں حاضر ہوی عرض کی کہ آپ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا چاہتی ہوں.
فرمایا
تیرا گھر کی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے, اور صحن میں نماز پڑھنا اپنے دار سے افضل ہے, دار میں پڑھنا محلے کی مسجد سے افضل ہے, اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (مسجد نبوی) سے افضل ہے. اس ارشاد کو سن کر ام حمید نے گھر کے اندورنی حصے میں نماز کی جگہ بنای اور آخر وقت تک وہیں نماز پڑھتی رہیں.
غور کیجیے مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے مگر حضور علیہ السلام نے صحابیہ کو منع فرما دیا, آج کی عورت کس گنتی میں ہے.
کیوں منع فرمایا ?
اس لیے کہ آپ معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے.
دس منٹس کی نماز کے لیے مسجد جانا اگر باعث فتنہ ہوسکتا ہے تو دس دن کے اعتکاف میں یہ خدشہ مزید بڑھ جاتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ بعد کے علماء نے جب معاشرے کے بگاڑ کو دیکھا تو منع فرمادیا.
چنانچہ امام محمد رضی اللہ عنہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا عورتوں کو نماز عید کے لیے جانا واجب ہے?
امام صاحب نے فرمایا کہ پہلے انھیں اس کی اجازت تھی, لیکن اب میں اس کو ناپسند کرتا ہوں.
(المبسوط)
غور کیجیے یہ زمانہ رسالت کے بعد کے دور کی بات ہے, نا کہ 2018 کی, سال بعد آنے والی نماز عید میں عورتوں کا اجتماع کو امام صاحب نے نا پسند فرمایا.
اس دور میں عورتوں میں جس قدر بے حیای عام ہے یہ ہر خاص و عام پر ظاہر ہے, اس کے باوجود خواتین میں دینی زوق باقی رکھنے کے لیے علماء نے فرمایا کہ عیدین, نماز تراویح، اعتکاف اور درس و تدریس کے لیے مسجد یا مدرسے جاسکتی ہیں, اور پانچ وقت کی نماز گھر میں بہتر ہے....
یہاں یہ کہنا کہ گھر میں عورت کا اعتکاف ہوگا ہی نہیں علم حدیث اور مزاج شریعت سے محض ناواقفی ہے...
آخر میں ہم ان سے کہتے ہیں جو خود کو قرآن و حدیث کا فولوورز بتاتے ہیں, کہ آپ یہ تو عوام کو بتاتے ہو کہ نبی نے فرمایا لایمنعوا نساءکم مساجد, مگر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے نبی نے یہ بھی فرمایا ہے و بیوتھن خیر لھن. عورتوں کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں....
یقینا یہ اپنی پسند کے احکام بتانا اور مزاج شریعت کو چھپانا ہے...
تحریر: نادر رضا حسنی نوری
Like us My Page For More Updates